اداراتی اصلاحات اور ریسکیو1122

March 01, 2021

موجودہ حکومت بلاشبہ اداراتی اصلاحات کی تشکیل کیلئے بھرپور طریقے سے کوشاں ہے۔ وفاقی و پنجاب کی صوبائی حکومتمیں پڑھے لکھے اور تجربہ کار مشیروں کی ایک ٹیم ہے جو عوام کے وسیع تر مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کے شانہ بشانہ پالیسیاں بنانے میں سرگرم عمل نظر آتی ہے۔ بلاشبہ دنیا کی ہر حکومت اور عوام شفافیت، میرٹ اور احتساب کی حامی ہے اور انہیں اصولوں پر عملدرآمد کرتے ہوئے معاشرے میں ترقی ہم آہنگی اور خوشحالی کیلئے برسر پیکار ہے۔ بلاشبہ پنجاب نے بڑے بڑے سیاست دان اور سوچ و افکار رکھنے والے سپوت پیدا کئے۔ ان میں گجرات کے چوہدری برادران پیش پیش نظر آتے ہیں۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور موجودہ اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی نے صوبے کی ترقی کیلئے کئی ایسے اقدامات کئے جن سے عوام بلاتفریق مستفید ہو رہے ہیں۔ ویسے تو پنجاب کے کئی منصوبوں پر ان کی (VISIONARY)سوچ کا عکس ہے لیکن چند منصوبہ جات ایسے ہیں جنہوں نے ان کے نام اور کام کو امر کر دیا ہے۔ پنجاب ایمرجنسی سروس ریسکیو 1122انہی کی کاوشوں کا ایک شاہکار ہے۔ بلاشبہ اس ادارے نے نہ صرف پنجاب کے کروڑوں عوام کو ایمرجنسی و حادثاتی سروس فراہم کی بلکہ قدرتی آفات کے دوران پاکستان کے دیگر صوبوں میں بھی کارہائے نمایاں سرانجام دیے۔ سیلاب ہو یا زلزلہ، روڈ ایکسیڈنٹس ہوں یا پھر دہشت گردی کے واقعات، ریسکیو 1122کے اہلکار اپنی جانوں کی پروا نہ کرتے ہوئے فرنٹ لائن پر دکھائی دیے اور بیشتر نے فرائض کی انجام دہی کے دوران جامِ شہادت بھی نوش کیا۔ ریسکیو 1122کا قیام 2006میں عمل میں لایاگیا، اس ادارے کو ہر سیاسی دور میں حکومت کی مکمل سرپرستی حاصل رہی۔ تمام حکومتوں نے گونا گوں معاشی مسائل ہونے کے باوجود اس عوامی فلاحی سروس کو کبھی وسائل کی کمی نہ آنے دی۔ ریسکیو 1122کو اربوں روپے سالانہ بجٹ جاریکیا جاتا رہا جو اب ریگولر بجٹ کی شکل اختیار کر چکا ہے جو کہ 14ارب روپے سالانہ سے زائد ہے۔ بدقسمتی سے عوام کے خون پسینے کی کمائی سے سینچا ہوا یہ ادارہ اداراتی اصلاحات نہ ہونے کی وجہ سے شدید انتظامی بحران کا شکار ہے جس کی گونج آج کل پنجاب اسمبلی کے ایوان میں بھی سنائی دے رہی ہے۔ بیوروکریسی پر اکثر سیاسی و سماجی شخصیات یہ الزام لگاتی ہیں کہ ریسکیو 1122میں اصلاحات کو سرخ فیتے کی نظر کیا جا رہا ہے حالانکہ حقائق اس سے یکسر مختلف ہیں۔ محکمہ داخلہ پنجاب ہو یا پھر ایس اینڈ جی اے ڈی، سب نے یہ بھرپور کوشش کی ہے کہ ریسکیو 1122کے افسروں اور اہلکاروں کی خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے سروس اسٹرکچر کی تشکیل میں کوتاہی نہ کی جائے۔ اس ضمن میں متعدد بار سروس اسٹرکچر کے ڈرافٹس بنے جس کو انتظامی محکموں نے بھرپور طریقے سے اونر شپ دے کر لاگو کرنے کی کوشش کی جس کو ہر بار ریسکیو 1122میں قائم شخصی آمریت نے اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچنے دیا۔ اسی طرح2017میں جب محکمہ داخلہ ریسکیو 1122ڈویلپمنٹ اسکیموں کے تحت 300سے زائد کارڈیک ایمبولینسز خریدنے جا رہا تھا، اس وقت اس سروس میں موجود شخصی آمریت نے اس کی راہ میں روڑے اٹکائے جس کے باعث پنجاب کے عوام دل کے مریضوں کے لئے ان ایمبولینسوں سے محروم ہیں۔ اسی شخصی آمریت کی وجہ سے ریسکیو 1122زوال کا شکار ہے، اس ادارے میں کرپشن، لاقانونیت، اقربا پروری، منہ زوری اور بدنظمی اپنے عروج پر ہے۔ اس المیے کو دیکھتے ہوئے بیوروکریسی نے اس ادارے سے دوری اختیار کر لی ہے۔ یقیناً موجودہ حالات میں بیوروکریسی ان دھبوں سے اپنا دامن بچانا چاہتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک شخص اس ادارے کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود سے زیادہ اہم ہے؟ کیا انتظامی محکمے فردِ واحد کی بےجا ضد کہ وہ تاحیات اس ادارے کا سربراہ رہنا چاہتا ہے، کے سامنے بےبس ہو چکے ہیں؟ کیا پنجاب ایمرجنسی سروس کے تمام انتظامی محکموں کی طرف سے اس ادارے پر لگائے گئے اور مختلف انکوائریوں میں ثابتہونے والےکرپشن کے الزامات غلط اور بےبنیاد ہیں؟ کیا محکمہ اینٹی کرپشن جو کہ اربوں روپے کی کرپشن کے ان الزامات کے ثابت ہونے کے بعد ریسکیو 1122کے سربراہ اور دیگر افسروں پر مقدمات درج کرنے کی سفارش کر چکا ہے، بھی فردِ واحد کی شخصی آمریت کے سامنے بےبس ہو چکا ہے؟ وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت کو سلام ہے جنہوں نے پنجاب اسمبلی کے معزز ایوان میں ببانگِ دہل نہ صرف ریسکیو 1122کے معاملات کو آئینی و قانونی طریقے سے حل کرنے کیلئے آواز اٹھائی بلکہ حکومت کو اس حوالے سے قانون سازی کرتے ہوئے نہ صرف بہت سی قانونی پیچیدگیوں بلکہ شرمندگی اور خفت سے بھی بچا لیا۔ اسپیکر پنجاب اسمبلی جو کہ انتہائی زیرک سیاسی شخصیت ہیں، سے ایک ہی التماس ہے کہ ازراہِ کرم اس محکمے میں ثابت ہونے والی کرپشن، آمریت اور لاقانونیت کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے حق کا ساتھ دیں۔ مملکتِ خداداد بہترین سوچ، قابلیت اور اہلیت رکھنے والے نوجوانوں سے بھری پڑی ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ادارے کے وسیع تر مفادات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس کی باگ ڈور میرٹ اور شفافیت کی بنیاد پر کسی ایسے اہل فرد کے حوالے کی جائے جس کا ماضی و حال کسی حوالے سے بھی داغدار نہ ہو۔