اگر ایسا ہو جائے!

January 24, 2021

اگر چچا بھتیجی ایک صفحے پر آجائیں۔ بڑے میاں صاحب سیاست سے باقاعدہ دستبردار ہو جائیں ، شریف خاندان کی سیاسی وراثت کی پگ چھوٹے میاں صاحب کے سر پر رکھ دیں اور یہ بھی طے کر لیں کہ اب مریم نواز اپنے والد کے سخت گیر سیاسی بیانیے پر انتہا پسندانہ رویہ اختیار نہیں کریں گی اور یہ اختیار بھی چھوٹے میاں صاحب کو دے دیں کہ مسلم لیگ کے تمام دھڑوں میں اتحاد و اتفاق کی نئی کوششیں شروع کی جائیں گی تو ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیے کو چند شرائط کے ساتھ قبول کیا جا سکتا ہے اور شریفوں، چوہدری برادران، پیر پگاڑا کی فنکشنل لیگ کا اتحاد نئی راہیں کھول کر ملک کو موجودہ بحرانی کیفیت سے نکال سکتا ہے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ ایسے میں پیپلز پارٹی کی قیادت کا کردار بڑی اہمیت کا حامل ہوگا کہ اگر وہ اِس خوف میں پی ڈی ایم کے ابتدائی ایجنڈے دھرنے، لانگ مارچ کی سیاست سے پیچھے ہٹ گئی ہے کہ چھوٹے میاں صاحب جیل میں بیٹھے کسی طاقتور کے ساتھ مل کر کوئی نئی کھچڑی پکا رہے ہیں اور اس میں پیپلز پارٹی کا حصہ بقدر جثہ نہیں ہے تو بھی بات بنتی نظر نہیں آتی۔ پیر پگاڑا کے خصوصی ایلچی محمد علی درانی کی چھوٹے میاں صاحب سے اچانک جیل میں ملاقات بےسبب نہیں تھی جو اتنی ہلچل مچی۔ فی الوقت ضمنی انتخابات اور سینیٹ انتخابات کے باعث اس ملاقات سے جو بھونچال آیا تھا، وقتی طور پر تھم تو چکا ہے لیکن آنے والے دنوں میں حکمرانوں کے لئے خیر کی کوئی خبر نہیں کہ جب بڑے خان صاحب سینیٹ کے انتخابات میں تحریک انصاف کی عددی اکثریت حاصل کرنے میں اِس قدر محتاط اور خوف زدہ ہوں کہ خفیہ ووٹ کی بجائے اوپن بیلٹ کے حق میں فیصلہ لینے سپریم کورٹ جا پہنچیں اور سپریم کورٹ میں اُن کی حامی پنجاب، خیبرپختونخوا، بلوچستان کی حکومتیں اس رائے سے متفق ہوں اور الیکشن کمیشن آئین و قانون کے مطابق اختلاف کرے تو یہ بات سمجھنا اور بھی آسان ہو جاتا ہے کہ بڑے خان صاحب کے پاس ایسی اطلاعات ہیں کہ اُن کی اتحادی جماعتیں ق لیگ، ایم کیو ایم، فنکشنل لیگ اور بی این پی مینگل اپنے ہم خیال سینیٹرز منتخب کرانے، مطالبات منوانے کے لئے کسی بھی وقت اپنا وزن سیاسی مخالفین کے پلڑے میں ڈال کر سینیٹ میں تحریک انصاف کی متوقع دو تہائی اکثریت کا خواب چکنا چور کر سکتی ہیں۔ خصوصاً یہ امتحان اس وقت اور بھی زیادہ کڑا ہو جائے گا اگر بلوچستان میں حکومتی اتحادی اپوزیشن کے ساتھ اتحادکر لیں اورکہیں صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ کے عہدے سے ہٹانے کی سوچ پیدا ہو جائے یا پھر انہیں چیئرمین سینیٹ برقرار رکھنے پر ہی گزارہ کرنا پڑے تو بادل نخواستہ تحریک انصاف ڈپٹی چیئرمین کے عہدے پر اپنا امیدوار لائے گی اور پنجاب میں سب سے اہم اتحادی جماعت ق لیگ یہ مطالبہ کرے کہ ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ اسے دیا جائے تو یہ راہیں کٹھن ہو جائیں گی۔ کیا بڑے خان صاحب اتنے فراخ دل ہیں کہ اس امتحانی صورتحال میں پنجاب، سندھ، بلوچستان میں بیک وقت اپنے اتحادیوں کو مطمئن کر سکیں اور یہ اتحادی انہیں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اتنا طاقت ور بنا دیں کہ وہ جو چاہیں، جیسے چاہیں، آزادانہ قانون سازی کر سکیں۔ یقیناً یہ سو ملین ڈالر سوال ہے جس کے جواب میں اتحادی بھی ہزار بار سوچیں گے کہ تحریک انصاف کے دور اقتدار میں ان سے کتنے وعدے وفا ہوئے اور کس کس وقت ان سے دھوکہ ہوا۔ کہاں کہاں اُنہیں لولی پاپ دے کر خاموش کرا دیا گیا اور بحران ٹلنے کے بعدحکومتی رویہ کیا رہا؟ ایسے حالات میں ایم کیو ایم بمقابلہ تحریک انصاف کراچی کی قومی، صوبائی و بلدیاتی سیاست میں باہم ٹکراؤ، اختیارات کی جنگ اس نہج کو چھو رہی ہو کہ ایم کیو ایم کے وزراء مردم شماری کی وفاقی کابینہ سے منظوری کے موقع پر اختلافی نوٹ بھی لکھیں، احتجاج بھی کریں اور اس ایک نکتے پر اگر ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی کے ساتھ سندھ اسمبلی میں اپنے سینیٹرز منتخب کرانے کے لئے اتحاد کرلے اور پنجاب میں ق لیگ کی قیادت کے خلاف نیب کیسز کا دباؤ، فنڈز نہ دینے کے گلے شکوے اور بلدیاتی انتخابات نہ کروانے پر بضد تحریک انصاف اور ق لیگ کے درمیان بلدیاتی انتخابات میں تاخیر پر اختلافات اور ق لیگ کی اس حوالے سے بھرپور تیاریاں، گڈ اور بیڈ گورننس کی تکرار، چوہدری برادران کا بار بار یہ کہنا کہ حکومت مہنگائی پر توجہ دے، عوامی مسائل حل کرے، یہ وہ حساس ترین سیاسی موضوعات ہیں جن کے بارے میں عوام کی بجائے ان سیاسی اتحادیوں نے اپنے مستقبل کے فیصلے کرنے ہیں اور جب بڑے چوہدری صاحب اس انداز میں حکومتی کارکردگی پر عدم اعتماد بھی کریں کہ مہنگائی کا اثر صرف تنخواہ دار طبقے پر ہوتا ہے جو لاوا غریب آدمی کے اندر پک رہا ہے اس کی زد میں نہ صرف حکمران بلکہ تمام سیاست دان بھی آئیں گے۔ ملک ایسی آفت میں پھنس جائے گا جس سے نکلنا مشکل ہوگا اور بیڈ گورننس پر اس انداز میں تبصرہ کریں کہ شخصیات کی کرپشن پر تو سب دھیان دیتے ہیں لیکن ٹیکنیکل طریقے سے کرپشن کرنے والے کو کوئی نہیںپوچھتا اور ساتھ ہی مستقبل کی سیاست کا نقشہ یوں پیش کریں کہ تمام مکاتب فکر کے لوگ باہمی اختلافات اور سیاست دان اپنی اپنی سیاست بھول کر عوام کی تکلیف دور کرنے کے لئے اکٹھے ہوں، عوام کا خیال رکھنے والی حکومتیں ہی دلوں میں بستی ہیں اور چھوٹے چوہدری صاحب کا یہ کہناکہ انتقام کی منفی سیاست سے تکبر کی بُو آتی ہے اور تکبراللہ کو پسند نہیں، یہ وہ سوال ہے جس کا جواب آنے والے دنوں میںبڑے خان صاحب کے سامنے ضرور آئے گا۔ محمد علی درانی بڑے زیرک سیاست دان ہیں جو چھوٹے میاں صاحب کے پاس پیر پگاڑا صاحب کا یہ پیغام لے کر گئے کہ مسلم لیگ کے تمام دھڑوں کا اتحاد ہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اگر یہ اتحاد وجودمیں آجائے اور دوسری طرف ایم کیو ایم سندھ کی سطح پر پیپلز پارٹی سے ہاتھ ملا لے تو قدر دانوں کے کندھوں پر بڑھتا ہوا بوجھ بھی کسی حد تک کم ہو جائے گا اور ملک بھی بحرانوں سے نکل آئے گا۔