• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میری مانو، تو مجھے اپنی منزل نہ بنانا۔ مَیں تو ایک درویش کی مانند ہوں، جس کا کوئی ٹھِکانا ہے، نہ کوئی راہ۔ مجھے اپنی سوچ بھی نہ بنانا، ورنہ تم ایک بےکراں سمندر کے نہ ختم ہونے والے گرداب میں ہمیشہ کےلیےقید ہو جاؤ گی۔ اور یاد رکھنا، تمہاری دنیا کا کوئی بھی شخص زیاں کو سُود پہ قبول کرنے کا قائل نہیں۔ 

کئی دوسرے لوگوں کی طرح تم بھی مجھےوہ رنگ سمجھ رہی ہو،جو میں کینوس پہ بکھیرتا ہوں یا وہ تصویر،جوان رنگوں کے کھیل میں بنتی ہے۔ نہیں، مجھے میری مصوّری سے مت پرکھنا۔ وہ تو رنگوں کاایک حسین کھیل ہے، جِسے دیکھتے ہی آنکھیں خوشی اور ستائش سے بھر جاتی ہیں۔ مَیں تو ایک پیچیدہ معمّا ہوں، جِسے حل کرتےکرتے میں فن کار بن چُکا ہوں، مگر اپنا بھید مجھ پہ بھی عیاں نہیں ہوا، تو تم یاکوئی اور اُسے کیاسمجھے گا۔تم اپنی دنیا کی کام یاب ترین انسان سہی، مگرجب مجھ تک پہنچوگی، تو سوائے ناکامی کے کچھ تمہارےہاتھ نہیں آئے گا۔ تمہارا ذہن سوالات کےاخطبوط (آکٹوپس) میں ہمیشہ کےلیے قید ہو جائےگا اور پھر تمہیں مجھ سے کوئی دل چسپی نہیں رہے گی۔ تم بس اپنی رہائی کے جتن کیا کرو گی۔ ‘‘

تمہارا خیرخواہ، رسیم

نایاب نےکئی مرتبہ اس خط کوپڑھا۔ خط پہ موجود آخری الفاظ پڑھتے وہ ہر بار مُسکرائی تھی، ’’جس قید سے تم مجھے باز رکھنے کی کوشش کر رہے ہو، اُس میں میری روح تمہاری مصوّری کی پہلی جھلک دیکھتے ہی گرفتار ہوچُکی ہے۔ لیکن یہی قید میرے فن کی آزادیوں کا موجب بنی ہے۔ میری سمت متعیّن کرنے کا شکریہ۔ مجھے خود سے متعارف کروانے کا شکریہ۔‘‘

کاغذ قلم لےکر اب وہ داستان کی تکمیل کرناچاہ رہی تھی، لیکن اُسے معلوم تھا، یہ داستان اُسے ابھی نہیں ملے گی۔

………٭٭………

وہ بابا محمّد علی کے سامنے تشنہ روح لیے بیٹھی تھی۔ اُس کی طلب آخر اُسے یہاں لے ہی آئی تھی۔ بلکہ لایا گیا، کہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔

’’تمہاری کوئی خواہش کوئی پریشانی نہیں؟‘‘ سوال کیا گیا۔ ’’جس حال میں رکھے خدا، اُسی حال میں خوش ہوں۔‘‘ ’’تو پھر اس قدر بےچینی کیوں؟‘‘ ’’جس کشتی کی سمت متعیّن نہ ہو، وہ ہواؤں کےسہارے ایسے ہی بھٹکتی رہتی ہے۔‘‘ ’’سمت متعیّن کیوں نہیں؟‘‘ ’’انتظار ہےـ‘‘ ’’کس بات کا؟‘‘ ’’اُس کے فیصلے کاـ‘‘ ’’کہ وہ تمہاری کشتی کو خود کوئی راہ دکھا دے؟‘‘ ’’بالکل!‘‘ ’’خدا کو دیکھا ہے کبھی؟‘‘ ’’کئی بار۔‘‘ ’’کیسا پایا؟‘‘ ’’ہر رُوپ میں سراپا محبّت۔‘‘ ’’آخری بار کب دیکھا تھا؟‘‘ ’’ایک قدرتی آفت کے دوران جب دنیا اُسے غصّے کے رُوپ میں دِکھا رہی تھی اور وہ میرے سامنے ایک مجبور ماں کے رُوپ میں کھڑا تھا، جو اپنے شریر بچّوں کی باز پُرس پہ مجبور، اُن کے پلٹنے کا انتظار کر رہی تھی۔‘‘ ’’عبادت گزار، اللہ کو اپنی عبادت کی آنکھ سےدیکھتے ہیں، تم نے ہر بار اُسے دل کی آنکھ سےدیکھا ہے۔ عبادت کی آنکھ اللہ کو ہر رُوپ میں ظاہر کرتی ہے اور دل کی آنکھ اُسے صرف محبّت کی صُورت میں دِکھاتی ہے۔‘‘ اب وہ مجمعے کی جانب پلٹے تھے۔

’’دماغ کے تاریک دشت میں برسوں بھٹکتے رہنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ان تاریکیوں کو روشنی میں بدلو۔ مَیں بھی اس بےکراں صحرا میں کنارے کی تلاش میں اندھیروں سےلڑتارہاہوں۔ سوائے وحشتوں کےکچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ اس صحرا کو روشن کرو۔ دماغ کے تاریک دشت کو روشن کرنے والی روشنی، جانتے ہو کہاں سے ملتی ہے،دل سے۔ دل نور کا منبع ہے۔ بہت بھٹکنے سے جب تنگ آجاؤ، تو دل کی سمت رجوع کرو۔ دل روشنی ہے اور روشنی سُکون ہے۔ بےقرار وحشتوں کا قرار ہے۔ بکھری روح کا رفوگر ہے۔ دل کےآستانے سے سب کو خیر ہی خیر ملتی ہے۔‘‘

………٭٭………

طبّی رپورٹ عنزہ کےہاتھ میں تھی۔ کانپتے ہاتھوں سےوہ ایک مرتبہ پھراس کا مطالعہ کر رہی تھی۔ اُسےیقین نہیں آرہا تھا، اُس کی پیاری دوست نایاب اتنے عرصے سے اپنی مہلک بیماری چُھپاتی رہی ہے۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ہر دَم ہشّاش بشّاش نظر آنے والی یہ کم عُمر لڑکی برین ٹیومر کا شکار ہے۔

’’نایاب یہ کیا ہے…؟‘‘ لرزتے ہونٹوں سے وہ بس اتنا ہی پوچھ پائی تھی۔ آنکھیں اشکوں سے بَھر چُکی تھیں۔ ’’یہ میری میڈیکل رپورٹ ہے عنزہ۔ مَیں نے ایک عرصے سے تم سے چُھپا رکھی ہے۔ تم نے ضبط سے متعلق سوال کیا تھا ناں۔ تو یہ ہے اُس ضبط کی وجہ۔‘‘ ’’تو کیا ہوا، اب تو ہرمرض کا علاج ممکن ہے۔ تم خوامخواہ پریشان ہو رہی ہو۔‘‘ 

اپنی پریشانی کو چُھپاتے ہوئے اُس نے اُسے حوصلہ دینے کی کوشش کی،حالاں کہ نایاب توپہلےہی پُرسکون تھی۔’’عنزہ!دنیامیں ہرشخص ایک مخصوص مِشن کی تکمیل کے لیے آتا ہے۔ دنیا کی زیرِ تعمیر عمارت میں ایک کردار ادا کرتا ہے۔ جب وہ کردار ختم ہو جائے تو واپس بُلا لیا جاتا ہے۔ ایسے ہی ہر تخلیق کار کو اللہ نے اپنے کسی راز کو عیاں کرنی کی ذمّےداری سونپ رکھی ہوتی ہے۔ مکمل راز تو کوئی ایک فن کار عیاں نہیں کر سکتا، البتہ جتنا اُس کا کردار ہے، وہ ادا کرتا ہے۔ جب کردار ختم تو واپسی یقینی ہوتی ہے،شاید میرا کردار بھی اتنا ہی تھا۔‘‘ نایاب نے آہ بھرتے ہوئے کہا۔ ’’کیسی باتیں کر رہی ہو۔ تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔ مجھےیقین ہےتم جلد ٹھیک ہوجاؤگی ان شااللہ۔‘‘ عنزہ نے اپنی تمام تو ہمّت مجتمع کرتے ہوئے ایک بار پھر اُسے اُمید دینے کی اپنی سی سعی کی۔

………٭٭………

وقتی طورپہ توحاکم نےخاموشی اختیارکرلی تھی، لیکن غادہ کے والد سے اُس نے وعدہ لے لیا تھا کہ وہ غادہ کی شادی اُسی سےکرے گا۔ غادہ جو پہلے ہی چُپ کے طلسم میں جکڑی ہوئی تھی، اب مزید خاموش ہوگئی تھی، البتہ اندر کا شور شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا تھا۔ اور یہ شور وہ فن پاروں کی تخلیق کی صُورت نکالتی رہتی تھی، تب ہی تو اُس کی ایک سے بڑھ کر ایک تخلیق سامنے آرہی تھی۔ ہر فن پارہ منہ مانگی قیمت میں فروخت ہو رہا تھا۔ لیکن غادہ کواس سےکوئی دل چسپی نہیں تھی۔ اُسےان لوگوں میں اپنااجنبی ہونا شدید کھٹکتا تھا۔ وہ سارا سارا دن الگ تھلگ رہ کر اپنے کام میں مصروف رہتی۔ جہاں اس کے کام کی شہرت ہو سُو پھیل چُکی تھی، وہیں اُس کےدیوانے پن کی داستانیں بھی زبانِ زدِ عام تھیں۔

گھر کے قریب ندی کنارے موجود ایک پُرانا گھنا درخت اُس کے ہر راز کا امین تھا۔ جب دیوانگی حد سے بڑھتی تو وہ دوڑ کردرخت کےنیچےجابیٹھتی اور پھر وہ سب کچھ اُس درخت سے کہہ ڈالتی، جو وہ اورکسی سےنہیں کہہ سکتی تھی۔ ہر وہ نظم جو اس کے ذہن میں مچلتی ہو، ہر وہ اَن کہی داستان، جسے زبان کی ضرورت ہو۔ اُس کی ماں کو شک تھاکہ اِس درخت پہ اُن جنّات کا بسیرا ہے، جنھوں نےاس کی بچّی کو اپنے قابو میں کر رکھا ہے۔ کیوں کہ ماں کے کئی مرتبہ منع کرنے کے باوجود بھی وہ اُسی طرف نکل پڑتی تھی ۔

………٭٭………

یوں لگ رہا تھا، وقت کی گردش ماہ و سال کی قید سے آزاد ہوچُکی ہے۔ اگرچہ روحیں زمانے کی قید سے آزاد ہوتی ہیں، پھر بھی جسم کی قید روح کے گرد حصار کیے رکھتی ہے۔ یہ حصار بہت کم زور ہوتا ہے، جو روحیں اِس حصار کی اصلیت جان لیں، وہ جسم میں رہ کر لامُتناہی منزلوں کی مسافر بن جاتی ہیں۔ زمانہ اُن کے لیے بےوقعت ہو جاتا ہے۔ یہ دو بچھڑی روحوں کے ملنے کا وقت تھا۔ ایک روح کو اِس ملاقات کے لیے موت جھیلنی پڑی تھی۔ جسم کی قید سے مکمل رہائی حاصل کرنا پڑی تھی۔ طویل انتظار دیکھنا پڑا تھا اور دوسری روح کو پہلی کی کشش یہاں کھینچ لائی تھی۔

میرے سامنے ایک طویل صحرا موجود تھا۔ شاید پالمیرا کا صحرا، جو اب شہر میں تبدیل ہو چُکاتھا۔ وہ حُسن کی دیوی ایک درخت کی اوٹ سے نمودار ہوئی تھی۔ چہرے پہ برق تبسّم اور آنکھوں میں سمندر جیسی گہرائی۔ مُسکراتی تو قوسِ قزح کے رنگ چہرے پہ بکھر جاتے۔ مُسکرانا چھوڑتی تو آنکھوں کی سنجیدگی قہر برساتی۔ مَیں فیصلہ نہ کرپایاکہ آنکھیں زیادہ حسین ہیں یا پھر مُسکراہٹ۔ رنگوں سے کھیلنے والےحُسن پرست ہوتےہیں۔ اُن کی نگاہیں تخلیق میں خالق کو ڈھونڈتی ہیں۔ یہی تلاش مجھے یہاں تک لے آئی تھی۔

’’تو آہی گئی تم آخر یہاں تک…؟؟‘‘ میرے چہرے پہ فاتحانہ مسکراہٹ موجود تھی۔ مجھے اپنا آپ بہت بیش قیمت محسوس ہوا۔ مَیں خود کو ہواؤں میں اُڑتا ہوا محسوس کر رہا تھا۔ میری مُسکراہٹ اس وقت غائب ہوئی، جب اُس نے نگاہیں اُٹھا کر مجھے دیکھا تھا۔ جانے کیسی تپش تھی، اُن نگاہوں میں کہ مَیں اس آگ میں جل کرراکھ ہو چُکا تھا۔ میری زبان گنگ تھی۔ وہ جیسےآئی تھی، ویسے ہی پلٹ رہی تھی۔ مَیں اُسے آوازدینے کی پوری کوشش کر رہا تھا، لیکن آواز گلے میں پھنس چُکی تھی۔ مَیں چلّانے کی کوشش کر رہا تھا اور وہ واپس لَوٹ رہی تھی۔

یک دَم ہی میری آنکھ کُھل گئی۔ منظر تبدیل ہو چُکا تھا، لیکن مَیں پھر بھی خوش تھا کہ چلو دیدار تو ہوا۔ میری غائبانہ مریدی کا کوئی فیض تو حاصل ہوا۔ یہ میری اُس سے پہلی ملاقات تھی۔ شاید اُس کی روح کو میری روح سے ملنے کی اتنی ہی مہلت دی گئی تھی۔

………٭٭………

’’انسانی سلطنت میں دماغ کا کردار ایک جابر بادشاہ کا سا ہے، جو اپنی ہربات، ہرخواہش لاگو کر کے رہتا ہے۔ دل اس کا وفادار وزیر ہے، جو اُس کے ہر حُکم پر سرِ تسلیم خم کرتا ہے، چاہے اُسے ناگوار ہی کیوں نہ گزرے۔ لیکن رُوح… رُوح تمام رعایا کے برعکس نہ دماغ کی سلطنت تسلیم کرتی ہے، نہ دل کی حُکم رانی۔ رُوح تو باغی ہے، فطرتاً باغی۔ جسم کی قیداُس کےلیےکسی اذیّت سےکم نہیں۔ وہ زبردستی کی تمام بیڑیاں اُتار کےآزاد ہونا چاہتی ہے۔ جب دماغ اور دل زبردستی اپنےقوانین لاگو کرتے ہیں تو رُوح سمجھوتے کے بجائےسَرکشی کرتے ہوئے اپنی ایک الگ سلطنت تشکیل دےلیتی ہے۔ 

جہاں صرف اُسی کی حُکم رانی ہوتی ہے۔ اور اپنی حُکم رانی کےدوام کے لیے رُوح اپنے کان اور آنکھیں تک بنا لیتی ہے،جن کی بصارت و سماعت جسم کی آنکھوں اورکانوں سےیک سر مختلف ہوتی ہے۔ رُوح کےاپنے نظریات، اپنی سوچ ہے، جو تابع داری کی ہر زنجیر سےآزادرہتی ہے۔ دل ودماغ تو اپنی حدود سے کبھی تجاوز نہیں کرتے، لیکن رُوح کی کوئی حد، کوئی منزل نہیں۔ جسم کی قید میں رہتے ہوئے بھی وہ لامکاں تک جا پہنچتی ہے۔ 

رُوح، دل ودماغ کی طرح خواہشات کا گلا نہیں گھونٹتی بلکہ اُلٹا اُنھیں اپنا باغی پن منتقل کر کے دل و دماغ کی سلطنت میں قیامت پرباکردیتی ہےاورپھر مجبوراً سمجھوتا پسند دماغ کو ایک اور سمجھوتا کرتے ہوئے ہتھیار ڈالنے پڑتےہیں۔‘‘ بابا محمّد علی نے ایک بار پھر اپنی بات مکمل کرتے ہوئے اسراء کے چہرےکی طرف دیکھا، جہاں آج بھی اَن گنت سوالات اور کشمکش سی موجود تھی۔

’’رُوح اور دل کا کیا تعلق ہے۔ جب رُوح ہر عمل ہی پر حاوی ہو جائے، تو دل کا کیا کردار رہ جاتا ہے؟‘‘ ’’دیکھو بچّے! دل اور روح کی راہ ایک ہی ہے۔ بس دل ذرا انتہاپسند ہے۔ وہ سوچنے سمجھنے کی ہر صلاحیت مفقود کردیتا ہے۔ وہ دماغ کو اپنے معاملات میں بالکل دخل انداز نہیں ہونے دیتا۔ دل جس چیز کو ایک مرتبہ درست سمجھ لے، پھردماغ چاہے ہزار مشورے دے، وہ تسلیم نہیں۔ ہاں رُوح کا معاملہ جُدا ہے، وہ میانہ رو ہے، مگرسب کی سُن کے،کرتی اپنی ہی ہے۔ کیوں کہ اُس کی سلطنت میں جہاں سب کو آزادی ہے، وہیں اُس کی اپنی آنکھیں، کان اُسے سب کچھ بالکل واضح دکھاتے ہیں۔ دل اور دماغ تو بس اپنی محدود روشنیوں ہی میں کچھ دیکھ پاتےہیں، لیکن رُوح کی نظر میں بہت وسعت ہے۔ یوں سمجھو، جس راہ پہ دل و دماغ کا اتفاق ہوجائے، وہی راہ رُوح کی راہ کہلاتی ہے‘‘

………٭٭………

جسمانی تکلیف تو نایاب جیسے تیسے برداشت کر ہی رہی تھی، لیکن یہ اذیّت جو آہستہ آہستہ اس کی رُوح کو گھائل کر رہی تھی، وہ کبھی کبھار ناقابل برداشت ہو جاتی۔ لیکن صبر، برداشت، ضبط کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ تکلیف اگر صرف جسمانی ہو یا صرف روحانی، تو پھر بھی قابل برداشت ہوتی ہے، لیکن بیک وقت دونوں تکالیف تو انسان کو جیسے ایک چلتی پِھرتی لاش میں بدل کر رکھ دیتی ہیں۔ 

اکثر شدید ضبط بھی انسان کو دیوانگی کی راہ پہ ڈال دیتا ہے، لیکن انسان چاہے تو اِسی ضبط کی بدولت اپنے پَر، اوجِ افلاک تک پھیلاسکتاہے۔ یہی ضبط انسان پہ قدرت کی خُوش نودی کی صُورت برس کر اُسے نفسِ مطمئنہ عطا کرتا ہے۔ چاہے درد، رُوح کی نس نس میں پیوست ہو کر اُسےچیخنےچلّانےہی پہ کیوں نہ مجبورکردے لیکن یہ چیختی چلّاتی رُوح بھی اِس خُوش نودی کے سبب اپنی سرحد سے باہرنکل کر نئے جہاں دریافت کر لاتی ہے۔

آج جب نایاب نے دماغ کو درد کا نوالہ بنتے دیکھا تو فوراً کاغذ، قلم لے کر ایک عظیم رازفاش کرنے کی سعی کرنے لگی۔ اُسے معلوم تھا، وقت اُس کے ہاتھوں سے سرکنے لگا ہے۔ اُس کی کہانی دھیرے دھیرے اختتام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ سو، رازوں سمیت دفن ہونے سے تو بہتر ہےکہ کسی ایک کو اپنا رازداں بنا لیا جائے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین