• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکا میں غربت سے برا حال، گندگی کے ڈھیر

Poverty And Piles Of Dirt In America

جس وقت امیر ترین طبقہ پورے ملک کو نچوڑ کر اسے کھوکھلا بنا رہے ہیں اس وقت سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکا اپنے عوام کو معیاری معیارِ زندگی فراہم کرے گا یا نہیں۔ یہ بھی اہم بات ہے کہ اس مقصد کے حصول کیلئے کتنے لوگوں کو قربانی دینا پڑے گی۔ امریکا دنیا کا امیر ترین ملک ہے اور اس بات کا اندازہ اس کی خام جی ڈی پی دیکھ کر ہوتا ہے لیکن حالت یہ ہے کہ یہاں بچوں کی ایک بڑی تعداد کھلے گٹر اور جگہ جگہ پھیلے کچرے اور گندگی کی وجہ سے بیمار ہو رہے ہیں۔

یہ انکشافات کسی اور نے نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی جانب سے گزشتہ سال کرائے گئے ایک سروے کے نتیجے میں کیے گئے ہیں۔ اس سروے کیلئے امریکا کے غریب ترین علاقوں میں مسلسل دو ہفتوں تک ریسرچ کی گئی۔ اقوام متحدہ کی یہ رپورٹ گزشتہ سال دسمبر میں جاری کی گئی تھی۔

US-report_L1

رپورٹ کی تیاری کیلئے ماہرین کی ٹیم نے کیلیفورنیا، الاباما، جورجیا، مغربی ورجینیا اور واشنگٹن ڈی سی (دارالحکومت) کا دورہ کیا۔ اقوام متحدہ کے نمائندہ برائے غربت اور حقوق انسانی فلپ آلسٹن نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ امریکا دنیا کے امیر ترین، انتہائی طاقتور اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے جدید ترین ملکوں میں سے ایک ہے لیکن تمام تر دولت، طاقت اور ٹیکنالوجی کے باوجود ان مسائل کو حل نہیں کیا جا رہا جن کی وجہ سے ملک کے 4؍ کروڑ افراد بدستور غربت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

انہوں نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ میں نے لاس اینجلس میں کئی غریب لوگوں سے ملاقات کی، سان فرانسسکو میں ایک پولیس والا بے گھر افراد کے ایک گروپ سے کہہ رہا تھا کہ اس جگہ سے ہٹ جائو، لیکن اس کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا جو ان بے گھر افراد نے پوچھا کہ یہاں سے ہٹ کر کہاں جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ان ریاستوں میں کئی ایسے مقامات ہیں جہاں کچرا کھلے عام پھینکا جاتا ہے اور مقامی حکومتیں حفظانِ صحت کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتیں، غریب لوگوں کیلئے متعارف کرائے جانے والے ہیلتھ پروگرامز میں دانتوں کے مسائل کی سہولت شامل نہیں، ان ریاستوں میں خاندانی نظام تباہ ہو رہا ہے، شرح اموات بڑھ رہی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گٹر کے کچرے اور غلاظت سے بھرے ہوئے علاقے لائونڈیس کائونٹی الاباما میں موجود ہیں جس سے صحت کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں خصوصاً ہوک ورم نامی بیماری پیدا ہو رہی ہے جو عمومی طور پر غریب ترین ملکوں میں پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ دیکھیں تو نیویارک کا سب وے سسٹم زوال کا شکار ہے کیونکہ یہاں سرمایہ کاری نہیں کی جا رہی اور کرپشن زیادہ ہے۔

گزشتہ موسم سرما کی بات کی جائے تو زیر زمین ایک ٹرین پھنس گئی جس کی وجہ سے کئی مسافروں کو بغیر ایئر کنڈیشن کے اندھیرے میں ایک گھنٹے تک مدد کیلئے آہ و بکا کرنا پڑی۔

US-report_L2

دارالحکومت واشنگٹن کی بات کی جائے تو میٹرو ٹرین ہمیشہ دیر سے آتی ہے اور ناقابل بھروسہ بھی ہے، ٹرینوں میں آگ لگنے کے واقعات بڑھ رہے ہیں، پل ٹوٹ رہے ہیں، بالٹی مور میں درجنوں اسکولز ایسے ہیں جہاں سردیوں میں گرمی پیدا کرنے کا کوئی نظام نہیں جبکہ امریکی انتظامیہ جس ایک شعبے میں زیادہ سرمایہ کاری کر رہی ہے وہ جیل خانہ جات کا شعبہ ہے یا پھر جنگ کا۔

ملک میں طلبہ کی ایک بڑی تعداد 14؍ کھرب ڈالرز کی مقروض ہے۔ جہاں تک صحت کے شعبے کی بات کی جائے تو 45؍ ہزار لوگ صرف اسلئے سالانہ مر رہے ہیں کیونکہ ہیلتھ کیئر تک رسائی ان کے بس کی بات نہیں۔ اس کے بعد پانی کے مسائل آتے ہیں، ملک بھر میں ایسی تین ہزار کائونٹیز ہیں جہاں پانی کی سپلائی میں سیسہ پایا گیا ہے لیکن مسائل کے حل کیلئے کچھ نہیں کیا جا رہا۔

حیرانی کی بات یہ ہے کہ مسائل سے بھرپور علاقوں میں زیادہ سے زیادہ عمر کی حد 64؍ سال ہے جبکہ صرف 6؍ گھنٹے دور موجود امیروں کے علاقے میں زیادہ سے زیادہ عمر کی حد 82؍ سال ہے۔ ایسے ملک میں یہ باتیں حیران کن نہیں جہاں امیر لوگ امیر ترین جبکہ غریب غریب ترین ہوتے جا رہے ہیں جبکہ متوسط طبقہ تباہ ہو رہا ہے۔

تازہ ترین