میانمار میں پولیس فائرنگ سے کئی مظاہرین زخمی، آنگ سان سوچی پر مزید 2 الزامات عائد

March 04, 2021

ینگون (جنگ نیوز ) میانمار میں فوج مخالف مظاہرے کرنےوالے عوام کیخلاف کریک ڈائون میں مزید شدت آگئی اور پولیس ،مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ بھی جاری ہے تاہم 21ہلاکتوںکے باوجودفوجی بغاوت کے خلاف احتجاجی مظاہرے جاری ہیںجبکہ میانمار کی سابق وزیراعظم رہنما آنگ سان سوچی کوگزشتہ روزز وڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش کیا گیاجہاںان پر مزید دو الزامات عائد کردیئے گئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق میانمار میں باغی فوج کی حامی پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ کے ساتھ براہِ راست فائرنگ کردی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق منگل کے روز میانمار کے سب سے بڑے شہر ینگون کے مختلف حصوں میں مظاہرین جمع ہوئے اور باغی فوج کے خلاف نعرے بازی کی۔ پولیس نے 4مقامات پر مظاہرین پر آنسو گیس کی بے دریغ شیلنگ کی۔ اس کے علاوہ ماندالے شہر کے علاقے کالے میں بھی پولیس کی فائرنگ سے کئی افراد زخمی ہوئے۔ عالمی میڈیا کے مطابق زخمیوں میں سے 2کی حالت انتہائی تشویش ناک ہے۔ دوسری جانب امریکا نے میانمر کے معاملے پر سلامتی کونسل کا اجلاس منعقد کرانے کی کوشش شروع کردی۔ اقوام متحدہ میں امریکاکی سفیر لِنڈا تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ سلامتی کونسل کے صدر کی حیثیت سے انہیں اس معاملے پر تبادلہ خیال کی توقع ہے۔ ادھر امریکی دفترخارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے خبردار کیا ہے کہ میانمر کی باغی فوج مظاہرین پر تشدد سے باز نہ آئی تو واشنگٹن حکومت سخت اقدامات پر مجبور ہوجائے گی۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ میانمر میں آن سانگ سوچی کی قیادت میں عوامی حکومت بحال نہ کی گئی اور مظاہرین کی ہلاکتیں بند نہ ہوئیں تو امریکا مزید پابندیاں لگا دے گا۔علاوہ ازیںمیانمار کی سابق وزیراعظم رہنما آنگ سان سوچی کوگزشتہ روزز وڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش کیا گیا دوسری جانب احتجاجی مظاہروںمیں مزیدشدت آتی جارہی ہے۔ میانمار میں اقتدار پر فوج کے قبضے کے ایک ماہ بعد نظربند رہنما آنگ سان سوچی کوگزشتہ روزز وڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش کیا گیاتفصیلات کے مطابق کے وکلا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ سوچی کی صحت بظاہر ٹھیک نظر آ رہی تھی۔ واضح رہے کہ یکم فروری کو فوج کی طرف سے منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد انہیں گھر پر نظر بند کردیا گیا تھا جس کے بعد سے وہ اب تک کہیں نظر نہیں آئیں۔ فوجی حکام نے پیر کے روز ان پر مزید 2 الزامات عائد کیے گئے ہیں، جن میں الیکشن مہم کے دوران کورونا سے متعلق پابندیوں کی خلاف ورزی اور لوگوں کو اشتعال دلانا شامل ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فوجی حکومت کی طرف سے آنگ سان سوچی پر مقدمات قائم کرنے کا مقصد انہیں مستقبل کے انتخابات سے پہلے نااہل قرار دلوانا ہو سکتا ہے۔ واضح رہے کہ میانمار میں آمریت کے خلاف عوامی مظاہروں میں روز بہ روز شدت آتی جا رہی ہے۔ ایک روز قبل ہی سیکورٹی اہل کاروں کی پرتشدد کارروائیوں کے نتیجے میں 18 مظاہرین ہلاک ہوئے ہیں، جس کے بعد پیر کی صبح ینگون شہر میں لوگ ایک بار پھر فوجی حکومت کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے، جنہیں منتشر کرنے کے لیے سیکورٹی اہلکاروں نے آنسو گیس کے شیل پھینکے اور ربڑ کی گولیاں چلائیں۔ پولیس نے مظاہرین کے خلاف جاری کریک ڈاؤن میںمزید سیکڑوں افراد گرفتار کرلیا۔مظاہرین کو منشتر کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ کی۔ کریک ڈاؤن کا مقصد فوج مخالف مظاہرین کو منتشر کرنا تھا تاہم مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ ملک میں سول حکومت کی بحالی تک اپنا احتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔دریں اثنا اقوام متحدہ میں میانمار کے سفیر کو عہدے سے برطرف کردیا گیا۔غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق میانمار میں حکومت کا تختہ الٹنے والی فوجی قیادت نے بغاوت کے خلاف بات کرنے پر اپنے سفیر کو عہدے سے برطرف کردیا۔ سفیر نے عالمی برادری سے اپیل کی تھی کہ میانمار میں فوجی بغاوت کرنے والے جنرلز کے خلاف کارروائی کی جائے۔سفیر نے کہا تھا کہ میں میانمار کی آنگ سان سو چی حکومت کی طرف سے خطاب کر رہا ہوں۔ آنگ سان سو چی سمیت کئی حکام کو گرفتار کر کے نظر بند کردیا گیا۔انہوںنے کہا کہعالمی برادری ضرورت اقدامات اٹھائے اور میانمار میں فوجی حکمرانی کا خاتمہ کرے۔فوجی قیادت کے زیر نگرانی چلنے والے سرکاری ٹی وی کا کہنا ہے کہ سفیر نے عالمی برادری کے سامنے خطاب کر کے ملک سے غداری کی۔ سفیر نے ایسے فورم پر بات کی جس کا ملک سے تعلق نہیں۔حکومتی بیان میں کہا گیاکہ سفیر نے اپنے عہدے کا غلط استعمال کیا اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔