عید ……

July 21, 2021

تلخی روزگار میں کیا عید

ایسے لیل و نہار میں کیا عید

کس قدر انتشار ہے ہر سمت

اِس قدر انتشار میں کیا عید

اِن پریشانیوں میں کیسا جشن

اور اِس حالِ زار میں کیا عید

پھول سُوکھے ہُوئے ہیں، زخم ہَرے

اِس خزاں، اِس بہار میں کیا عید

ہر طرف ناچتی بَلائوں کے

تنگ ہوتے حصار میں کیا عید

دو قدم دور دیکھنا ہے محال

اتنے گردو غبار میں کیا عید

ہم منانا تو چاہتے ہیں مگر

ہے بھلا اختیار میں کیا عید

آنکھ دَر پر لگی ہوئی ہے شعورؔ

حالتِ انتظار میں کیا عید