حکومت اور الیکشن کمیشن میں تصادم کا کیا نتیجہ نکلے گا؟

September 21, 2021

اسلام آباد (تبصرہ ،طارق بٹ) حکومت اور الیکشن کمیشن میں تصادم شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ آخراس محاذ آرائی کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ یہ کسی کے بھی اندازے کے لئے دعوتِ فکرہے۔ تاہم اس حوالے سے ایک تازہ مثال کی روشنی میں موجودہ تنازع کو پیش نظر رکھتے ہوئے جائزہ لینا مناسب ہوگا۔ 9 سال قبل فخرالدین جی ابراہیم نے چیف الیکشن کمشنر کی حیثیت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ انہیں اپنے خلاف استعمال سیاست دانوں کی زبان ناقابل برداشت لگی۔ وہ ایسے شخص تھے جو تنازعات کی صورت اپنے سرکاری منصب پر برقرار رہنا مناسب نہیں سمجھتے تھے۔ انہوں نے گورنر سندھ، سپریم کورٹ کے جج اور بحیثیت وکیل بڑی باوقار زندگی گزاری۔ جب انہیں جولائی 2012ء میں چیف الیکشن کمشنر بنایا گیا تو مخالفت میں کوئی آواز بلند نہیں ہوئی۔ لیکن وہ تعصب اور موقع پرست سیاست کا شکار ہوگئے۔ وہ صرف سال بھر کے لئے چیف الیکشن کمشنر رہے جبکہ ان کی میعاد کے چار سال باقی تھے لیکن انہوں نے استعفیٰ دینا ہی بہتر سمجھا۔ وہ سیاست دانوں کے لئے پنچنگ بیگ بننا نہیں چاہتے تھے۔ ان کی نگرانی میں 2013ء کے عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ انہیں پیپلزپارٹی کے وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے چیف الیکشن کمشنر بنایا گیا۔ تحریک انصاف بھی اس انتخاب پر خوش تھی۔ لیکن یہ خوشی مختصر مدت کے لئے ثابت ہوئی اور توقعات کے مطابق نتائج نہ ملنے پر وہ بھی نقادوں میں شامل ہوگئی۔ جب وزیراعظم عمران خان نے سکندرسلطان راجا کو چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا جو نوازشریف کے سابق پرنسپل سیکرٹری سعید مہدی کے داماد ہیں تو مسلم لیگ (ن) کے علاوہ پیپلزپارٹی اور جے یو آئی (ف) نے فیصلے کا خیرمقدم کیا تھا۔