• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ناموس رسالتﷺ کا شہید غازی علم دین

تحریر:سید علی جیلانی۔۔۔سوئٹزر لینڈ
رسول اکرمﷺ کی عزت و حرمت کی حفاظت کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے،غازی علم دین شہید نے ناموس رسالتﷺ پر اپنی جان قربان کرکے خود کو ہمیشہ کے لیے امرکردیا ،غازی علم دین شہید ہماری اسلامی تاریخ کا ایک ایسا سنہری نام ہے جو آج بھی مسلمانوں کے دلوں میں جوش پیدا کر دیتا ہے آپ ایک سچے عاشقِ رسولﷺ تھے اور آپ نے اپنی زندگی حضور اکرمﷺ کی عزت اور وقار پر قربان کر دی، تحفظِ ناموس رسالت ﷺ کی خاطر آپ نے اپنی جان نچھاور کرکے جس سچی محبت کا ثبوت دیا اُس پر آج بھی ملتِ اسلامیہ کو فخر ہے غازی علم دین شہید4 دسمبر1908ء کو لاہور میں پیدا ہوئے، آپ کے والد کا اسمِ گرامی میاں طالع مند تھا جو لکڑی کا کام کرتے تھے، اس زمانے میں ہندو مسلمانوں کے مذہب کے خلاف جھوٹی من گھڑت بے بنیاد اور غلط باتیں پھیلاتے تھے، راج پال نامی ایک ہندو شخص نے نبی اکرم ﷺ کی شان کے خلاف ایک کتاب فرضی نام سے لکھی اور شائع کی جس پر ہندوستان کے مسلمانوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی، مسلمانوں نے راج پال سے اس متنازع شر انگیز کتاب کو تلف کرنے کا مطالبہ کیا لیکن راج پال نے مسلمانوں کی بات ماننے سے صاف انکار کر دیا، عدالت نے بھی مسلمانوں کا ساتھ نہ دیا، مسلمانوں کو اس بات کا بہت دُکھ، رنج اور صدمہ تھا، آخر کار مسلمانوں نے راج پال سے خود ہی بدلہ لینے کا فیصلہ کیا، راج پال پر پہلا حملہ’’ غازی عبدالعزیز‘‘ نے کیا جو کوہاٹ سے آیا تھا، دوسرا حملہ لاہور کے شِیر فروش’’ خدابخش‘‘ نے کیا مگر یہ ملعون اور گستاخِ رسولﷺ دونوں حملوں سے بچ گیا، علم دین اپنے ایک قریبی دوست رشید کے ساتھ لاہور کی تاریخی مسجد وزیر خان کے سامنے احتجاج میں شامل تھا جو ہندو راج پال کے خلاف نعرے لگارہا تھا جذبات کا ایک سمندر اس ہجوم کے نعروں کی گونج میں امڈ رہا تھا، امام مسجد نے انتہائی درد بھری آواز میں کہا ”مسلمانوں شیطان راج پال نے اپنی کتاب میں ہمارے حضور اکرمﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کی ہے اور عدالتوں نے اسے رہا کردیا ہے جس سے اسلام دشمنوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے” امام مسجد کے یہ الفاظ غازی علم دین کے دل میں اتر گئے اور اس نے اسی وقت فیصلہ کیا کہ وہ گستاخ رسول کو واصل جہنم کرکے ہی دم لے گا، اس نے اپنی اس خواہش کا اظہار اپنے دوست رشید سے کیا وہ بھی گستاخ راج پال کو مزا چکھانا چاہتا تھا، دونوں نے اس مسئلے پر تین بار قرعہ اندازی کی اور تینوں بار علم دین کا نام آیا آخرکار رشید علم دین کے حق میں دستبردار ہوگیا اللہ پاک نے یہ سعادت شاید علم دین کے ہی نصیب میں لکھ رکھی تھی ،6 اپریل 1929 بروز ہفتہ غازی علم دینؒ نے گستاخ رسولﷺ کو جہنم رسید کرنے کا فیصلہ کیا آپؒ نے انارکلی بازار سے ایک تیز دھار چھرا خریدا، راج پال کی دکان لاہور میں قطب الدین ایبک کے مزار کے نزدیک ہسپتال روڈ پر واقع تھی دکان پر پہنچ کر غازی علم دینؒ نے گستاخ رسولﷺ راج پال کو للکارا اور ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کر دیا علامہ اقبال کی درخواست پر قائداعظم محمد علی جناح نے علم دین کا مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا، قائداعظم نے ایک موقع پر علم دین سے کہا کہ وہ جرم کا اقرار نہ کرے، غازی علم دین نے کہاکہ میں یہ کیسے کہہ دوں کہ میں نے یہ قتل نہیں کیا ،مجھے اس قتل پر ندامت نہیں بلکہ فخر ہے، عدالت نے علم دین کو سزائے موت سنادی، ”31 اکتوبر 1929ء غازی علم دین شہید کی سزائے موت پر عملدرآمد کا دن تھا 31 اکتوبر 1929ء کو جب غازی علم الدین شہید کو پھانسی ہونا تھی اس سے ایک روز پہلے عبداللہ حسب معمول غازیؒ کی کوٹھڑی پر پہرہ دے رہا تھا پیدل چلتے ہوئے وہ کوٹھری سے ذرا فاصلے پر عام قیدیوں کی بیرک کی طرف آ گیا مڑ کر کیا دیکھتا ہے کہ غازی کا کمرہ خوبصورت اور دلکش روشنیوں سے بھر گیا ہے عبداللہ یہ سمجھا کہ شاید غازی علم الدین شہیدؒ نے اپنے کمرے کو آگ لگا لی ہے اتنے میں کیا دیکھتا ہے کہ نور کا ایک بادل ہے جو تیزی سے آسمانوں کی طرف چلا گیا چنانچہ یہ سپاہی بھاگم بھاگ غازیؒ کی کوٹھری کی طرف بھاگا اندر گیا تو کیا دیکھتا ہے کہ پورا کمرہ بہترین اور مسحور کن خوشبوئوں سے معطر اور منور تھا غازیؒ حالت سجدہ میں زار و قطار رو رہے تھے تھوڑی دیر بعد اٹھے تو اس نے ان کی قدم بوسی کی اور خود بھی بے اختیار رونا شروع کر دیا پھر اس نے عرض کیا غازی علم یہ کیا ماجرا تھا، غازی صاحب نے کوئی جواب نہ دیا اس نے پھر عرض کیا کہ آپ یہ اہم راز اپنے سینے میں لے کر نہ جائیں اور اس واقعہ کی تفصیلات ضرور بتائیں بہرحال غازیؒ نے اس کے بے حد اصرار پر فرمایا عبداللہ! تمھیں معلوم ہے کہ مجھے کل پھانسی ہو رہی ہے میری دلجوئی اور حوصلہ افزائی کے لیے شافع محشر حضور خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیﷺ اپنے خاص صحابۂ کرامؓ کے ساتھ یہاں خود تشریف لائے اور بڑی محبت اور شفقت فرمائی، اس موقع پر حضرت علیؓ نے مجھ سے پوچھا کہ تمھیں پھانسی کا خوف تو نہیں ہے، میں نے عرض کیا حضور، بالکل نہیں فرمایا بیٹا اگر کوئی خوف ہے تو آئو ہمارے ساتھ چلو میں نے پھر عرض کیا حضور، نہیں ایسی کوئی بات نہیں، میں تو بہت خوش اور مطمئن ہوں پھر پیارے آقا و مولا حضور نبی کریمﷺ نے میرے سر پر اپنا دست مبارک رکھ کر فرمایا، پھانسی کے وقت جیل حکام تم سے تمہاری آخری خواہش پوچھیں گے تم کہنا کہ میرے ہاتھ کھول دیں میں پھانسی کا پھندا چوم کر خود اپنے گلے میں ڈالنا چاہتا ہوں تاکہ دنیا کو معلوم ہو جائے کہ مسلمان اپنے پیارے نبیﷺ کی عزت و ناموس کے تحفظ کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا سب سے بڑی سعادت سمجھتا ہے، دوسرا یہ کہ تم روزہ رکھ کر آنا میں تمام صحابۂ کرامؓ اور فرشتوں کے ہمراہ حوض کوثر پر تیرا استقبال کروں گا اور ہم سب روزہ اکٹھے افطار کریں گے۔‘‘ سزائے موت سے قبل علم دین سے آخری خواہش پوچھی گئی تو انہوں نے کہا کہ مجھے صرف دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے، غازی علم دین کو جب پھانسی گھاٹ پر لایا گیا اور جب پھندا ان کی گردن میں ڈالا گیا تو اس نے وہاں موجود لوگوں سے کہا ”اے لوگو! گواہ رہنا میں نے راج پال کو نبی کریمﷺ کی شان میں گستاخی کرنے پر جہنم واصل کیا ہے، آج میں آپ سب کے سامنے کلمہ طیبہ کا ورد کرکے حرمت رسول ﷺپر اپنی جان نچھاور کررہا ہوں۔”غازی علم دین نے اپنے رشتہ داروں کو جو وصیت فرمائی وہ قابل غور ہے۔ میرے تختہ دار پر چڑھ جانے سے وہ بخشے نہیں جائیں گے، بلکہ ہر ایک اپنے اعمال کے مطابق جزا اور سزا کا حق دار ہوگا اور انہیں تاکید کی کہ وہ نماز نہ چھوڑیں اور زکوٰۃ برابر ادا کریں اور شرعِ محمدیﷺ پر قائم رہیں علم دین شہید کے والد طالع مند نے علامہ اقبال سے نماز جنازہ پڑھانے کی درخواست کی جس پر علامہ اقبال نے کہا کہ وہ بہت گناہ گار انسان ہیں، اس لئے اتنے بڑے شہید کی نماز جنازہ وہ نہیں پڑھاسکتے۔نماز جنازہ قاری شمس الدین خطیب مسجد وزیر خان نے پڑھائی۔”غازی علم دین شہید کی نماز جنازہ لاہور کی تاریخ کی سب سے بڑی نماز جنازہ تھی جس میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی تھی۔ ہر ایک کی خواہش تھی کہ سچے عاشق رسول غازی علم دین شہیدکے جنازے کو کندھا دے پائےلاہور میں میانی صاحب قبرستان میں آپ کی آخری آرام گاہ موجود ہے غازی علم دین شہید نے ناموس رسالت پراپنی جان کو قربان کرکے رہتی دنیا تک ایک لازوال مثال قائم کردی شہید کا کردار اسلام اور حق و سچ کی سربلندی کے لئے مسلمانوں کے لئے تا قیامت مشعل راہ رہے اللہ ہم سب کو غازی علم دین شہیدؒ جیسا عاشقِ رسولﷺ بننے کی توفیق دے آمین۔
تازہ ترین