سر رہ گزر

February 28, 2021

بجٹ کا عالم کیا ہو گا

بجٹ اگرچہ ناامید ہی کرتا ہے تاہم نہ جانے کیوں اس کا انتظار رہتا ہے کہ شاید اس مرتبہ یہ مہنگائی سے کرنٹ لگنے والوں کو کوئی ایسا ریلیف دے جائے جو دافعِ تکلیف ہو، اس وقت روز بروز نہیں لمحہ بہ لمحہ بڑھتی قیمتوں نے قیامت اٹھا رکھی ہے تو بجٹ کا عالم کیا ہو گا یہ اس ملک کی غریب اکثریت کو مزید پاتال میں دھکیل دے گا اور ایلیٹ اقلیت کو ثریا پار پہنچا دے گا۔ ہماری ناقص رائے امیدِ مفلس سے قدرے مختلف اور امید سے خالی ہے، بہرحال پھر بھی کسی کرشمے کے تمنائی ضرور ہیں، اکثر بازی گر شعبدے دکھایا کرتے ہیں اور شعبدہ تو نظر بندی کے سوا کچھ نہیں ہوتا، کالے سفید جادو سے حکومت نہیں چلائی جا سکتی۔ حکمرانی دراصل خدمت خلق ہے، مگر جب خلق سے خدمت کجا کسرت لی جائے پھر ’’سید القوم خادمہم‘‘ قوم کا سردار ان کا خادم ہوتا ہے، مگر جب وہ قصہ دہرایا جائے کہ ایک خان صاحب کو ان کے دوست نے کاندھوں پر بٹھا کر حج کرایا کاندھوں پر واپس لایا تو سننے کو ملا اوئے فلانے اتار، تو نے تو مجھے تھکا دیا ہے پھر ناامیدی اس حکمران برادر کی دیکھا چاہئے، مفتاح اسماعیل کی یہ بات درست ہے کہ حکومت 8ماہ پہلے معاہدہ کرتی تو ایل این جی معاہدہ ساڑھے 9فیصد پر ہو جاتا، ایک خوف جو ابھی سے لاحق ہے ٹیکسوں میں اضافے کے خدشے متعلق ہے، انکم ٹیکس 12لاکھ سالانہ کراس کرنے پر عائد ہونا چاہئے۔ مفتاح اسماعیل نے یہ کر دکھایا تھا، غربت اب لاکھ روپے ماہانہ آمدنی پر بھی برقرار رہتی ہے، بزرگوں کو ترجیحی بنیادوں پر ویکسی نیشن اچھا قدم مگر ان کی پنشن کو ان کی ضروریات کے مطابق کیا جائے، انہیں کورونا سے بچا کر تنگدستی کے ہاتھوں نہ مارا جائے۔ وما علینا۔

٭٭٭٭

ناشکرے شکر خورے

ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ آج کی روٹی کھانے کھلانے والے سو سو بار شکر ادا کر کے کل کی فکر سے آزاد گھوڑے بیچ کے سو جاتے ہیں، اور جو ہر حال میں شکر ہی کھاتے ہیں اور ان کے پاس بقول ان کے اللہ کا دیا بہت کچھ ہوتا ہے وہ اس سوچ میں گم کہ مزید کیسے سمیٹا جائے، گلے شکوے ناشکریاں ان کا ہار سنگار، اور شکر سے بیزار یہ طبقہ ہمیشہ خالی پیٹ ہونے کا ڈرامہ رچاتا ہے، ایک امیر کبیر دوست نے عجیب کہانی سنائی کہ ایک رات اس کی بیوی، جسے چائے بنانے کی زحمت بھی نہیں اٹھانا پڑتی سب کام نوکر چاکر کرتے ہیں، نے اچانک رات کو آسمان سر پر اٹھا لی اور چیخ چیخ کر رونے لگی تم نے مجھے کیا دیا ہے، نہ تجھے مجھ سے لگائو نہ کوئی خیال، میرے باپ نے تم سے میری شادی کر کے میری زندگی برباد کر دی، ہمارے دوست کو تب سے یہ خیال ستا رہا ہے کہ وہ بیوی بچے شکوہ بہ لب کہ آپ نے ہمارے لئے کیا کیا ہے۔ اگر یہی خاتون کسی مزدور کی بیوی ہوتی تو مزدوری ہاتھوں میں لے کر اللہ کا سو سو بار شکر ادا کرتی، اور یوں آدھی رات کو آسمان سر پر اٹھا کر خاوند کو پریشان نہ کرتی، جن مردوں کے پاس ’’اللہ کا دیا‘‘ بہت کچھ ہے وہ بھی شکر سے محروم ہی دیکھے گئے ہیں، جو چھین کر کماتے ہیں انہیں پُر سکون نیند نہیں آتی جو خون پسینہ ایک کر کے کماتے ہیں وہ پانی پیتے ہیں تو کبھی ان کی حالت شکر دیکھیں پانی پینے کو دل چاہے گا، ایک شخص نبی رحمت ﷺ کی بارگاہ میں آ کر کہنے لگا تنگدستی سے پریشان رہتا ہوں آپ ﷺ نے فرمایا اپنے سے نیچے دیکھو، یہ جو ہل من مزید کی ہوس ہے انسان کو اپنے پیچھے دوڑا دوڑا کر مار دیتی ہے، یہ ملک آج کیوں غریب ہے اس لئے کہ اسے چند طبقے چاٹ گئے اور مفلسوں کی اکثریت تارے گنتی رہ گئی، مالی اونچ نیچ گھر گھر رقصاں ہے اور ان کا حصہ چھین کر کھانے والے شکرے دولت کی تھاپ پر ناچ رہے ہیں۔

٭٭٭٭

’’جان جائے ہاتھ سے نہ جائے سَت‘‘

طاہر اشرفی فرماتے ہیں:وزیراعظم نے امت مسلمہ کے عظیم رہنما ہونے کا حق ادا کیا۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہو سکتی تھی مگر طاہر اشرفی کی زبان سے ادا ہوتے ہی اس صداقت کو چار چاند لگ گئے اور چاند پر داغ تو ہوتا ہے، گویا چار داغ بھی لگ گئے۔ مولانا ہر دور میں اپنا خرچہ نکال لیتے ہیں یہ ہر دربار کی زینت رہتے ہیں، کیونکہ ان کے بھی اردگرد خوش طینت رہتے ہیں، علماء کونسل کے چیئرمین علم کے بجائے علماء کی آبیاری کرتے ہیں، مگر سارے علماء ان کے حلقہ ارادت میں شامل نہیں، یہ بھی کیا دلنشین حوالہ ہے کہ ہر ’’عقلِ کل‘‘ یہ کہتا ہے وزیراعظم کے ویژن کے مطابق یہ ہوا وہ ہوا کیا ان کے پاس کوئی اپنا ویژن بھی ہے، اقبال نے کسی واعظ کی تقریر کے حوالے سے کہا تھا؎

ناپاک چیز ہوتی ہے کافر کے ہاتھ کی

سُن لے، اگر ہے گوش مسلماں کا حق نیوش

میں نے کہا کہ آپ کو مشکل نہیں کوئی

ہندوستاں میں ہیں کلمہ گو بھی مے فروش

اقبال واقعی اپدیشک تھے آج کی باتیں کل ہی کہہ گئے تھے۔خان صاحب کو جو صدر الصدور میسر آگئے ہیں وہ ہر دور میں ہر فرمانروا کے پاس ہوتے ہیں، کیونکہ حکمران کی نیکی کو عام کرنا اور کوئی طمع و لالچ نہ رکھنا آج کل کہاں؟ اور آخر میں؎

جان جائے ہاتھ سے جائے نہ ست

ہے یہی اک بات ہر مذہب کا تت

چٹے بٹے ایک ہی تھیلی کے ہیں

ساہو کاری، بسوہ داری، سلطنت

٭٭٭٭

تباہیات

....Oسراج الحق:حکمرانوں کو سو سال بھی ملیں تو ڈلیور نہیں کر سکیں گے۔

آپ کی جماعت کو بھی تو اسی سال ہو چکے ہیں۔

....Oامریکی گلوکارہ کے چوری شدہ کتے لوٹانے پر 5لاکھ ڈالر انعام۔

موقع ہے، یہ ٹاسک ہمارے خزانے کو تقویت دے سکتا ہے۔

....O اخلاقیات پر معاشیات کی بنیاد رکھتے تو یہ تباہیات نہ ہوتی۔

٭٭٭٭