جنوبی ایشیا: دنیا کا بدقسمت ترین خطہ

March 02, 2021

جنوبی ایشیا مشرقی ایشیا (بشمول چین و مشرق بعید) کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے گنجان آباد خطہ ہے۔ تین لینڈ لاکڈ (افغانستان، نیپال اور بھوٹان) دو واٹر لاکڈ (سری لنکا اور مالدیپ) اور طویل اوشن بائونڈریز کے حامل 3ممالک (پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش) پر مشتمل 8خود مختار ریاستوں کا یہ خطہ اپنے بہترین ہیومن کیپٹل اور دوسرے مختلف النوع بیش بہا قدرتی وسائل کا حامل ہے۔ اپنی اس واضح حیثیت میں یہ انسانی ترقی کا بے پناہ سامان لئے ہوئے ہے۔ وائے بدنصیبی جنوبی ایشیا جتنے اور جیسے جیسے پوٹینشل کا حامل ہے، یہ اتنا ہی بدقسمت اور خود گلے لگائے مصائب و الام کا مارا ہے۔ اپنی اِسی پیچیدہ حیثیت میں یہ دنیا بھر میں غربت و افلاس میں ڈوبا، جنگوں کے خطرات اور مسلسل داخلی سیاسی و اقتصادی عدم استحکام میں مبتلا سمجھا جانے والا بدقسمت ترین خطہ خیال کیا جاتا ہے۔ اس کی افلاس زدہ کروڑوں کی آبادیوں کے محنت کش، ہنر مند، پیشہ ور اور مختلف شعبہ ہائےزندگی کے جانے مانے ماہرین اور مشیر تک خلیج سے لے کر امیر اور ترقی یافتہ ممالک، اِن سے لے کر یورپ اور مشرق بعید کے متوسط درجے کے ممالک، اور دنیا میں جہاں بس چلا، تک پھیلے وطن سے دور قدرے خوشحال لیکن اجنبی اجنبی سی زندگی گزار رہے ہیں یا وقت اور غم روز گار کے جبر نے انہیں وہیں کا سیکنڈ کلاس اور مجبوری کا شہری بنا دیا۔

اپنی اس مستقل سی کربناک حیثیت میں پوٹینشل کے جیسے تیسے استعمال سے تقریباً پورا خطہ ہی اسلحے کی دوڑ میں مبتلا ہو گیا۔ دو تو ایٹمی طاقت بن گئے۔ افغانستان مستقلاً ہی مبتلائے جنگ و جدل اور تو اور سری لنکا، نیپال اور بھوٹان جیسی بے ضرر ریاستوں کو بھی سرحدی اور داخلی سلامتی کے لالے ڈال دیئے گئے۔ وقت آ گیا ہے کہ پورے خطے کے، آزادی و خود مختاری اور امن و خوشحالی کے علمبردار سکالرز، دو ارب آبادی کے اس گنجان آباد ’’مین میڈ پرابلم ریجن‘‘ کو اس کی عشروں سے جاری ابتری سے نجات دلانے کیلئے اپنے علم و دانش کا استعمال مذہب اور قومیت کی وابستگی سے بالا ہو کر کریں۔ یورپی یونین جیسا مثالی خطہ نہیں بن سکتے تو کم از کم پُر امن تو رہیں۔ ریجن میں کروڑوں لاکھوں آبادی کے علاقوں کے حق خودارادیت، آزادی، خود مختاری اور سلامتی کو تو یقینی بنائیں۔ علاقائی تعاون سے پورے خطے کی موجودہ اقتصادی حالت سے کئی گنا بہتر ہونے کی جو صورت بمطابق موجود پوٹینشل ہو لیکن اس میں تو پہاڑ جیسی رکاوٹ نہ بنا جائے حکومتوں کے بس میں نہیں تو ریجن کے عوام کو ریجنل سیکورٹی اور اقتصادی و سیاسی استحکام کی خاطر پالیسی سازی اور فیصلہ سازی میں حصہ دیا جائے کہ وہ باہم مل کر مشترکہ کوششوں سے فضاتو بنائیں۔ یقیناً یہ عظیم کارخیر خطے کے امن پسند، غریب نواز، انصاف کے علمبردار سیاسی دانشوروں کا ہی ہے۔ موجود گھمبیر صورتحال میں تو ٹریک ٹو یا بیک چینل ڈپلومیسی ناکافی اور روایتی بھی ہو گئی ہے، یہ کسی نہ کسی حد تک مسائل کے حل کی تجاویز کی کوشوں میں اپنی اپنی حکومتوں کے زیر اثر بھی ہوتی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ اب عوامی دبائو سے ہی ابتری میں مبتلا عوام پوٹینشل شہریوں کی مدد سے حکومتی رویے میں تبدیلی لائیں گے وہ سیاسی قوتوں اور متعصب میڈیا کی بنائی جذباتی عوامی پیچیدگی کم یا ختم کر کے عوامی رویوں میں بھی مطلوب تبدیلی برپا کر سکتے ہیں۔ یہ ہی تبدیل شدہ عوامی رویے حکومتی من مانیحتیٰ کہ خلاف آئین پارلیمانی فیصلہ سازی جیسی مہم جوئی اور مہلک مذہبی سیاسی جنون کا علاج ہیں۔ اس تجویز کو عمل میں لانا بھی کوئی آسان نہیں، جنوبی ایشیائی باہم دانش کا اگر کوئی مجوزہ رنگ ڈھنگ سامنے آ بھی جائے تو وہ حکومتی رویوں کا مقابلہ آسانی سے تو نہ کر پائے گی، لیکن شدت سے امڈتی عوامی ضروریات کی نشاندہی اور انہیں پورا کرنے کا دبائوقدم آگے بڑھانے میں تیزی ضرور لائے گا۔ (جاری ہے)