سندھ میں کھیلوں کی نئی پالیسی کا خاکہ تیار

February 09, 2021

ملک میں کھیلوں کی پالیسی ہونے کے باوجود وطن عزیز میں کھیل کا شعبہ زوال کا شکار ہے2001میں اس وقت کے وزیر کھیل ایس کے ٹریسلر نے ملک میں پہلی مرتبہ کھیلوں کی پالیسی لانے کا فیصلہ کیا جس کو2005میں پار لیمنٹ سے منطور کرا کر نافذ کیا گیا،مگر اس کے بعد ہر حکومت نے نے پالیسی کے صرف ایک پوائنٹ کو ہی اہمیت دی جو فیڈریشن کے عہدے داروں کے عہدے کی مدت کے حوالے تھا، پالیسی کے دیگر نکات کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا گیا،اس پالیسی کے تحت عالمی، ایشیائی اور اولمپکس مقابلوں میں میدلز حاصل کرنے والے کھلاڑیوں کو نقد انعامات ضرور دئیے گئے۔

مگر نئے کھلاڑیوں کی کوچنگ، ان کی مہارت اور تیکنک میں بہتری، ان کے معاشی مسائل کے حل کی جانب کسی نے توجہ نہیں دی، موجودہ حکومت نے ایک بار پھر نئی اسپورٹس پالیسی لانے کا فیصلہ کیا ہے،18ویں ترمیم کے تحت اب وفاقی سطح پر کھیلوں کی وزارت ختم کردی گئی اور صوبائی وزراء کھیل زیادہ بااختیار ہوگئے ہیں اس لئے بین الصوبائی رابطے کی وزارت نے نئی کھیلوں کی پالیسی کے لئے صوبوں سے تجاویز مانگی ہے،اب ہر صوبہ بھی اپنی الگ الگ اسپورٹس پالیسی لارہا ہے۔

جس میں سندھ حکومت بازی لے گئی ہے، اس کے سکریٹری کھیل سید امتیاز علی شاہ نے مشاورت سے نئی پالیسی کا خاکہ تیار کر لیا ہے،تاہم انہوں نے ایک نئی مثال قائم کرتے ہوئے پچھلے دنوں محکمہ کھیل اور اسپورٹس جرنلسٹس ایسوسی ایشن سندھ (سجاس) کے تعاون سے ہونے والے سیمینار میں اسپورٹس پالیسی کو حتمی شکل دینے سے قبل صوبائی ایسوسی ایشنوں کے نمائندوں سے بھی رائے لی جس میں مختلف ایسوسی ایشنوں کے نمائندوں احمد علی راجپوت( سکریٹری ایس او اے) سید محفوظ الحق (ایس او اے)،غلام محمد خان(باسکٹ بال)، اصغر بلوچ( باکسنگ)، خالد رحمانی (ٹینس)، آصف عظیم( میڈیا آفیسر پی او اے)نوید کپاڈیا( اسنوکر)، محمد نسیم قریشی( کراٹے)، گلفراز خان، حیدر حسین،ارم بخاری( ہاکی)شاہد مسعود( والی بال) عرفان شیخ ( بیس بال)،فرخ کمال( ٹیبل ٹینس)عمران زمان( پینتھالون) کے عالوہ عائشہ ارم پرویز شیخ، نثار عبداللہ،ماجدہ حمید،وینا مسعود( سوئمنگ) محمد راشد، منصور شہزاد، دوست محمددانش، سید سعید جمیل سید سخاوت علی، اسلم خان، طارق پرویز، عبدالباسط، زونیبیہ واصف، محمد واصف، مبشر مختار سمیت دیگر عہدے داروں نے اپنی رائے اور تجاویز پیش کی۔

جس میں کھلاڑیوں کو اسکالر شپ دینے، آرگنائزر کے لئے بھی ایوارڈ،تعلیمی اداروں میں کھیلوں کے کوٹے کی بحالی، مقابلوں میں شر کت کے دوران سفری رعایت، کراچی اور اس کے باہر جدید طرز کے اسپورٹس کمپلکس کی تعمیر،ڈسٹرکٹ اسپورٹس آفیسر کی تقرری،کھلاڑیوں کو کوچنگ کی سہولتوں کی فراہمی، ان کی غذائیت کے حوالے سے ماہر غذا کی تقرری، فیڈریشن اور ایسوسی ایشن میں صدر، سکریٹری جنرل اور خزانچی میں سے ایک نشست پر خاتون کا انتخاب لازمی قرار دینے،میدانوں کی صورت حال کو بہتر بنانے کے ساتھ صوبے میں کھیلوں کی متوازی ایشنوں کے خاتمے پر زور دیا گیا۔

اکثریت کا کہنا تھا کہ متوازی ایسوسی ایشنز سندھ میں کھیلوں کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں،جس کے جواب میں سکریٹری کھیل امتیاز علی شاہ نے کہا کہ سندھ حکومت کی نئی صوبائی اسپورٹس پالیسی میں کھلاڑیوں کی فلاح بہبود، عالمی سطح پر میڈلز جیتنے والوں کو نقد انعامات دینے، متوازی ایسوسی ایشںز کے خاتمہ، انفرااسٹرکچر کا جال بچھانے، گراس روڈ پر کھیلوں کے فروغ کے لیے اقدامات کا لائحہ عمل تیار کیا جائے گا، نئی اسپورٹس پالیسی وقت کی اہم ضرورت ہے، جامع پلان نہ ہونے کے باعث مسائل پیدا ہوئے ہیں۔

محکمہ کھیل کا بنیادی کام ہی کھیلوں کو فروغ دینا اور کھلاڑیوں کی فلاح ہے،نئی صوبائی پالیسی میں کھلاڑیوں کو انعامات اور اعزازات دینے کا بھی ایک میکینزم بنا رہے ہیں، کھیل کے میدانوں کے ساتھ ساتھ کھلاڑیوں کے لئے ہاسٹلز بھی ہونے چا ہئے، محکمہ تعلیم سے مل کر اسکول اور کالج کی سطح پر کھیلوں کی سرگرمیاں کرنا بھی ہمارے پالیسی کا حصہ ہوگا، خواتین کے کھیلوں کے فروغ کے ساتھ ان کو مناسب نمائندگی دی جائے گی، کھلاڑیوں کے لیے پینشن کوچز اور آرگنائزرز کے لیے ایوارڈز اور نقد انعامات بھی تجویز کیے گئے ہیں، جبکہ اسپورٹس ویلفیئر فنڈز کی تجویز کو اسپورٹس پالیسی میں شامل کیا جائے گا، سجاس کے صدر آصف خان نے اظہار تشکر کیا، سیکریٹری اصغر عظیم نے نظامت کے فرائض انجام دئیے۔