اٹھارہ سالہ طالبہ، سارہ نے اپنی سانس کی ڈوری خود کاٹ دی۔ یہ اُس دن کی بات ہے جب اس کی عمر کے بچے پاکستان ، بھارت کاکرکٹ میچ دیکھنے میں مصروف تھے. اس نے کالج ہوسٹل کی چھت سے چھلانگ لگا کر زندگی ختم کر لی، اُسے ایسا کرنے پر مجبور کرنے والے گرفتار نہیں ہوسکے اور ہو بھی نہیں سکتے کیوں کہ اس کے قاتل ہم سب ہیں۔ والدین جو اچھا نتیجہ نہ ہونے پر بچوں کی سب کے سامنے بے عزتی کر دیتے ہیں۔
اساتذہ، جو بچوں کو نکما قرار دے دیتے ہیں یا ہمارا نظام تعلیم ،جس میں بچوں پر بے تحاشا ذہنی دباؤ ہوتا ہے۔ گذشتہ دنوں جس طرح ایک طالبہ نےخود کشی کی اُس نے تو سب کو دہلا دیا۔ وہ ٹیسٹ میں زیادہ ذہنی دباؤ کی وجہ سے سے کلاس میں بے ہوش ہو گئی تھی ،جسے ہوش میں آنے کے بعد کلاس ٹیچر نے ڈرامہ قرار دیتے ہوئے ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ کے پاس بھیج دیا، جنہوں نے اس سے کہا کہ ، اپنےمسائل حل کر کے کالج آیا کیجیے۔ آپ کی رپورٹ دیکھ کر تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ بہتر ہوگا خود کشی کر لیں، تاکہ دنیا میں ایک نالائق کی کمی ہو جائے۔
والدین پہلے ہی اس سےناراض تھے کہ وہ پندرہ سولہ لاکھ روپےسالانہ فیس دے کر پڑھا رہے ہیں اور ٹیچرز اس کے ذہنی دباؤ کو ڈرامہ کہہ رہے ہیں۔ دن بھر سوچنے کے بعد اسے موت ہی واحد حل نظر آیا ہو، پھر اُس نے ہاسٹل کی چھت سے چھلانگ لگا کر زندگی ختم کر لی۔
سوچیے کس کرب سے گزر کر اس نے یہ فیصلہ کیا ہو گا۔ہم تو آخری سانس تک لڑتے ہیں زندگی کے لئے، اس نے اپنی زندگی کا خاتمہ کیسے کیا ہو گا۔ ہم دوسروں کو اپنے الفاظ سے کتنی اذیت ، تکلیف دیتے ہیں کہ اُن کی زندگی سے محبت ہی ختم ہوجاتی ہے۔ سارہ کی خود کشی کا پہلا واقعہ نہیں ہے، ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔
چند سال پہلے فرسٹ ائیر کے طالب علم کا مرکز امتحان میں پیپر شروع ہونے سے چند منٹ پہلے ہارٹ اٹیک ہوگیا تھا اور وہ امتحانی کرسی پر بیٹھے بیٹھے زندگی کی بازی ہار گیاتھا۔ طلباء خصوصاََ میڈیکل کے طالب علموں کو بہت زیادہ ذہنی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ایسے میں ان کے اردگرد کے لوگوں کو ان کاحوصلہ بڑھاناچاہیےنہ کہ حوصلہ شکنی ۔مجھے آج بھی یاد ہے میرے بیٹے کا ایڈمیشن دیر سے ہوا۔ جنوری سے کلاسز شروع تھیں لیکن اس کالسٹ میں نام مارچ میں آیا۔
کالج کے پہلے ہفتے میں اس کی دادو فوت ہو گئیں، پھر چھٹیاں، مینٹل سٹریس اور پڑھائی ۔ہر روز فون پر کہتا ماما، ایک اور ذلت بھرا دن ختم ہوا۔میم کلاس میں آتے ہی ہم نئےا سٹوڈنٹ کو کھڑا کر دیتی ہیں کبھی کلاس کے باہراور کبھی ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کے سامنے پیشی ہوتی ہے،اُسےکچھ مہینے لگے تھے سیٹ ہونے میں۔ گھنٹوں میں اسے فون پر اس کی باتیں سنتی ، اسے سمجھاتی ،خیر مشکل وقت گزر گیا۔
دنیا بھر میں جو نصاب چھ سے سات سال میں پڑھایا جاتا ہے، ہمارے ہاں چار سے پانچ سال میں پڑھاتے ہیں۔ اساتذہ بجائے طلباء سے تعاون کرنےکے ان کی حوصلہ شکنی اور بے عزتی کرتے ہیں، لگتا ہے کہ کہیں نہ کہیں اساتذہ کے ساتھ والدین کی بھی غلطی ہے۔ وہ بچوں سے اچھے رزلٹ کی توقع کرتے ہیں ، جب ایسا نہیں ہوتا تو وہ بچوں کو برا بھلا کہتے ہیں۔ یہ کہنا غکط نہ ہو گا کہ ہم سب مل جل کر اپنے بچوں کا اپنا مستقبل تباہ کر رہے ہیں۔
آخر کب تک ایسا کرتے رہیں گے۔خدارا اپنے بچوں کو انسان سمجھیے وہ ریس کے گھوڑے نہیں، کبھی پاس ہوں گے تو کبھی فیل بھی ہو سکتے ہیں اور یہ زندگی کا حصہ ہے۔ صرف زیادہ نمبر ہی زندگی نہیں۔ نہ معاشرہ تبدیل ہوگا نہ ہی نظام تعلیم۔ ہم والدین کو ہی تبدیل ہونا ہے۔ اپنی زندگی کا اثاثہ تباہ ہونے سے بچانے کے لئے ہمیں اولاد کو بتانا ہوگا کہ وہ ہمیں نمبروں اور کئرئیر سے زیادہ عزیز ہیں۔ کامیابیوں ناکامیوں کے باوجود پیارے ہیں۔ہماری زندگی ان ہی کے دم سے ہے اور ہمیں ان سے پیار ہے۔