تعلیم کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

March 01, 2021

یہ وہ درد ناک بات ہے جو میرے دل و دماغ پر سوار ہے ۔ میری ہر صبح کا آغاز اسی جملے سے ہوتا ہے۔ آج ہم اندارہ لگائیں کہ اس کورونا کی بدولت ہم نے کیا کھویا یا کیا پایا ہے تو اندازہ لگانا اتنا آسان نہیں۔ کیونکہ معاشی نقصان کا اندازہ ہر کوئی لگا رہا ہے۔ لیکن سماجی اور "شعوری" نقصان کا کوئی ذکر نہیں ۔ شعوری نقصان یقینا ایک نئی اصطلاح ہوگی ، لیکن یہ وہ شے ہے جس کو بڑے پیمانے پہ کھویا گیا۔ کورونا میں لاک ڈاون کی وجہ سے ہمارے ملک میں لوگوں کو مختلف چیزیں بنانے کا اور سیکھنے کا شوق پیدا ہوا، تو دوسری طرف سماجی میل ملاپ سے دوری اور سب سے بڑھ کر "تعلیم سے لاتعلقی" کا رجحان بہت تیزی سے پھیل کر ہماری رگوں میں گھس چکا ہے۔ ہر اب بھی کوئی ایکشن نہیں لیا گیا تو یہ عمل اور رویہ ہمارے معاشرے کے لئے ناسور بن جائے گا جس سے جان چھڑانا آسان نا ہوگا۔ حکومت نے پچھلے سال تعلیمی اداروں کی بروقت بندش کرکے احسن قدم اٹھایا جو یقینا لائق تحسین ہے۔ لیکن امتحانات نا لینے کا بے تکا فیصلہ کرکے طالب علموں کو کو تعلیم سے دور کرنے کا بڑا تعلیم دشمن فیصلہ کیا۔ جس کے منفی اثرات ابھی سے آنا شروع ہو چکے ہیں۔ سونے پہ سہاگہ جب جامعات نے امتحانات لینے کا اعلان کیا تو طلبا کی بڑی تعداد نے احتجاج کیا کہ ان کے ساتھ یہ بہت ظلم ہونے جارہا ہے۔ جس پر جامعات کی انتظامیہ کی طرف سے ان کو اعتماد دلایا گیا کہ ان پر یہ ظلم ڈھایا نہیں جائے گا۔ کیونکہ اس کورونا کے دوران لاک ڈاون میں "پڑھائی کرنے پر شدید لاک ڈاون تھا جبکہ کورس آوٹ لائنز اور کتابیں پاس موجود تھیں۔ اس کے برعکس وڈیو گیمز کھیلنے، فیس بک، انسٹاگرام، ٹیوٹر ، ٹک ٹاک کے استعمال میں بے انتہا اضافہ جبکہ کسی استاد سے تربیت بھی نہیں لی گئیں تھیں۔ جامعات کے اساتذہ کو بالعموم course" "instructors کہا جاتا ہے۔ لیکن امتحانات دیتے ہوئے ان اساتذہ کا کردار اس قدر بڑھا دیا کہ جب تک لفظ بہ لفظ ان سے علم کا خزانہ حاصل نہیں کیا جائے گا، طالب علم پیاسا رہ جائے گا اور اس تشنگی کے ساتھ امتحان دینا انتہائی کٹھن عمل ہوگا۔ لہذا ان علم کے پیاسوں کا مان رکھا گیا۔ اور آن لائن امتحانات کو اختیار کیا گیا۔ جس میں باجماعت امتحانات کا اہتمام کیا جاتا ، طالب علموں کا واٹس ایپ گروپ پہ باہمی رابطہ بحال رہتا تاکہ غلطی کا احتمال کم سے کم ہو اور نمبر کا حصول زیادہ سے زیادہ ۔ یقینا اس سارے عمل میں اساتذہ کا کردار کہیں بہت زیادہ پیشہ ورانہ رہا تو کہیں انتہائی مایوس کن۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ان دونوں کے روئیے کا نقصان کہاں اور کسے ہورہا ہے؟ یقینی طور پر اس کا ناقابل تلافی نقصان معاشرے اور معیشت کو ہو رہا ہے۔ کیونکہ جب من حیث القوم ایمانداری کے تقاضے پور نہیں کرتے تو پھر چیک اور بیلنس کا نظام لاگو ہوتا ہے۔ تاکہ سسٹم اور اداروں کو درست رکھا جاسکے۔ لیکن اس قسم کے فیصلوں کے نتائج کیا ہوں گے۔ کیا آگے چل کر یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل طلباء پریکٹکل لائف میں کچھ کرسکیں گے یا وہاں بھی کورونا کا ذکر کے leverages حاصل کرنے کی کوشش کریں؟ کیا یہ ایسا کرکے ہمدردی حاصل کرلیں گے؟ کیا آگے چل کر عملی میدان میں کامیابی حاصل کرسکیں گے؟ یا مظاہرے کر کر کے بیساکھیاں تلاش کرتے رہیں گے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات تلاش کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ کیونکہ یہ ایک دوسال کے طلباء کا مسئلہ نہیں، بلکہ ہر جماعت grade کے طالب علموں کا مسئلہ ہے۔ انٹر ،میٹرک ، او اور اے لیول کے طلباء جب امتحان کے بغیر پاس قرار دے دئیے گئے تو ان اندر ہم اس رجحان کو پیدا کیا کہ غیر معمولی حالات میں پڑھائی یعنی تعلیم سب سے بے معنی چیز بن جاتی ہے۔ لہذا اب اس کے حصول کے لئے اتنی محنت اور تگ و دو کی ضرورت نہیں ۔ بلکہ اب chill کرنے کا وقت ہے۔ یہی ڈگر اب پہلی سے لیکر آٹھویں جماعت کے طالب علموں کی بھی ہے کہ پڑھنا لکھنا اب اتنا اہم نہیں رہا۔ سب کچھ خود ہی کردیا جائے گا۔ بڑے ہوں کو تو احتجاج کرکے بات منوا لیں گے۔ یعنی ہمارے اگلے سولہ سالوں میں شوق سے پڑھائی کرنے یعنی تعلیم یافتہ افراد کا کیا معیار یوگا۔ یقینا سب ایسے نہیں ہوں گے۔ بہت سے لگن اور محنت سے پڑھیں گے بھی۔ لیکن اس وقت اکثریت پہ کام کرنے کی ضرورت ہے جو کہ تعلیم سے relax ہوچکی ہے۔

minhajur.rabjang.com.pk