طارق بن زیاد ہمارا ہیرو نہیں؟

October 17, 2021

ہمیں بتایا اور پڑھایا تویہی گیا تھا کہ طارق بن زیاد بربرنسل سے تعلق رکھنے والے مسلمان اور بنو اُمیہ کے جرنیل تھے، انہوں نے 711 میں ہسپانیہ (اسپین ) کی مسیحی حکومت پر قبضہ کر کے یورپ میں اقتدار کا آغاز کیا ۔نصاب کی کتابو ں میں یہ بھی بتایا گیاکہ وہ اموی صوبہ افریقیہ کے گورنر موسیٰ بن نصیر کے نائب تھے اور انہیں ہسپانیہ کے بادشاہ و زیگوتھر کے مظالم سے تنگ عوام کے مطالبے پر ہسپانیہ پر چڑھائی کا حکم دیا گیا تھا،ہم آج بھی طارق بن زیاد کو اندلس کی فتح کا مرکزی کردار اور اپنا ہیرو سمجھتے ہیں جن کی وجہ سے مسلمانوں نے آٹھویں صدی سے پندرھویں صدی تک تقریباً ساڑھے سات سو سال تک یورپ میں حکمرانی کی۔ ان کے نام سے موسوم جبل ِ طارق (جبرالڑ ) آج بھی تاریخ کے اس سپہ سالار کی عظمت کی گواہی دیتا ہے (جبرالڑ گزشتہ تقریباً تین سو سال سے برطانیہ کےزیر تسلط ہے اسی بات پر اسپین و برطانیہ کا اختلاف آج بھی موجود ہے ) اور طارق بن زیاد کا نام تاریخ میں امر ہو چکا ہے۔ 2012میں برطانیہ کے مرکزی بینک نے جبرالڑ کی حکومت کیلئے پانچ پاؤنڈ کا ایک کرنسی نوٹ بھی جاری کیا جس پر طارق بن زیاد کی تصویر تھی۔ کچھ عرصہ پہلے مجھے چند روز کیلئے اندلس جانے کا اتفاق ہوا جہاں کبھی بلا شرکت غیرے مسلمانوں کی حکومت تھی لیکن اب اسپین کی کوئی ساڑھے پانچ کروڑ کی آبادی میں صرف 20لاکھ مسلمان اور کم و بیش 80ہزار پاکستانی آباد ہیں، اسپین میں آج 17خود مختار ریاستیں ہیں اور ہرریاست کی اپنی پارلیمنٹ ہے جبکہ سربراہ حکومت بادشاہ ہوتا ہے۔ ہسپانیہ پر مسلمانوں کے حملے کے ضمن میں روایتی کہانی یوں ہے کہ 711ء میں جب ہسپانیہ شدید خانہ جنگی کی لپیٹ میں تھا اور بادشاہ کو معزول کر دیا گیا تو اس کے بیٹے نے دمشق کے گورنر موسیٰ بن نصیر سے مدد طلب کی کہ اسپین کے تخت پرغاصب راڈ رک نے قبضہ کر لیا ہے ہمیں اس سے نجات دلائی جائے۔ موسیٰ بن نصیر اموی خلیفہ ولید بن عبدالمالک کا سپہ سالار تھا اس نے اپنے جنرل طارق بن زیاد کو سات ہزار فوجیوں کیساتھ ہسپانیہ روانہ کیا ۔جہاں طارق بن زیاد نے ایک بڑے لشکر کو شکست دی۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا طارق بن زیاد عالم اسلام کا ہیرو ہے یا بربر اور عربوں کا ؟میں اورمیرا دوست غرناطہ کے ایک کیفے میں بیٹھے تھے، سامنے والی میز پر ایک عمر رسیدہ شخص بھی قہوہ کی پیالی سامنے رکھے اخبار پڑھنے میں مصروف تھا۔ ایک آدھ دفعہ آنکھیں چار ہوئیں تو گفتگو کا آغاز کرنے کے لئے گڈ آفٹر نون کہا، مجھے نہیں پتا تھا کہ وہ انگریزی سمجھے گا یا نہیں لیکن مجھے ہسپانوی یا عربی زبان نہیں آتی تھی اس لئے یہی ایک طریقہ تھا گفتگو کیلئے، میرے جواب میں اس شخص نے بڑی شستہ انگریزی میں جواب بھی دیا اور پوچھا آپ کیسے ہیں؟ میں نے جواباً کہا، آپ کی انگریزی بہت اچھی ہے اس نے کہا میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہوں، ہم نے اسے بتایا کہ ہم یہاں اپنے اسلاف کے ملک کو دیکھنے آئے ہیں جس پر انہوں نے سینکڑوں سال حکومت کی، اس سے پہلے کہ میں کچھ اور کہتا وہ بزرگ سوالیہ انداز میں گویا ہوئے کہ مائی فرینڈ ! طارق بن زیاد تم لوگوں کا ہیرو کیسے ہے ؟ہم دونوں یک زبان ہوکر بولے طارق بن زیاد مسلمان تھا اسلئے وہ ہمارا ہیرو ہے ۔ بزرگ جنہوں نے اپنا نام احمد بن عدیل بتایا تھا، انہوں نے پوچھا ’’تمہارا آبائی ملک کون سا ہے؟ ہم نے کہا ہم لوگ لندن میں رہتے ہیں اور آبائی ملک پاکستان ہے، بزرگ نے ذرا توقف کے بعد کہا، اچھا تو تم پاکستانی مسلمان ہو، ویسے میں بھی مسلمان ہوں اور میرے آباء کا تعلق عرب اور شمالی افریقہ سے تھا لیکن پچھلے دو سو سال سے میرا خاندان اسپین میں آباد ہے مگر مجھے شدید حیرت ہے کہ بربر قبیلے کے طارق بن زیاد اور بنو اُمیہ کے گورنر موسیٰ بن نصیر جیسے فاتحین سے تم لوگوں کا کیا تعلق ہے یہ لوگ تمہارے ہیروز اور برصغیر والوں کے اسلاف کیسے ہوئے ؟‘‘بزرگ بولتا اور ہم کھسیانی ہنسی ہنستے رہے کیونکہ ہم دونوں کیلئے اس ہسپانوی بزرگ کی یہ بات کسی جھٹکے سے کم نہیں تھی، بزرگ نے مزید کہا کہ تم بتاؤ ! اگر پاکستان میں رہنے والا کوئی مسیحی یا یہودی کوئی عظیم کارنامہ انجام دیتا ہے تو وہ اسپین، امریکہ یا برطانیہ میں رہنے والے عیسائیوں یا یہودیوں کا ہیرو کیسے ہو سکتا ہے لیکن ہاں وہ پاکستانیوں کا ہیرو ضرور ہو سکتا ہے۔ بزرگ نے ایک اور انکشاف کیا کہ طارق بن زیاد کی جائے پیدائش اورشہریت کا بھی آج تک پتا نہیں چل سکا، کوئی تاریخ دان کہتا ہے وہ ایرانی تھے اور ہمدان میں پیدا ہوئے، کچھ تاریخ دان انہیں الجزائر سے اور کچھ یمن کے علاقہ حضر موت سے بتاتے اور بعض انہیں عرب اور بر بر کہتےہیں ۔غرناطہ اور الحمرا کی تاریخی خوبصورتی و جاہ جلال اپنی جگہ مسلم حقیقت ہے، مسلمانوں کے دور کی عظیم یادگاروں کے اوج کمال میں بھی کلام نہیں لیکن اس اندلسی مسلمان کا سوال بھی بہرحال جو اب طلب ہے اور یہ ساری تمہید میں نے اسی سوال کیلئے باندھی ہے ۔ہمارے تاریخ دانوں و دانشوروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عوام کی عملی ضرورت کیلئے اس سوال کا جواب بغیر کسی لگی لپٹی کے دیں اور موسی بن نصیر و طارق بن زیاد کے تعلقات کی شورش کی اصلیت بھی بتائیں موسیٰ نے طارق کے ذریعے مراکش میں کامیابیاں سمیٹیں اور پھر طارق کو بلندی کی طرف جاتا دیکھ کر حسد محسوس کرنے لگے چنانچہ الحمرا کے محلات، غرناطہ کے باغات اور اسلاف کی فتوحات کا سرور و رومان تو موجود ہے لیکن ہمیں بحیثیت قوم ان سوالوں کے جوابات بھی تلاش کرنے ہیں اگر ہم برصغیر کے باشندے ہیں تو ہمارے اصل ہیرو اور ولن کون سے ہیں ؟ تاریخ میں موسیٰ بن زیاد کی آپسی چپقلش کا ذکر بھی آتا ہے اور طارق بن زیاد کی کسمپری کی حالت میں دردناک موت کا بھی، تاریخ دان یہ بھی بتائیں کہ یہ بات کہاں تک سچ ہے کہ اندلس کے ساحل پر پہنچ کر طارق بن زیاد نے اپنے بحری بیڑوں کو آگ لگا دی تھی کیونکہ جغرافیہ دان علامہ الادریسی کے سوا تاریخ کی کسی کتاب میں اس بات کا ذکرمرکوز نہیں ہے ۔یاد رہے کہ الادریسی کا دور فتح اندلس سے تقریباً پانچ سو سال بعد کا ہے۔ اندلسی بزرگ کے سوال کا جواب اس لئے بھی ضروری ہے کہ اگر اس سوال کی صحت کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر یوسف بن تاشفین، صلاح الدین ایوبی، سلطان محمود غزنوی، محمد بن قاسم سمیت اسلامی تاریخ کے درجنوں ہیروز تو ہمارے نہیں ہیں ؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)