پاکستانی صحافت کی چند جھلکیاں(1)

September 24, 2021

میری تربیت کی بنیادوں میں بزرگوں کا احترام کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ کئی سال پہلے میں نے اپنے کسی کالم میں لکھا کہ میرے والد اللّٰہ بخشے، میرے انگریزی کے استاد صوفی عبدالرحمن مرحوم کو سائیکل پہ دور سے آتا دیکھ کر گاڑی سائیڈ پہ کھڑی کرکے باہر کھڑے ہو جاتے تو ظاہر میں بھی ایسا ہی کرتا۔صوفی صاحب مرحوم گرمی، سردی اچکن، شلوار، کھسہ پہنتے۔

انتہائی سلوموشن میں سائیکل چلاتے اور ابا قریب آنے پر ان کے ساتھ گپ شپ لگاتے پھر صوفی صاحب کے دور تک جانے کے بعد گاڑی میں بیٹھتے ۔برسوں پہلے میرے اس کالم کی اشاعت پر صوفی صاحب مرحوم کے صاحبزادے نے مجھے اسلام آباد سے فون کیا جو اس وقت دارالحکومت میں کسی اعلیٰ عہدہ پر فائز تھے۔

انہوں نے کہیں سے میرا فون نمبر لیکر کال کیا۔ ان کے شکریہ پر میں نے عرض کیا کہ واقعی شکریہ ادا کرنا ہے تو مجھے صوفی صاحب کی کوئی تصویر بھجوا دیں۔

یہ تصویر آج بھی ہمارے ’’بیلی پور‘‘ والے فارم ہائوس میں میرے بیڈروم میں آویزاں مجھے صوفی صاحب کی علمیت، شفقت، محبت، تربیت کی یاد دلاتی ہے۔

صحافت میں آمد کے بعد بھی سرور سکھیرا صاحب سے لیکر مجیب الرحمن شامی صاحب تک، منوبھائی سے لیکر عباس اطہر تک، حسیننقی صاحب سے لیکر زیڈ اے سلہری تک میرے بہت سے سینئرز اور دیگر اس بات کی گواہی دیں گے کہ ان کا پروٹوکول مجھے اپنی ہر پہچان سے زیادہ عزیز اور محترم ہے لیکن آج میں اپنے جس سینئر کی کتاب کا حوالہ دے رہا ہوں.

میں ان سے کبھی ملا بھی نہیں ۔صحافت اور لائل پور کے علاوہ ہمارے درمیان کوئی قدر مشترک نہیں لیکن وہ ہمیشہ اپنی دعائوں، کتابوں کے ذریعہ مجھے یاد رکھتے ہیں حالانکہ میں تو بھول جانے کے قابل بھی نہیں کیونکہ پی آر سے عاری لوگوں کو تو گورکن بھی نہیں پوچھتے۔

یہ ہیں سو فیصد سیلف میڈ جناب جمیل اطہر قاضی جو میرے لئے اپنی قسم کے ایک یونیک سے گرو ہیں ۔میں زندگی بھر ’’چیلا‘‘ تو کسی کا نہ رہا لیکن گروئوں کی تعظیم میری تربیت کی بنیادوں میں شامل ہے۔

ان کی کتابوں میں سے ایک کا عنوان ہے ’’دیار مجدد سے داتا نگر تک‘‘ جسے پڑھے بغیر ماس کمیونیکیشنز کا کوئی طالب علم نہ پیشہ ورانہ طور پر بالغ ہو سکتا ہے نہ اپنی تاریخ سے واقف۔یہ کتاب مجھے 31مارچ 2021ء کو بھیجی گئی تو میں پہلے ہی بہت سے ’’کتابی قرضوں‘‘ کے نیچے دبا ہوا تھا ۔

قاضی صاحب کی اس آپ بیتی نما کتاب سے چند اقتباسات ’’ کام چوری ‘‘اور ’’حرام خوری ‘‘ نہیں اس لئے پیش کر رہا ہوں کہ میرے قارئین بھی اپنی صحافتی تاریخ کے کچھ تاریک اور روشن پہلوئوں سے متعارف ہو سکیں۔ گروجی لکھتے ہیں ...

’’ہمارے اختلاف نے اس وقت شدت پکڑی جب خانقاہ ڈوگراں سے رائے احمد سعید خان کا ’’وفاق‘‘ کے دفتر میں آنا جانا شروع ہوا۔ وہ مصطفیٰ صادق صاحب سے پیپلز پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرنے میں مدد کے خواہاں تھے مگر جب پاکستان قومی اتحاد نے زور پکڑا تو ان کی بھی ماہیت قلب ہوئی اور وہ پاکستان قومی اتحاد کی ٹکٹ کے خواہش مند ہو گئے ۔

رائے احمد سعید خان وہی ہیں جنہیں بعد میں مقامی چپقلش کی وجہ سے قتل کر دیا گیا اور پھر ان کے چھوٹے بھائی رائے اعجاز احمد خان خانقاہ ڈوگراں سے ایم پی اے منتخب ہوئے اور پنجاب کابینہ میں جنگلات کے وزیر بنے۔

جب مجھے معلوم ہوا کہ رائے احمد سعید خان نے مصطفیٰ صادق صاحب کو کچھ رقم بھی دی ہے تو میرا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا۔

غضہ میری طبیعت میں پہلے ہی کچھ کم نہ تھا،میں نے مصطفیٰ صادق صاحب سے کہا کہ آپ نے رائے احمد سعید خان کی جیب بھی کاٹ لی ہے۔ مصطفیٰ صادق صاحب یہ سن کر طیش میں آ گئے اور اپنی میز پر پڑا ہوا پیپر ویٹ میری طرف اچھالا‘‘(صفحہ 147)

روزنامہ’’ تعمیر ‘‘ابتدا میں راولپنڈی کا ایک مؤقر روزنامہ تھا۔ممتاز ناول نگار جناب نسیم حجازی اور جدید اردو صحافت کے معمار عنایت اللّٰہ بھی ’’تعمیر‘‘کے ساتھ وابستہ رہے ۔ نسیم حجازی کے تمام ناول قومی کتب خانہ نے ہی شائع کئے تھے ۔

بعد میں نسیم حجازی اور عنایت اللّٰہ نے ’’کوہستان‘‘ کے نام سے اپنا روزنامہ راولپنڈی سے ہی شروع کیا۔ سالہا سال ’’کوہستان‘‘ راولپنڈی کا ایڈیٹر رہنے کے بعد جب جناب نسیم حجازی اور جناب عنایت اللّٰہ کے راستے جدا ہوئے اور موخرالذکر نے نیا اخبار ’’مشرق‘‘ نکالا تو ابو صالح اصلاحی اس کے پہلے ایڈیٹر مقرر ہوئے ‘‘صفحہ (31-130)

’’ادھر چٹان‘‘ پر پابندی لگائی گئی ادھر ڈھاکہ میں روزنامہ ’’اتفاق‘‘ کی اشاعت پر بھی پابندی کا کوڑا برسایا گیا جس کا جھکائو شیخ مجیب کی عوامی لیگ کی طرف تھا ۔’’اتفاق‘‘ اور ’’چٹان‘‘ پر پابندی کے بعد یہ پورے ملک میں آزادی صحافت کا مسئلہ بن گئے ۔

ہر جگہ ایک ہی آواز بلند ہو رہی تھی کہ ’’چٹان‘‘ اور ’’اتفاق‘‘ کو آزاد کرو۔ بالآخر حکومت کو جھکنا پڑا اس وقت کے سیکرٹری اطلاعات پنجاب نے آغا صاحب کو کچھ نرم رویہ اختیار کرنے پر آمادہ کرنا چاہا مگر آغا شورش کاشمیری بھی ایک منفرد دبنگ سیاست دان اور صحافی تھے ۔

انہوں نے اپنے دائیں ہاتھ کی سب سے چھوٹی انگلی کو بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے پکڑا اور سیکرٹری انفارمیشن سے کہا کہ یہ میرے ہاتھ کی سب سے کمزور انگلی ہے احمد سعید کرمانی (وزیر اطلاعات) کا باپ بھی اس کو نہیں جھکا سکتا‘‘(صفحہ 261)

قارئین!

یہاں یہ بھی یاد دلاتا چلوں کہ حکومت اور صحافت کے درمیان ’’میچ‘‘ بہت پرانا ہے جس میں صحافت ہی جیتی تھی اور صحافت ہی جیتے گی۔(جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)