محکمہ صحت میں کرپشن

February 21, 2021

اس ملک میں محکمہ دفاع کے علاوہ سب سے بڑا بجٹ محکمہ تعلیم اور محکمہ ہیلتھ کا ہے۔ اگر اسے دیانتداری اور ایمانداری سے استعمال کیا جائے تو تعلیم اور صحت کے سارے مسائل مکمل طور سے حل ہو جائیں عوام کو ان دونوں محکموں سے کسی قسم کی شکایت نہ رہے۔ صحت کے محکمے کے بنیادی فرائض میں مسیحائی کا کردار ہے۔ مریض جب ہمہ اقسام کی بیماریوں میں مبتلا ہوکر اسپتال یا صحت مراکز پہنچتے ہیں تو وہاں انہیں مایوسی ہوتی ہے۔نہ تو اسپتال میں ان کے علاج معالجے پر توجہ دی جاتی ہے اور نہ ہی انہیں ادویات یا ٹیسٹس کی سہولتیں دستیاب ہوتی ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل اسٹاف مریضوں کو اپنے پرائیوٹ اسپتال بلاتے ہیں جہاں انہیں علاج کے بہانے دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا ہے۔

ان مریضوں میں سے زیادہ تر مالدار مریض ہوتے ہیں جو ان کی منہ مانگی فیس اور تجویز کیے گئے مہنگے ٹیسٹوں کو پرائیوٹ لیبارٹریوں میں کرانے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ لیکن یہاں آنے والوں میں اکثریت غریب اور نادار مریضوں کی ہوتی ہے اور وہ ڈاکٹروں کے نجی کلینکس و اسپتالوں میں علاج کرانے کی بساط نہیں رکھتے۔وہ سرکاری اسپتالوں میں علاج کیلئے ڈاکٹروں کی منتیں کرتے ہیں۔اکثر اوقات اسپتال میں زیرعلاج مریضوں کو اسپتال کے اسٹوروں سے دوا فراہم کرنے کی بجائے مہنگی ادویات پرائیوٹ میڈیکل اسٹوروں سے خریدنے کے لیے لکھ کر دی جاتی ہیں۔باہر کے اسٹوروں سے زیادہ تر ادویات خریدنا غریب مریضوں کے بس کی بات نہیں ہوتی، اسی طرح کافی مریض غریب ہونے اور مکمل علاج نہ ملنے کی وجہ سے فوت ہو جاتے ہیں۔

زیادہ تر سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل عملہ مریضوں کے لیے حکومت کی جانب سے خریدی جانے والی ادویات فارما سیوٹیکل کمپنیوں کی ملی بھگت جعلی بل بنوا کر کروڑوں روپے ہڑپ کرنے کے بعد مذکورہ ادویات بھی پرائیوٹ میڈیکل اسٹورز پر فروخت کردی جاتی ہیں۔ حکومت کی جانب سے سختی اور پکڑ دھکڑ کے خوف سے گزشتہ چند سالوں سے انہوں نے ایک اور فارمولا بنالیا ہے کہ وہ اپنے جرم کو چھپانے کیلئے سرکاری میڈیکل اسٹور پر پڑی ہوئی زائد المدت اور مضر صحت ادویات نالوں یا جنگل میں پھینک دیتے ہیں۔

چند روز قبل اسی قسم کا واقعہ عمرکوٹ کے قریب چھاچھرو روڈ پر پیش آیا۔ ویران جگہ پر بھاری مقدار میں ادویات پڑی پائی گئیں۔ ذرائع ابلاغ پر خبر نشر چلنے کے بعد ڈی جی ہیلتھ نے ایک تحقیقاتی کمیٹی ڈپٹی ڈائریکٹر ہیلتھ مشتاق میمن اور ڈائریکٹر ہیلتھ میرپورخاص ڈاکٹر محمد یوسف کنبھر کی قیادت میں بنائی۔

کمیٹی کے ارکان عمرکوٹ پہنچ کر ڈی ایچ او عمرکوٹ ڈاکٹر الھداد راٹھور سے ملے۔ موصوف سرکاری ادویات کا ضیاع کرنے میں خاصی شہرت رکھتے ہیں۔ تین سال قبل عمرکوٹ کے قریب حیدرفارم کے مقام پر جنگل میں لاکھوں روپے کی ادویات پھینکی گئی تھیں۔اس کا محکمہ صحت کے حکام نے نوٹس بھی لیا تھا اور اس بارے میں تحقیقات بھی کی گئی۔ اس جرم کے مرتکب افرادکی نشاندہی بھی ہو گئی تھی۔محکمہ صحت کی طرف سے اس معملے کی تحقیقات کی جارہی تھی حال ہیمیں اسی قسم کا دوسرا واقعہ رونما ہوا ہے۔

تحقیقاتی کمیٹی نے تفتیش کے بعد ابتدائی رپورٹ میں بتایا کہ مذکورہ ادویات عمرکوٹ اور تھرپاکر اضلاع کی نہیں سن 2017 اور 2018 میں سول اسپتال عمرکوٹ کی ادویات میں ہونے والی کرپشن اور جعلی بلز کے ذریعے ڈھائی کروڑ روپے کی کرپشن کرنے کی ڈی جی ہیلتھ کے جانب سے تین سال کے بعد تحقیقات کے دوران ثبوت ملنے کے بعد اس وقت کے سول اسپتال عمرکوٹ کے دو سابقہ ایم ایس ڈاکٹر محمد جام کنبھر ڈاکٹر معز علی شاہ اسٹور کیپر نواز سومرو اکاؤنٹ کلرک رمیش کمار کے خلاف ڈھائی کروڑ کی کرپشن کرنے کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔

سرکل افسر اینٹی کرپشن عمرکوٹ نے مختلف سیکشن کے تحت ان چاروں ہیلتھ کے افسران کے خلاف باقاعدہ مقدمات درج کرکے ان کی گرفتاری کیلئے چھاپے مار رہی ہے اب دیکھناے ہے کہ عمرکوٹ ضلع میں ہیلتھ افسران اور اہلکاروں کے جانب سے سرکاری ادویات کی جعلسازی سے کروڑوں روپے کی کرپشن اور جعلسازی سے ہڑپ کرنے اور سرکاری ادویات جنگل میں پھینکنے کی تحقیقات کیا رنگ لائے گی ۔