معاشرہ کیسے ٹھیک ہوگا؟

September 19, 2021

یہ ہمارے ایک دوست کا سچا اور تازہ واقعہ ہے۔ ان کی کسی اعلیٰ افسر سے ملاقات ہوئی۔ دورانِ ملاقات کسی کتاب کا ذکر آیا۔ یہ کتاب مہنگی بھی تھی اور نایاب بھی۔ ہمارے دوست نے اس سخت گیر اعلیٰ افسر سے کہا کہ میں عنقریب آپ کو یہ کتاب بھجوادوں گا۔ ایک اہم ترین موضوع پر 45منٹ کی میٹنگ تھی۔ میٹنگ ختم ہوگئی۔ میرے دوست نے گھر آکر کتاب کی تلاش شروع کردی۔ رات 11بجے تک کتاب مل گئی۔ انہوں نے کتاب پیک کی اور اگلی صبح 9 بجے ڈاک کے ذریعے اس اعلیٰ افسر کو بھجوادی۔ اسی دن شام 5بجے کتاب اس کی ٹیبل پر تھی۔وہ سخت گیر اور تندخو مزاج اعلیٰ افسر ہمارے اس مولوی نما دوست کی وعدہ وفائی سے بہت ہی زیادہ متاثر ہوئے۔ یہ اعلیٰ افسردینی طبقے کو بالکل پسند نہ کرتے تھے، لیکن ہمارے اس مولوی دوست کی ایک ادا اور وعدے کی بروقت تکمیل نے ان کی بیسیوں غلط فہمیاں دور کردیں۔ ان کویہ معلوم ہوا کہ مولوی حضرات آدابِ معاشرت سے پوری طرح واقف ہیں۔ یہ رہن سہن، رکھ رکھائو، اٹھنے بیٹھنے کے تمام عمدہ طریقے نہ صرف جانتے ہیں، بلکہ عمل پیرا بھی ہوتے ہیں۔ یہ اپنے کردار سے ثابت کرتے ہیں۔ یہ گفتار کے نہیں بلکہ کردار کے غازی ہیں۔دو دن بعد اس اعلیٰ افسر نے ہمارے دوست کو فون کیا۔ پہلے بہت بہت شکریہ ادا کیا اور پھر کھانے کی دعوت دے ڈالی۔ ہمارے دوست وقتِ مقررہ پر پہنچ گئے۔ ایک منٹ بھی تاخیر نہیں کی۔ اعلیٰ افسر نے ان کا پُرتپاک استقبال کیا۔ علیک سلیک کے بعد انہوں نے پوچھا کہ آپ وعدے کے بھی پابند ہیں اور وقت کے بھی۔ اس قدر پابندی آج کے دور میں کون کرتا ہے؟ ہمارے دوست نے زمین ہموار دیکھتے ہوئے ذمہ داریاں اور وعدے پورے کرنے پر ہائی ڈوز دینے کا فیصلہ کرلیا، چنانچہ انہوں نے کہا:’’بات دراصل یہ ہے کہ قرآن مجید اور احادیث مبارک میں ایفائے عہد کی بہت زیادہ تاکید آئی ہے۔ قرآن کی سورۃ المائدہ کی آیت نمبر ایک ہے:ترجمہ:’’اے ایمان والو! اپنے عہد کو پورا کرو۔‘‘ اس موضوع پر چند احادیث ملاحظہ فرمائیں۔ حضرت عبادہ ابن الصامتؓ سے مروی ہے آپ ﷺنے فرمایا:’’بولو تو سچی بات بولو، وعدہ کرو تو پورا کرو۔‘‘ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے آپ ﷺنے فرمایا:’’جب تم گفتگو کرو تو جھوٹ نہ بولو اور جب وعدہ کرو تو پورا کرو۔‘‘حضرت عبادہ الصامتؓ سے روایت ہے آپ ﷺنے فرمایا: ’’تم 6چیزوں کی ضمانت (عمل کرنے کی) لے لو، میں تمہارے لئےجنت کا ضامن ہوں گا1۔بولو تو سچ بولو۔ 2۔وعدہ کرو تو اسے پورا کرو۔3۔امانت ادا کرو۔4۔اپنی خواہشات کی حفاظت کرو۔5۔اپنی نگاہیں پست رکھو۔6۔اپنے ہاتھ کو بچاکر رکھو یعنی کسی کو تکلیف نہ دو۔‘‘حضرت عبدﷲ بن عامرؓ سے روایت ہے آپﷺ ہمارے گھر تشریف فرما تھے۔ میری ماں نے مجھے بلایا اور کہا:’’ آئو! میں تمہیں ایک چیز دوں گی۔‘‘ آپ ﷺنے اس کی والدہ سے دریافت کیا:’’کیا دوگی؟‘‘ کہا:’’کھجور دوں گی۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا:’’اگر تم اس کو کچھ نہ دوگی تو تم جھوٹوں میں لکھی جائوگی۔‘‘ میرا دوست کہتا ہے کہ وہ اعلیٰ افسر پورے غور اور توجہ سے میری یہ ساری باتیں سن رہے تھے۔ آخر میں وہ بولے:’’جب ایسا ہے تو پھر ہم سب کیوں وعدہ خلافی کرتے ہیں؟ کیوں حیلے بہانے بناتے ہیں؟ کیوں جھوٹ بولتے ہیں؟ کیوں خیانت کرتے ہیں؟ کیوں ٹائم کی پابندی نہیں کرتے؟‘‘ ہمارے دوست نے کہا:’’بھائی! بات دراصل یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ دوسرا صحیح ہوجائے، لیکن خود اچھا مسلمان، اچھا انسان بننے کی کوشش نہیں کرتا ۔ ہر شخص کو چاہئے کہ سب سے پہلے وہ خود ان سب اچھی باتوں پر عمل کرے۔ اگر ہر شخص یہ سوچ لے کہ کوئی اچھا بنے یا نہ بنے، لیکن میں ضرور مثالی انسان بنوں گا۔ میں لازمی دینی احکام پر عمل کروں گا۔ میں کبھی وعدہ خلافی نہیں کروں گا تو پورا معاشرہ ٹھیک ہوجائے گا۔