خدمتِ خلق اور غریبوں کی کفالت

February 19, 2021

مولانا نعمان نعیم

(مہتمم جامعہ بنوریہ عالمیہ)

ارشادِ ربّانی ہے:’’ کون شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کو قرضِ حسن دے ،تاکہ اللہ تعالیٰ اْسے کئی گنا بڑھاکر واپس کرے، مال کا گھٹانا اور بڑھانا سب اللہ ہی کے اختیار میں ہے ،اور اسی کی طرف تمہیں پلٹ کرجانا ہے ‘‘(سورۃ البقرہ،:۲۴۵)کسی کو واپسی کی ضمانت کے ساتھ کچھ مال دینے کو قرض کہتے ہیں۔مالک حقیقی اس سے قرض مانگ رہا ہے جس کے پاس اس کی امانت ہے اور اس کا فضل و کرم ہے کہ اسے کئی گنا کر کے واپس کرے گا اور ساتھ ہی اجر کریم بھی عنایت کرے گا۔اللہ کو قرض حسن دینے کا مطلب ہے، اللہ کی راہ میں صدقہ و خیرات کرنا، یہ مال، جو انسان اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے، اللہ ہی کا دیا ہوا ہے، اس کے باوجود اسے قرض قرار دینا، یہ اللہ کا فضل و احسان ہے کہ وہ اس انفاق پر اسی طرح اجر دے گا جس طرح قرض کی ادائیگی ضروری ہوتی ہے۔

یہ اللہ تعالیٰ کی شان کریمی ہے کہ آدمی اگر اس کے بخشے ہوئے مال کوخدمت خلق ،غریب طبقے کی مالی مدد اور اسی کی راہ میں صرف کرے تو اسے وہ اپنے ذمہ قرض قرار دیتا ہے ، بشرطیکہ وہ قرض حسن ( اچھا قرض ) ہو ، یعنی خالص نیت کے ساتھ کسی ذاتی غرض کے بغیر دیا جائے ، کسی قسم کی ریا کاری اور شہرت و ناموری کی طلب اس میں شامل نہ ہو ، اسے دے کر کسی پر احسان نہ جتایا جائے ، اس کا دینے والا صرف اللہ کی رضا کے لیے دے اور اس کے سوا کسی کے اجر اور کسی کی خوشنودی پر نگاہ نہ رکھے ۔

قرضہ حسنہ دینے والوں سے اللہ تعالیٰ نے دو وعدے فرمائے۔ایک یہ کہ اللہ اسے کئی گناہ زیادہ کرکے واپس کرے گا۔دنیا میں بھی ایسے خرچ کیے ہوئے مال کی واپسی کا اللہ نے وعدہ کر رکھا ہےاور آخرت میں تو سات سو گنا یا اس سے بڑھ کر بھی اضافہ ہوسکتا ہے۔دوسرا وعدہ یہ کہ انہیں عمدہ اجر عطا کرے گا۔یہ فقرہ اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے ہی عطا کردہ مال میں سے انسان اس مال کا کچھ حصہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق خرچ کردے تو انسان کو بدلہ ملنے کا حق کہاں ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود اللہ ایسے قرض حسنہ دینے والوں کو بہت عمدہ اجر عطا فرمائے گا۔

سورۂ آل عمران میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرو گے، ہرگز بھلائی نہیں پاؤگے‘‘۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی چھ آیات اوربارہ مقامات پرقرض کا ذکر فرمایا ہے اور ہر آیت میں قرض کو حسن کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ محتاج لوگوں کی مدد کرنے سے مال میں کمی واقع نہیں ہوتی ہے ،بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے جو مال غریبوں، مسکینوں اور ضرورت مندوں کو دیا جاتا ہے ،اللہ تعالیٰ اس میں کئی کئی گنا اضافہ فرماتا ہے، کبھی ظاہری طور پر ، کبھی معنوی وروحانی طور پر اس میں برکت ڈال دیتا ہے، اور آخرت میں تو یقیناً اس میں حیران کن اضافہ ہوگا۔

آیت میں قرضِ حسن سے کیا مراد ہے ؟تو درحقیقت یہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا ، غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرنا، یتیموں اور بیواؤں کی کفالت کرنا، مقروضین کے قرضوں کی ادائیگی کرنا ، نیز اپنے بچوں پر خرچ کرنا مراد ہے۔غرضیکہ انسانیت کے کام آنے والی تمام شکلیں اس میں داخل ہیں۔ اسی طرح قرضِ حسن میں یہ شکل بھی داخل ہے کہ کسی پریشان حال شخص کو اس نیت کے ساتھ قرض دیا جائے کہ اگر وہ اپنی پریشانیوں کی وجہ سے واپس نہ کرسکا تو اس سے مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ جب قرضِ حسن سے متعلق آیت قرآن کریم میں نازل ہوئی تو حضرت ابو الدحداح انصاریؓ حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہﷺ! کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض طلب فرماتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں… وہ عرض کرنے لگے: اپنا دست مبارک مجھے پکڑا دیجیے (تاکہ میں آپ کے دست مبارک پر ایک عہد کروں) حضور اکرم ﷺ نے اپنا دست مبارک دراز کیا۔ حضرت ابو الدحداح انصاریؓ نے معاہدے کے طور پر حضور اکرم ﷺ کادست مبارک پکڑ کر عرض کیا یا رسول اللہﷺ! میں نے اپنا باغ اپنے اللہ کو قرض دے دیا۔ ان کے باغ میں کھجور کے۶۰۰ درخت تھے، اور اسی باغ میں ان کے بیوی بچے رہتے تھے،وہ وہاں سے اٹھ کر اپنے باغ میںگئے اور اپنی بیوی ام الدحداح سے آواز دے کر کہاکہ چلو اس باغ سے نکل چلو، یہ باغ میں نے اپنے رب کو دےدیا ہے۔(تفسیر ابن کثیر)

جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ،اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے بڑھا چڑھا کردے اور اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔ (سورۃ البقرہ ۲۶۱)

ان لوگوں کی مثال جو اپنا مال اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب میں دل کی خوشی اور یقین کے ساتھ خرچ کرتے ہیں ،اس باغ جیسی ہے جو اونچی زمین پر ہو، اور زوردار بارش اس پر برسے اور وہ اپنا پھل دگنا دے اور اگر اس پر بارش نہ بھی برسے تو پھوار ہی کافی ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔ (سورۃالبقرہ ۲۶۵)

جس قدر خلوص کے ساتھ ہم اللہ تعالیٰ کے راستے میں مال خرچ کریں گے، اتنا ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا اجر وثواب زیادہ ہوگا۔ ایک ریال بھی اگر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کسی محتاج کو دیا جائے گا، تو اللہ تعالیٰ ۷۰۰ گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ ثواب دے گا۔ مذکورہ بالا آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ کی دو صفات ذکر کی گئی ہیں: وسیع اور علیم۔ یعنی اس کا ہاتھ تنگ نہیں ہے کہ جتنے اجر کا عمل مستحق ہے ،وہی دے، بلکہ وہ اس سے بھی زیادہ دے گا۔ دوسرے یہ کہ وہ علیم ہے کہ جو کچھ خرچ کیا جاتا ہے اور جس جذبے سے کیا جاتا ہے، اس سے بے خبر نہیں ہے بلکہ اس کا اجر ضرور دے گا۔

جن حضرات کو قرض حسن اور صدقات دیئے جاسکتے ہیں، ان میںغریب رشتے دار، یتیم، بیوہ، فقیر، مسکین، سائل، قرض دار یعنی وہ شخص جس کے ذمہ لوگوں کا قرض ہو، اور وہ مسافر جو حالت سفر میں تنگدست ہوگیا ہو، جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:جو مال سے محبت کرنے کے باوجود رشتے داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والے کو دے۔ (سورۃ البقرہ ۱۷۷)ان کے مال میں مانگنے والے اور محروم کا حق ہے۔ (سورۃ الذاریات ۱۹)

قرض حسن اور انفاق فی سبیل اللہ میں پسندیدہ چیزیں خرچ کریں:

جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرو گے ہرگز بھلائی نہیں پاؤگے۔(سورۂ آل عمران ۹۲)ایک مقام پرفرمایا گیا:اے ایمان والو! اپنی پاکیزہ کمائی میں سے خرچ کرو۔ (سورۂ البقرہ ۲۶۷)

حضرت ابوطلحہؓ حضور اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہﷺ! اللہ تعالیٰ نے محبوب چیز کے خرچ کرنے کا ذکر فرمایا ہے، اور مجھے ساری چیزوں میں اپنا باغ سب سے زیادہ محبوب ہے، میں اسے اللہ کے لئے صدقہ کرتا ہوں اور اس کے اجروثواب کی اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : اے طلحہ ؓ ! تم نے بہت ہی نفع کا سودا کیا۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ حضرت ابو طلحہؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! میرا باغ جو اتنی بڑی مالیت کا ہے، وہ صدقہ ہے اور اگر میں اس کی طاقت رکھتا کہ کسی کو اس کی خبر نہ ہو تو ایسا ہی کرتا، مگر یہ ایسی چیز نہیں ہے جو مخفی رہ سکے۔ ( تفسیر ابن کثیر)

(…جاری ہے…)