علامہ اقبال

April 19, 2021

خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے

خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے

کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں میری انتہا کیا ہے

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

مقام گفتگو کیا ہے اگر میں کیمیا گر ہوں

یہی سوز نفس ہے اور میری کیمیا کیا ہے

نظر آئیں مجھے تقدیر کی گہرائیاں اس میں

نہ پوچھ اے ہم نشیں مجھ سے وہ چشم سرمہ سا کیا ہے

اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے میں

تو اقبالؔ اس کو سمجھاتا مقام کبریا کیا ہے

نوائے صبح گاہی نے جگر خوں کر دیا میرا

خدایا جس خطا کی یہ سزا ہے وہ خطا کیا ہے

فرمان خدا

اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگادو

کاخ امرا کے در و دیوار ہلادو

گرماؤ غلاموں کا لہو سوز یقیں سے

کنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑادو

سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ

جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹادو

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی

اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلادو

کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے

پیران کلیسا کو کلیسا سے اٹھادو

حق را بسجودے صنماں را بطوافے

بہتر ہے چراغ حرم و دیر بجھادو

میں ناخوش و بے زار ہوں مرمر کی سلوں سے

میرے لیے مٹی کا حرم اور بنادو

تہذیب نوی کار گہہ شیشہ گراں ہے

آداب جنوں شاعر مشرق کو سکھادو

گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر

گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر

ہوش و خرد شکار کر قلب و نظر شکار کر

عشق بھی ہو حجاب میں حسن بھی ہو حجاب میں

یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر

تو ہے محیط بیکراں میں ہوں ذرا سی آب جو

یا مجھے ہمکنار کر یا مجھے بے کنار کر

میں ہوں صدف تو تیرے ہاتھ میرے گہر کی آبرو

میں ہوں خذف تو تو مجھے گوہر شاہوار کر

نغمۂ نوبہار اگر میرے نصیب میں نہ ہو

اس دم نیم سوز کو طائرک بہار کر

باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں

کار جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر

روز حساب جب مرا پیش ہو دفتر عمل

آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر