این اے 249: بائیکاٹ کے باوجود آج 60 پولنگ اسٹیشنز کے ووٹوں کی گنتی

May 06, 2021

کراچی میں قومی اسمبلی کے حقلہ این اے 249 میں سیاسی جماعتوں کے بائیکاٹ کے باوجود الیکشن کمیشن کے عملے کی جانب سے ضمنی انتخاب کے ووٹوں کی گنتی کے دوران آج 60 پولنگ اسٹیشنز کی گنتی مکمل کی گئی، جبکہ تمام پولنگ اسٹیشنز کے ووٹوں کی پوری گنتی ہونے میں مزید دو دن لگیں گے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے مطابق دوبارہ گنتی کے دوران این اے 249 کے ضمنی انتخاب کے کامیاب امیدوار قادر مندوخیل کے اب تک 134 ووٹ مسترد ہوچکے ہیں۔

ای سی پی کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے مفتاح اسمعیٰل کے 194 ووٹ مسترد قرار دیے گئے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدوار امجد آفریدی کے ووٹوں میں مزید 34 ووٹوں کا اضافہ ہوگیا۔

متحدہ قومی مومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے امیدوار حافظ مرسلین کے 108 ووٹ مسترد قرار دیے گئے ہیں۔

خیال رہے کہ اس نشست پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے عبدالقادر مندوخیل نے کامیابی حاصل کی تھی، جبکہ ان کے مقابل پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار مفتح اسماعیل کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

پیپلز پارٹی کے امیدوار عبدالقادر مندوخیل اور ٹی ایل پی سمیت 2 آزاد امیدوار بھی ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے عمل میں موجود رہے۔

الیکشن کمیشن حکام کے مطابق افطار سے پہلے اور پھر وقفے کے بعد دوبارہ ووٹوں کی گنتی کی جبکہ آج صرف 60 پولنگ اسٹیشنز کے ووٹوں کی گنتی مکمل ہوسکی۔

حکام الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے میں مزید 2 دن لگیں گے۔

الیکشن کمیشن کا بائیکاٹ کرنے والی جماعتوں کو نوٹس

الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 249 کے ضمنی انتخاب کے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا بائیکاٹ کرنے والی سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کر دیا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا بائیکاٹ کرنے والی سیاسی جماعتوں سے ووٹوں کے گنتی کے عمل میں شامل ہونے کی درخواست کی گئی ہے۔

سیاسی جماعتوں کی جانب سے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے بائیکاٹ پر الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے بائیکاٹ کے باوجود گنتی کی جائے گی۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حکام کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن صرف درست اور مسترد ووٹوں کی گنتی کرنے کا پابند ہے، وہ ووٹوں کی گنتی کرے گا۔

الیکشن کمیشن کے حکام کا کہنا ہے کہ فیصلے کے مطابق ڈالے گئے اور مسترد شدہ ووٹ گننے کا حکم دیا گیا تھا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حکام کا مزید کہنا ہے کہ بائیکاٹ کے باوجود جاری فیصلے کے مطابق دوبارہ گنتی کا عمل مکمل کیا جائے گا۔

الیکشن کمیشن کے حکام نے یہ بھی کہا ہے کہ امیدواروں کی جانب سے ڈالے گئے تمام ووٹوں کا ڈیٹا دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے، تاہم امیدواروں کو کسی بھی قسم کا انتخابی ڈیٹا فراہم کرنا ممکن نہیں۔

کس نے بائیکاٹ کیا، کس نے نہیں؟

اس سے قبل کراچی کے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 249 میں ہونے والے ضمنی انتخاب کے سلسلے میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی شروع ہو نے جا رہی تھی اور تمام جماعتوں کے امیدوار ڈی آر او آفس میں موجود تھے کہ ووٹوں کے بیگز پر سیل نہ ہونے کے باعث پاکستان پیپلز پارٹی کے سوا دیگر تمام جماعتوں نے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا بائیکاٹ کر دیا۔

سیاسی جماعتوں کے بائیکاٹ کیئے جانے کے باعث ڈی آر او دفتر اور اس کے باہر کافی شور شرابہ ہوا ہے۔

دوبارہ گنتی کا بائیکاٹ کرنے والوں کے 2 ابتدائی اعتراضات سامنے آئے ہیں، پہلا اعتراض یہ ہے کہ پولنگ بیگ پر سیل نہیں ہے، دوسرا اعتراض ہے کہ فارم 46 مہیا نہیں کیا گیا۔

اس ضمن میں بائیکاٹ کرنے والے مسلم لیگ نون، ایم کیو ایم پاکستان، پی ایس پی، پاسبان اور آزاد امیدواروں نے تحریری درخواست آر او کے پاس جمع کروا دی۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ ہمیں فارم 46 نہیں دیئے گئے، بیلٹ بک کی کاؤنٹر فائل بھی موجود نہیں، پولنگ بیگ پر سیل بھی موجود نہیں، لہٰذا ہم ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے عمل کا حصہ نہیں بن سکتے۔

دوبارہ گنتی کیلئے کون کون پہنچا؟

اس سے پہلے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 249 کراچی میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ نون کے امیدوار مفتاح اسماعیل، پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار عبدالقادر مندوخیل، پی ٹی آئی کے امیدوار امجد آفریدی، پی ایس پی کے امیدوار حفیظ الدین ، پاکستان مسلم الائنس کے رہنما حضرت عمر اور 6 آزاد امیدواروں سمیت کل 16 امیدوار ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے سلسلے میں آر او آفس پہنچے تھے۔

مفتاح اسماعیل کی درخواست پر دوبارہ گنتی

29 اپریل کو ہونے والے انتخاب میں پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی تھی جبکہ مسلم لیگ نون دوسرے نمبر پر آئی تھی۔

مسلم لیگ نون کے رہنما مفتاح اسماعیل نے نتیجے کو مسترد کر کے دھاندلی کا الزام لگایا تھا اور الیکشن کمیشن سے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرانے کی درخواست کی تھی۔

تحریک انصاف نے دوبارہ گنتی کے بجائے دوبارہ پولنگ کا مطالبہ کیا تھا، الیکشن کمیشن نے نون لیگ کی درخواست مان لی تھی۔