کیا پاکستانی ٹیم ملک سے باہر بھی جیتنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟

February 02, 2021

تصاویر، شعیب احمد

عام طور پر کرکٹرز ایک کارکردگی کے بعد آسمانوں کی جانب پرواز کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔فواد عالم کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔وہ مسلسل اچھی کارکردگی کے باوجود انکساری سے بات کررہے ہیں ۔جنوبی افریقا خلاف کراچی ٹیسٹ میں سنچری بنانے کے بعد جب ان سے سوال کیا گیا کہ انٹرنیشنل کرکٹ سے خود کو دس سال تک باہر رکھنے کا ذمہ دار کسے سمجھتے ہیں اور کیا آج کی سنچری کے بعد انہوں نے ان ذمہ داروں کو معاف کردیا ہے۔

فواد عالم نے اس سوال کا برجستہ جواب کچھ یوں دیابائونسر نہ ماریں۔ میں کون ہوتا ہوں کسی کو معاف کرنے والا۔ معاف کرنے والی ذات صرف اللہ کی ہے۔انہوں نے کبھی بھی کسی کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا ہے۔

ان کی ہمیشہ یہی سوچ رہی ہے کہ ان کے نصیب میں جو نہیں تھا وہ انھیں نہیں ملا اور اسی سوچ کے ساتھ وہ آگے بڑھتے رہے ہیں۔ میں یہ نہیں سوچتا کہ میرے دس سال ضائع ہوگئے۔ یہ کسی بھی انسان کو نہیں پتہ کہ اس کے نصیب میں کیا ملنا لکھا ہے۔ میرے نصیب میں جو کچھ لکھا ہے وہ مجھے ملنا ہے۔

میری سوچ یہی ہے کہ آپ کو جو مواقع مل رہے ہیں ان سے فائدہ اٹھاؤں اور اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کروں۔ اللہ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ ہیڈ کوچ مصباح الحق نے ہمیشہ انہیں حوصلہ دیا ہے حالانکہ انگلینڈ کے دورے میں ان سے اسکور نہیں ہوا اور وہ ٹیم سے ڈراپ ہوسکتے تھے لیکن کوچ کو ان پر یقین تھا۔وہ کہتے ہیں اسی طرح انہیں نیوزی لینڈ میں بھی چانس دیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ ٹیم منیجمنٹ کی طرف سے انھیں بڑی سپورٹ مل رہی ہے اور اسی اعتماد کی وجہ سے وہ نیوزی لینڈ میں بھی ٹیسٹ سنچری اسکور کرنے میں کامیاب ہوسکے۔فواد عالم نے کراچی ٹیسٹ کی سنچری کا تحفہ اپنے والدین کو دیا اور سنچری والدین کے نام سے منسوب کردی۔فواد عالم اور نعمان علی نے جس وقت کا طویل عرصے انتظار کیا تھا موقع ملتے ہی دونوں نے اپنے اپنے انتخاب کو درست ثابت کردکھایا۔

یہ بدقسمتی کہیں کہ فواد عالم نے گیارہ سال بعد 35سال کی عمر میں پاکستان ٹیم میں کم بیک کیا ہے جبکہ لیفٹ آرم اسپنر نعمان علی نے پہلا ٹیسٹ34سال کی عمر میں کھیلا۔نعمان علی ڈبیو پر پانچ وکٹیں لینے والے عمر رسیدہ پاکستانی کرکٹر ہیں جبکہ 72سال میں دنیا کے کسی بولر نے پانچ وکٹیں حاصل نہیں کی ہیں۔

نعمان علی پاکستان کی ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں 12 ویں بولر ہیں جنھوں نے اپنے ڈیبیو ٹیسٹ کی ایک اننگز میں پانچ وکٹیں لی ہیں۔ وہ پاکستان کے سب سے عمر رسیدہ بھی کرکٹر ہیں جنھوں نے ٹیسٹ ڈیبیو پر اننگز میں پانچ وکٹیں لی ہیں۔نعمان علی نے34 سال 111 دن کی عمر میں پہلا ٹیسٹ کھیلا تھا۔

نعمان علی سے قبل بلال آصف نے 33 سال تیرہ دن کی عمر میں ڈیبیو پر پانچ وکٹیں لیں تھیں۔نعمان علی گزشتہ 72 سال میں ڈبیو پر پانچ وکٹیں لینے والے دنیا کے معمر ترین بولر بھی ہیں34 سال سے زائد عمر میں ڈبیو پر پانچ وکٹیں لینے والے آخری کرکٹر نیوزی لینڈ کے فین کریسویل تھے۔

وہ پہلے ٹیسٹ میں پانچ وکٹ لینے والے پاکستان کے پہلے لیفٹ آرم اسپنر ہیں۔جبکہ پاکستان کے بارہویں بولر ہیں جنہوں نے ڈیبیو پر پانچ وکٹیں حاصل کیں۔ نعمان علی پاکستان کے تیسرے اسپنر ہیں جنہوں نے ڈیبیو ٹیسٹ پر پانچ وکٹیں لیں کراچی نعمان علی سے پہلے محمد نذیر جونیئر، شاہد آفریدی اور بلال آصف نے پانچ پانچ وکٹ حاصل کئے تھے۔نذیر جونیئر اور شاہد آفریدی نے یہ کارنامہ کراچی میں انجام دیا۔نیشنل اسٹیڈیم میں میں پاکستانی کرکٹ ٹیم نے اپنے ریکارڈ کو بہتر کرتے ہوئےجنوبی افریقا کے خلاف پہلا ٹیسٹ چند نشیب وفراز کے بعد سات وکٹ سے جیت لیا۔

مصباح الحق کے کوچ بننے کے بعد پاکستان وک ٹیسٹ میچوں میں تیسری فتح ہوم گراونڈ پر ہی ملی ہے۔بیرون ملک پاکستان آسٹریلیا،انگلینڈاور نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز ہار چکا ہے۔اس جیت سے مصباح الحق کے سر پر لٹکنے والی تلوار بھی ہٹ گئی۔کیوں کہ خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ جنوبی افریقا کے خلاف خراب کارکردگی مصباح الحق اور وقار یونس کے لئے بھی مشکل پیدا کرے گی۔

بابر اعظم نے کپتان کی حیثیت سے پہلا ٹیسٹ جیت لیا۔پاکستان نے ہوم گراونڈ پر2003کے بعد جنوبی افریقا کو دوسری بار ہرایا۔جبکہ مجموعی طور پر27ویں ٹیسٹ میں پاکستان نے پانچویں بار جنوبی افریقا کو شکست دی۔بابر اعظم نے کپتان کی حیثیت سے پہلے ہی ٹیسٹ میں کامیابی حاصل کرنے والے گیارہویں کپتان بن گئے۔پاکستان نے جنوبی افریقا کو چھ سال بعد ٹیسٹ میچ میں شکست دی۔

آخری ٹیسٹ پاکستان نے متحدہ عرب امارات میں جیتا تھا۔کراچی ٹیسٹ کے ہیرو فواد عالم رہے جنہوں نے اپنے ہوم گراونڈ میں سنچری اور وننگ اسٹروک کھیلا۔جبکہ کھپرو سے تعلق رکھنے والے اسپنر نعمان علی نے پہلے ہی ٹیسٹ میں شاندار کھیل کا مظاہرہ کردیا۔اسپنرز نعمان علی اور یاسر شاہ نےدوسری اننگز میں مجموعی طور پر9وکٹ حاصل کئے۔

پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے نعمان علی نے25.3اوورز میں35رنز دے کر پانچ وکٹ حاصل کئے اور میچ میں سات کھلاڑیوں کو آوٹ کیا۔لیگ اسپنر یاسر شاہ نے79رنز دے کر چار وکٹ حاصل کئے۔پاکستانی اسپنرز نے میچ میں14 وکٹ حاصل کئے۔نیوزی لینڈ کے ہاتھوں ٹیسٹ سیریز میں شرم ناک کارکردگی اور سلیکشن میں فاش غلطیوں کے بعد مصباح الحق سے عملی طور پر سلیکشن کے اختیارات واپس لے لئے گئے ہیں۔

پی سی بی چاہتا ہے کہ چیف سلیکٹر محمد وسیم اور بابر اعظم ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لیں اور درست فیصلے کریں۔بابر اعظم کپتان بن کر ٹیم کو فتوحات ضرور دلوائیں لیکن وہ ایسی ٹیم بنائیں جو دنیا کی بڑی ٹیموں سےان کے ملک میں بھی مقابلہ کرے۔جنوبی افریقا کے خلافپ اکستانی ٹیم اگر یہ سیریز ایک صفر سے جیتنے میں کامیاب ہوتی ہے یا یہ سیریز ایک ایک سے برابر ہوتی ہے تب بھی پاکستانی ٹیم عالمی ٹیسٹ رینکنگ میں ساتویں سے چھٹے نمبر پر آجائے گی جبکہ پاکستانی ٹیم کی دو صفر سے جیت اسے عالمی رینکنگ میں پانچویں نمبر پر لے جائے گی۔

بحیثیت کپتان اپنے پہلے ٹیسٹ میں جیت سے ہمکنار ہونے والے بابر اعظم اس کامیابی کو پاکستانی کرکٹ ٹیم کے لیے بڑی اہمیت کا حامل سمجھتے ہیں لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی چاہتے ہیں ۔کہ پاکستانی ٹیم صرف اپنے ہوم گراؤنڈ پر ہی نہیں بلکہ ملک سے باہر بھی ٹیسٹ میچز جیتے۔بابر اعظم کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستانی ٹیم ملک سے باہر بھی ٹیسٹ میچز جیتے۔

ہوم گراؤنڈ پر کھیلتے ہوئے کنڈیشنز آپ کے لیے سازگار ہوتی ہیں لیکن جب آپ ملک سے باہر جا کر کامیابی حاصل کرتے ہیں تو اس سے کھلاڑیوں کا اعتماد مختلف درجے پر پہنچ جاتا ہے۔پاکستانی ٹیم کے کپتان نے کھلاڑیوں کو دیے جانے والے اعتماد کے بارے میں کہا کہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ اگر کسی کھلاڑی نے ایک میچ میں اچھی کارکردگی نہیں دکھائی تو اسے ڈراپ کر دیں۔

بابر اعظم لیفٹ آرم سپنر نعمان علی کے بارے میں کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی کارکردگی سے کہیں بھی یہ ظاہر نہیں ہونے دیا کہ وہ کسی بڑی ٹیم کے خلاف اپنا پہلا ٹیسٹ کھیل رہے تھے۔انٹرنیشنل کرکٹ کا اپنا دباؤ ہوتا ہے اور کھلاڑی جتنی جلد سیکھتا ہے اس سے اس کی کارکردگی اوراعتماد میں اضافہ ہوتا ہے۔

بابر اعظم نے یہ تسلیم کیا کہ شائقین ان سے ہمیشہ بڑے اسکور کی توقعات وابستہ رکھتے ہیں وہ ان توقعات پر پورا اترنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں لیکن ہر دن ایک جیسا نہیں ہوتا۔پاکستان نے کراچی ٹیسٹ جیت لیا جمعرات سے پنڈی میں دوسرا ٹیسٹ شروع ہوگا لگ یہی رہا ہے کہ یہ سیریز پاکستان کرکٹ کی نئی سمت کا تعین کرے گی۔