اپنے عشاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے

October 17, 2021

پاکستان میں جمہوریت کی آبیاری پیپلز پارٹی کی قیادت اور کارکنوں کے لہو سے عبارت ہے۔ گملوں میں پرورش پانے والی مصنو عی قیادت اور مفادات کے تحت وجود میں آنے والی غیر سیاسی ــــ’’ سیاسی جماعتیں‘‘ جمہو ر اور جمہوریت کے لئے قربانی کیسے دے سکتی ہیں؟ اسی لئے پیپلز پارٹی کے علاوہ یہ سب لوگ گفتار کے غازی اور کردار کے بھگوڑے ثابت ہوئے ہیں۔50 سال کی عمر میں بھی موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنابھٹوازم کی روایت ہے اور ستر، بہتر کی عمر میںجان کی بھیک مانگ کر بھاگ جانا جعلی انقلابیوںکی پہچان ہے۔ بھٹو ز اور عوام کے درمیان امیدو عشق کا یہ رشتہ دیرینہ ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جب ان بے زبانوں کی آواز بن کر ان محروم طبقات کو عزت دی یہیں سے اس رشتے کا آغاز ہوا اور اسی جرم کی پاداش میں وہ سرِ دار جا پہنچے۔ عوام کے ساتھ مگربھٹو کے لافانی تعلق کو توڑا نہ جا سکا۔ بھٹو شہید نے اپنی سب سے اہم میراث اپنی بے نظیر بیٹی کے سپرد کرتے ہوئے کہا ’’میری پیاری بیٹی صرف عوام پر بھروسہ کرو، ان کی بھلائی اور مساوات کیلئے کام کرو۔ خُدا کی جنت ماں کے قدموں تلے ہے اور سیاست کی جنت عوام کے قدموں تلے ہے۔ آج میں تمہارے ہاتھ میں عوام کا ہاتھ دیتا ہوں‘‘۔

بی بی نے اس رشتے کو مزید مضبوط کیا اور اپنی ساری زندگی اس عہد کی تکمیل کیلئے وقف کر دی۔ قید و بند کی صعوبتیں، آمرانہ حکومتوں کے ظالمانہ ہتھکنڈے، باپ اور بھائیوں کی شہادتیں، شوہر کی جوانی کے 12سال قید ماں کی بیماری اور بچوں کی محرومیاں بھی بی بی کو ان کے مقصد سے ہٹا نہ سکیں۔ جنرل مشرف آٹھ سال سے اقتدار پر قابض تھا، کوئی سیاسی قوت اس کے سامنے ٹھہر نہ سکی اور نہ وردی اترواسکی۔ عدالتیں بھی آمر کو گھر نہ بھیج سکیں۔صرف آصف علی زرداری جرأت و بہادری سے قید کی تکالیف برداشت کر تے رہے اور محترمہ نے دنیا کی بڑی طاقتوں کے ساتھ گفت و شنید کے ذریعے مشرف کو قائل کیا کہ پاکستان کا مقدر جمہوریت سے وابستہ ہے اور جمہورت کے بغیر امن نا ممکن ہے لہٰذا محترمہ نے اپنی حکمت اور تدبر سے جنرل مشرف کو ریٹائرڈ جنرل مشرف بنا کر ملک میں از سرِ نو جمہوریت کی بنیاد رکھی اور آج کے بہت سے نام نہاد سیاستدانوں کو سیاست کے مواقع حاصل ہوئے۔ محترمہ نے وطن واپسی کا فیصلہ کیا تو غیر جمہوری قوتیں اور دہشت گرد انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دینے لگے۔بی بی نے تمام خدشات کے باوجود عوام کے درمیان آنے کا فیصلہ کیا ۔اپنی آخری کتا ب Reconciliation میں وہ لکھتی ہیں ’’میں آمروں اور انتہا پسندوں کے خلاف جمہوریت کی بحالی کیلئے جدو جہد میں اپنا مثبت کردار ادا کروں گی۔ یہی میری تقدیر ہے میں اپنی ذمہ داری سے پیچھے نہیں ہٹوں گی بلکہ اسے ادا کرنے کیلئے تیار ہوں‘‘۔بی بی کے واپسی کے اعلان نے آمرانہ قوتوں اور دہشت پسند عناصر پر لرزہ طاری کر دیا۔ وہ اور ان کے حواری بی بی کے خلاف شدید پروپیگنڈہ کر نے لگے اور ڈیل کے الزامات لگانے لگے۔ حالانکہ جان بخشی کروا کر ملک سے بھاگنا ڈیل ہوتا ہے یا جان ہتھیلی پررکھ کر وطن واپس آنا ڈیل کہلاتا ہے؟ پاکستان کے عوام اس منظر کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے جب بی بی نے اپنی سر زمین پر قدم رکھا ۔

14سال قبل کراچی انسانوں کے سمندر کا سماں پیش کر رہا تھا، ہر طرف جشن کا سماں تھا جوش و ولولہ، عشق و جنون سے سر شار لاکھوں لوگ جذبہ امید میں رقصاں تھے۔ پس منظر یقیناً مختلف تھا لیکن جذبہ ایک سا تھا اور سب یک زبان تھے ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘، ’’بے نظیر آئے گی انقلاب لائے گی‘‘۔بی بی لاکھوں لوگوں کے ساتھ مزارِ قائد کی طرف رواں دواں تھی ہر چہرہ خُوشی سے دمک رہا تھا عوام مست و رقصاں نعرہ زن تھے۔ ’’چاروں صوبوں کی زنجیر بے نظیر، بے نظیر‘‘ ایسی زنجیر جس نے ہر قومیت، مذہب، مسلک اور علاقہ کے لوگوں کو ’’میں بھٹو ہوں ‘‘ کی لڑی میں پرو رکھا تھا۔ محروم طبقات کو یقین تھا کہ ان کی قائد ان کے حقوق آزادی اظہارِ رائے اور معاشی انصاف کیلئے کی جانے والی جدو جہد کو پایہء تکمیل تک پہنچائے گی۔لاکھوں عوام اس جلوس میں شریک تھے اور کروڑوں لوگ ان مناظر کو ٹیلی وژن کے ذریعے دیکھ رہے تھے کہ یکا یک یہ جشن خون کی ہولی میں تبدیل ہو گیا اور پاکستان کی تاریخ کے بد ترین دھماکوں سے صفِ ماتم بچھ گئی۔ اس بد ترین صورتِ حال میں جیالے اپنی قائد کے ٹرک کی طرف دوڑنے لگے کیونکہ انہیں اپنی جانوں سے زیادہ اپنی قائد کی جان عزیز تھی۔ روزِ ازل سے فساد پر عمل پیرا لوگ ہمیشہ سے امن کے پیامبروں کے دشمن رہے ہیں۔ یہ جہل والے ہمیشہ اُجالے سے گھبراتے ہیں۔ یہ مردہ ضمیر ہمیشہ زندگی کے در پے رہتے ہیں کیونکہ نا اہل کبھی صاحبِ کردار سے مقابلہ نہیں کر سکتا ،یہ گروہ ظلم کی راہ پر گامزن ہیں۔ ان بزدل ظالموں نے امید کو نا امیدی میں بدلنے کی کوشش کی۔ 177افراد شہید ہو گئے اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ کئی شہداء کی شناخت نہ ہو سکی اور جب انہیں لاوارث قرار دیا جانے لگا تو ان کی وارث بی بی آگے بڑھی اور کہا یہ میرے بھائی ہیں یہ بھٹو کے بیٹے ہیں لہٰذا انہیں گڑھی خُدا بخش میں دفن کیا گیا۔ ان کی قبروں پر یہ کتبے لگائے گئے جن پر کندہ ہے ’’میں بھٹو ہوں‘‘ بھٹو کسی ذات یا قبیلے کا نام نہیں رہا یہ ایک نظریے اور فلسفے کا روپ دھار چکا ہے۔ امیدوں کا وہ قافلہ جو مزارِ قائد کی طرف رواں دواں تھاوہ آج بھی بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں محروم عوام کے انسانی، جمہوری اور معاشی حقوق کے حصول کیلئے پر عزم ہے۔

آج پاکستان کے حقیقی سیاسی کارکن شہدائے کارساز کی قربانی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے پاک سر زمین سے سوال کر رہے ہیں کہ

ہم تو مجبور وفا ہیں مگر اے جان جہاں

اپنے عشاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے