سندھ کے چند کتب خانے

September 24, 2021

سندھ کا خطہ صدیوں سے علم و ادب کا گہوارہ ہے۔ ٹھٹھہ شہر کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کی درس گاہوں سے نام ور علمائے کرام نےاکتساب علم کیا ۔درس گاہوں کے ساتھ سندھ کے بڑے شہروں میں متعدد کتب خانے بھی قائم کیے گئے ، جن میں مختلف موضوعات پر مبنی لاکھوں کتابیں رکھی گئیں تاکہ تشنگان علم، اپنی علمی پیاس بجھا سکیں۔ ہم آپ کو سندھ کی بعض معروف لائبریریوں کے بارے میں بتاتے ہیں ،جہاں آج بھی لوگ اپنی علمی پیاس بجھانے آتے ہیں ۔

جنرل لائبریری سکھر

وادی مہران میں سب سے پہلا کتب خانہ182 سال قبل سکھر میں ’’جنرل لائبریری ‘‘ کے نام سے قائم ہوا۔پاکستان کی 106 لائبریریوں میں جنرل لائبریری سکھر کوپاکستان کی سب سے پہلی لائبریری ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔اسے1835ء میں انڈس فلوٹیلا نام کی ایک جہازراں کمپنی نے اپنے ملازمین کے لئےقائم کیا جس کا نام’’ اسٹیشن لائبریری ‘‘رکھا گیا۔ 1849ء میں جب کوٹری اور ملتان کے درمیان ریلوے لائن بچھا ئی گئی تو آبی راستےسے تجارت کم ہونے لگی جس کے بعد انڈس فلوٹیلا کمپنی بھی ختم کردی گئی۔ اسٹیشن لائبریری کو’’ جنرل لائبریری‘‘ سکھرکا نام دے کرعوام کےلئے کھول دیا گیا۔

1893ء میں اس دارالمطالعے کی سرکاری طور پر نئے نام سے رجسٹریشن کرائی گئی۔ ابتدائی دور میں اس کا ذخیرہ کتب زیادہ تر انگریزی کتابوں پر مشتمل تھا۔ قیام پاکستان کے بعد نادر قلمی نسخے چوری اور مالی فنڈ خورد برد کرلیے گئے جس کے بعد لائبریری کی حالت انتہائی دگرگوں ہوگئی۔

اس ناگفتہ بہ صورت حال میں بعض علم دوست شخصیات جن میں سابق ڈپٹی کمشنر سکھر، آفتاب احمد خان،، نجم الاسلام صدیقی (شعبہ اردو سندھ یونیورسٹی)، اعظم الدین خان، الیاس یوسفانی سابق ڈپٹی کمشنر سکھر سید رحمان علی نقوی ایڈووکیٹ، مرزا افضل حسین، ڈاکٹر سید علی حیدر سرفہرست ہیں۔ ان کی کاوشوں سے یہ قدیم لائبریری اب ایک علمی ، ادبی، تہذیبی اور ثقافتی مرکز کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ اس میں نایاب کتب کے بیش قیمت نسخے موجود ہیں، جن کوکتب خانے کی مجلس انتظامیہ نے بڑی احتیاط سے رکھا ہے۔

حیدرآباد جنرل لائبریری

1872ء میںبرطانوی دور حکومت میں، سندھ کے تیسرے بڑے شہر حیدرآباد میں ’’حیدرآباد جنرل لائبریری‘‘کا قیام عمل میں آیا جو صرف یورپی اور اینگلو انڈین افراد کے لیے مخصوص تھی ۔ اس کے اخراجات میونسپلٹی کی امداد اور چندے کی رقم سے پورے کیے جاتے تھے۔ میونسپلٹی120 روپیہ سالانہ امداد کے علاوہ سولہ روپیہ ماہانہ مٹی کا تیل خریدنے کی مد میں دیتی تھی۔ 1920ء میں اس لائبریری میں مختلف مضامین کی تقریباً سات ہزار کتابیں موجود تھیں۔

نیٹو جنرل لائبریری

’’نیٹو جنرل لائبریری ‘‘ کا شمار بھی حیدرآباد کی بڑی لائبریریوں میں ہوتا تھا۔ یہ 1888ء میں قائم ہوئی تھی اور اس کا نام ’’نیٹو جنرل لائبریری‘‘ رکھا گیا۔ 1920ء میں اس کا نام تبدیل کرکے ’’ وکٹوریہ جنرل لائبریری ’’ رکھ دیا گیا۔ اس میں مختلف موضوعات کی 1400 کتابیں موجود تھیں، جن میں سندھی، فارسی اور سنسکرت زبانوں کی کتابیں شامل تھیں۔ اسے میونسپلٹی سے چار سو بیس روپیہ سالانہ امداد کے علاوہ پچاس روپیہ مٹی کے تیل کے لیے بھی ملتے تھے۔

حیدرآباد میں قائم دیگر کتب خانوں میں ’’شمس العلما مرزا قلیج بیگ‘‘ کے نام سے قائم کی گئی لائبریری بھی معروف رہی ہے۔ اس میں عربی، فارسی، ترکی اور سندھی زبان میں کتابیں رکھی گئی تھیں۔ حیدرآباد کے قصبہ’’ پیر جھنڈا ’’ کے علاقے میں ’’کتب خانہ پیر راشد اللہ راشدی‘‘ کا شمار بھی سندھ کے تاریخی کتب خانوں میں ہوتا ہے۔ پیر راشد اللہ راشدی نے اس کتب خانہ پر کافی روپیہ خرچ کیا۔ لندن کی لائبریری انڈیا آفس سے کتابوں کی فوٹو کاپیاں منگواکر رکھی گئیں۔ ترکی اور مصر کے کتب خانوں سے نایاب کتابوں کی نقل، ان ممالک میں کاتب بھیج کر کروائیں۔

مولانا عبیداللہ سندھی نے بھی اس کتب خانے سے استفادہ کیا تھا۔ ان کے علاوہ’’کتب خانہ لواری شریف‘‘جو حیدرآباد میں ہے۔ ٹنڈوسائیں دادمیں ’’کتب خانہ خواجہ محمد حسین فاروقی مجددی‘‘ ٹنڈو میر نور محمد میں ’’کتب خانہ میر نور محمد‘‘مٹیاری میں ’’کتب خانہ پیر غلام محمد سرہندی‘‘ ہالا میں ’’کتب خانہ مخدوم مولانا غلام حیدر‘‘ ہیں۔ ان میں مخطوطات، نوادرات اور مطبوعات کے عمدہ ذخائر جمع ہیں۔ان کے علاوہ حیدرآباد کی ’’ڈاکٹر داؤدپوتہ لائبریری‘‘ اور کراچی میں 1952ء میں قائم کی جانے والی’’ڈاکٹر محمود حسین لائبریری‘‘ علمی حلقوں میں خاصی معروف ہیں۔

لیاقت لائبریری، فیریئرہال

1844ء میں کراچی میں سندھ کا دوسرا کتب خانہ قائم کیا گیا جو بعدازاں فیرئیر لائبریری کے نام سے معروف ہوا۔ یہ چھوٹا سا کتب خانہ فوجی افسران کوعلمی مواد کی فراہمی اور مطالعے کی غرض سے صدر کے علاقے میں ایک فوجی چھاؤنی میں قائم کیاگیا تھا۔ عوام کی کتب بینی میں دل چسپی دیکھتے ہوئے 14 اکتوبر 1851ء کو اسےجیم خانہ کی عمارت کے ایک کمرے میں منتقل کر کےاس کا نام جنرل لائبریری رکھا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کا نام بھی تبدیل ہوتا رہا۔1865ء میں فریئرہال کی تعمیرشروع ہوئی جو 1885ء میں مکمل ہوئی۔

جنرل لائبریری کو فریئر ہال کی عمارت میں منتقل کردیا گیا ، جس کے بعد یہ فریئر لائبریری کے نام سے معروف ہوئی۔ قیام پاکستان کےبعداس کا نظم و نسق بلدیہ عظمیٰ کراچی کے حوالے کردیا گیا۔ 1951ء میں شہید ملت لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد اس کا نام ’’لیاقت لائبریری ‘‘ رکھا گیا۔ اُس زمانے میں یہ کتب خانہ ، فیرئیرہال کی نچلی منزل پر چھوٹے سے حصے میں قائم کیا گیا تھا، بقیہ حصے میں عجائب خانہ تھا۔ 1969ء میں عجائب گھرسول لائنز کے علاقے میں دین محمد فائی روڈ پر منتقل کردیا گیا تو یہ حصہ بھی لائبریری میں شامل ہوگیا۔ اس میں نادر و نایاب کتب اور قلمی نسخوں سمیت ہر موضوع پر تصنیفات موجود ہیں۔ مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کے سبب یہ کتابیں زبوں حالی کا شکار ہیں۔

لیاقت نیشنل لائبریری

1950ء میں حکومت پاکستان کی طرف سے ایک قومی کتب خانے کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اس نے اپنا کام کراچی میں اس وقت شروع کیاجب 1951ء میں اس کو ڈائریکٹوریٹ آف آرکائیو اینڈ لائبریریز کی سرپرستی میں دیا گیا۔ 1954ء میں جب قومی کتب خانے میں لیاقت میموریل لائبریری بھی شامل کر دی گئی تو اس کا نام’’ لیاقت نیشنل لائبریری‘‘ رکھا گیا۔ 1954ء میں لیاقت نیشنل لائبریری کو سیکریٹریٹ بلاک نمبر 76 سے میری ویدر ٹاور کے قریب، پاکستان مسلم لیگ ہاؤس کی عمارت میں منتقل کر دیا۔

یہ عمارت تقسیم ہند سے قبل ہندو پنچایتی بلڈنگ کے نام سے مشہور تھی۔ اس کے ایک تنگ و تاریک حصے میں قائم یہ لائبریری، تقریباً دس سال تک علم و ادب کی خدمت کرتی رہی۔ ایوب دور میں مسلم لیگ کا دفتر بند کیا گیا تو لائبریری کی کتابوں سمیت مسلم لیگ کاریکارڈ، سندھ سیکریٹریٹ کے ایک بلاک میں رکھ کر سیل بند کر دیا گیا۔ 1964ء میں لیاقت نیشنل لائبریری کو لال کوٹھی کے قریب ایک بنگلے میں منتقل کیا گیا۔ 50ہزار کتابیں یورپی زبانوں میں جب کہ باقی ملکی زبانوں میں ہیں۔

ڈیفنس لائبریری

کراچی میں سینٹ بولیوارڈ، کی مرکزی شاہراہ پر ’’’ڈیفنس سینٹرل لائبریری‘‘ واقع ہے ، جسے 1991میں قائم کیا گیا تھا۔اس میں مختلف موضوعات پرمبنی 80ہزار سے زائد کتب موجود ہیں،جن سےطلباء استفادہ کرتے ہیں۔ لائبریری میں تقریباً ہرموضوع پر کتابیں موجود ہیں خاص کر طب سے متعلق ایسی کتابیں بھی ہیں جو کہیں اور دستیاب نہیں۔ ملک کی یہ واحد لائبریری ہے جہاں خصوصی افرادکے لئے ویل چیئر ز کی سہولت بھی مہیا کی گئی ہیں۔ (محمد زبیر کی تصنیف ’’اسلامی کتب خانے‘‘)