میرٹ پر پورا نہ اترنے والوں کو ڈاکٹر بنتا نہیں دیکھ سکتے، پی ایم سی

March 07, 2021

پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) کے صدر ارشد تقی کا کہنا ہے کہ میرٹ پر پورا نہ اترنے والے امیر والدین کے بچوں کو پیسے کے بل بوتے پر میڈیکل کالجز میں داخلے اور ڈاکٹر بنتا ہوا نہیں دیکھ سکتے۔

سندھ میں 8 ہزار سے زائد طالب علموں نے میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ایڈمیشن ٹیسٹ MDCAT میں 60 فیصد سے زائد نمبر حاصل کیے لیکن وسائل نہ ہونے کے سبب وہ میڈیکل کالجز میں داخلہ نہیں لے سکے۔

میرٹ پر پورا اترنے والے مگر وسائل نہ رکھنے والے طالب علموں کے لیے فنڈ قائم کر رہے ہیں، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ مخیر حضرات اور معاشرے کے درد مند افراد سے کہیں گے کہ فنڈ میں پیسے دیں تاکہ کوئی بھی ذہین مگر غریب طالب علم وسائل نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم سے محروم نہ رہ سکے۔

ان خیالات کا اظہار نو تشکیل شدہ پاکستان میڈیکل کمیشن کے صدر ارشد تقی نے پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے تحت ہفتے کے روز ہونے والے آن لائن سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

پیما کی جانب سے منعقدہ ویبنار سے پی ایم سی کے صدر ڈاکٹر ارشد تقی کے علاوہ، پی ایم سی کی ممبر ڈاکٹر رومینا حسن، جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر طارق رفیع، کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی لاہور کے وائس چانسلر پروفیسر خالد مسعود گوندل، یونیورسٹی لاہور کے وائس چانسلر پروفیسر عامر زمان، پرنسپل جناح میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج پروفیسر حسین مہدی، پیما سینٹر کے مرکزی صدر ڈاکٹر خبیب شاہد، پیما کراچی کے صدر پروفیسر عظیم الدین اور دیگر نے بھی خطاب کیا جبکہ ماڈریٹر کے فرائض معروف سرجن ڈاکٹر عبداللّٰہ متقی نے سر انجام دیئے۔

ویبنار سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان میڈیکل کمیشن کے صدر ڈاکٹر ارشد تقی کا مزید کہنا تھا کہ سندھ میں پرائیویٹ ڈینٹل کالجوں میں داخلے اس لیے نہیں ہوئے کیونکہ میڈیکل کالجز میں داخلہ لینے والے اکثر طلبہ ڈینٹل کالجز میں نہیں جانا چاہتے، ماضی میں ہیلتھ ریگولیٹر نے ڈینٹل کالجز کی سیٹیں بھرنے کا ٹھیکہ لے رکھا تھا اور وہ طالبعلم جنہیں میڈیکل کالج میں داخلہ نہیں ملتا تھا انہیں ڈینٹل کالجز میں بھیج دیا جاتا تھا۔

ڈاکٹر ارشد تقی کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں ڈینٹل سرجری کی تعلیم مکمل کرنے والے 50 فیصد سے زائد ڈینٹل سرجن پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل سے لائسنس حاصل نہیں کر رہے تھے، ڈینٹل کالجز کی سیٹیں بھرنے کے لیے میرٹ کو مزید نیچے نہیں کر سکتے۔

سندھ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں 8 ہزار سے زائد طلبہ نے میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ایڈمیشن ٹیسٹ میں 60 فیصد سے زائد نمبر حاصل کیے لیکن وسائل نہ ہونے کے سبب ان بچوں نے پرائیویٹ میڈیکل کالجز اور سیلف فنانس پر داخلے نہیں لیے جبکہ دوسری طرف کہا جا رہا ہے کہ امیر والدین کے میرٹ پر پورا نہ اترنے والے بچوں کو داخلے دیے جائیں لیکن ہم میرٹ پر کمپرومائز نہیں کریں گے۔

ڈاکٹر ارشد تقی کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میڈیکل کمیشن سے لائسنس حاصل کیے بغیر پریکٹس کرنے والے ڈاکٹر جرم کر رہے ہیں اور ایسے لوگوں کو پریکٹس کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر طارق رفیق رفیع کی تجویز پر ان کا کہنا تھا کہ وہ 162 میڈیکل یونی ورسٹیوں اور میڈیکل کالجز کے سربراہان کو خط لکھنے کے لیے تیار ہیں جس میں ان سے تجاویز مانگی جائیں گی جبکہ پاکستان میڈیکل کمیشن تمام سرکاری اور غیر سرکاری یونیورسٹیوں اور کالجز کے خدشات دور کرنے کے لیے ان سے ڈائیلاگ کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔

اس موقع پر پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن نے میڈیکل یونی ورسٹیوں، کالجوں اور پاکستان میڈیکل کمیشن کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کردیں۔

پیما کے رکن ڈاکٹر عبداللّٰہ متقی کا کہنا تھا کہ وہ نہ صرف اس طرح کے مزید ویبنار منعقد کروائیں گے بلکہ وہ اپریل کے مہینے میں اسلام آباد میں پی ایم سی اور میڈیکل یونیورسٹیوں اور کالجز کے سربراہان کی میزبانی کرنے کے لیے بھی تیار ہیں تاکہ پاکستان میڈیکل کمیشن اور طبی تعلیم کے حوالے سے خدشات کو دور کیا جا سکے۔

ویبنار سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر طارق رفیع، وائس چانسلر جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کراچی کا کہنا تھا کہ پاکستان میڈیکل کمیشن میں سندھ کی نمائندگی نہیں ہے، اسی طرح کمیشن میں سرکاری میڈیکل یونیورسٹیوں کی نمائندگی بھی نہیں ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا پاکستان میڈیکل کمیشن فیصلے کرتے وقت اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیتا۔

پروفیسر طارق رفیع نے اس موقع پر تجویز پیش کی کہ میڈیکل کمیشن ملک بھر کے تمام طبی تعلیمی اداروں سے ان خدشات اور تجاویز جاننے کے لیے ان کو خط لکھے اور ان تجاویز اور خدشات کے حوالے سے ان سے جلد ہی ایک میٹنگ کی جائے تاکہ ان کے مشورے سے پاکستان میں طبی تعلیم کو ریگولیٹ کیا جا سکے۔