اکیسویں صدی میں اگر آپ کو ترقی یافتہ اور جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ اپنی معیشت کو مضبوط اور توانا رکھنا ہے تو بقو ل ماہرین، مفکرین، ناقدین اور دیگر علوم سے تعلق رکھنے و الے افراد کے،کسی بھی ملک کی معیشت کو جدید خطوط پر آراستہ کرنے کے لیےسب سے پہلے معیشت پر توجہ دیں کیونکہ ہر ملک کی معیشت ہی بنیادی ستون ہوتی ہے، جس پر قوم کی ترقی کا دارومدار ہوتا ہے۔ترقی یافتہ ممالک کی صف میں ہم تب ہی شامل ہوسکتے ہیں جب ہماری معیشت مضبوط ہو۔
اگرچہ وطن عزیز میں وسائل کی کسی طور کمی نہیں۔ یہاں کی زمینیں سونا اُگلتی ہیں۔ معدنیات کے بے پناہ خزینے چھپے ہوئے ہیں، دُنیا کا بہترین نہری نظام یہاں موجود ہےاور سب سے اہم بات ہمارے پاس نوجوانوں کی شکل میں سرمایہ موجود ہے جو دنیا کے کسی بھی ملک کے پاس اتنی تعداد میں نہیں ہے جتنا پاکستان میں۔ کسی بھی ملک کی ترقی میں اس ملک کے نوجوانوں کا کردار کلیدی ہوتا ہے۔
اس وقت دنیا کے مغربی اور مشرقی بلاک میں جو بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں ان کے پیچھے مستحکم معیشت کا بہت زیادہ دخل ہے، لہٰذا ہمیں ان پہلوئوں کو سامنے رکھنا ہو گا ، جس کی وجہ سے وہاں معیشت میں ترقی کی رفتار مسلسل بڑھ رہی ہے۔ دور جدید میں نسل نو کودنیا کے ساتھ چلتے ہوئے اپنے ملک کے ان بنیادی شعبوں پرخاص توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے، جس سے معیشت کا پہیہ تیزی سے چلے۔ بہترین منصوبہ بندی کے ساتھ افرادی قوت کے درست اور بروقت استعمال کے ساتھ ہمارا ملک بھی تیز ترین معاشی و سماجی ترقی کی مزید نئی جہتوں پر گام زن ہو سکتا ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اوراس کی معیشت کا بڑا حصہ زرعی پیداوار سے منسلک ہے لہٰذا حکومت پاکستان کی پہلی ترجیح زراعت کے شعبے میں استحکام پیدا کرنے کی ہونی چاہیے ، اس کے لیےصوبائی اور قومی سطح پر ایسی پالیسیاں مرتب کی جائیں، جس سے زراعت کے شعبے سے وابستہ نوجوانوں کو آگے لایا جاسکے۔ مختلف زرعی کالج اور یونیورسٹیوں میں طالب علموں کو اسکالر شپ کے ساتھ بہتر تعلیمی مواقع فراہم کئے جائیں۔
دیہی علاقوں کے نوجوان حکومت کے فراہم کردہ قرضوں اور دیگر اسکیموں سے استفادہ اٹھا کر پاکستانی معیشت میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں، تاکہ حکومت کے تعاون سے جدید مشینری اور دیگر زرعی آلات کی مدد سے زرعی اجناس کی پیداوار میں ملکی ضروریات کے بعد برآمدات کے لئے بھی وہ اشیاء فراہم ہوسکیں جن کی غیر ممالک میں مانگ ہے۔ نوجوان اس معیشت کی ترقی میں اپنا کردار بھرپور انداز سے سرانجام دےسکتے ہیں اور زرمبادلہ میں اضافے کے راستے کھولے جا سکتے ہیں۔
پاکستانی نوجوان اب با شعور ہیں وہ ان شعبہ جات کی تعلیم کو ترجیح دے رہے ہیں جو ہماری معیشت کے لئے سودمند ثابت ہو سکتی ہے۔صنعت کو ترقی دینے کے لیے ضروری ہے انجینئرنگ میں نت نئی شاخیں متعارف کرائی جائیں جو ترقی یافتہ ممالک کی یونیورسٹیوں میں دی جاتی ہیں ۔ نوجوانوں کو مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ اپنا عملی کردار بھر پور طریقے سے ادا کرتے ہوئے صنعت کے شعبے میں جدّت لا سکیں جو پاکستانی معیشت کو اوپر لے جانے میں مددگار ثابت ہو۔
اسی طرح بزنس سے متعلق ای کامرس، جدید اکنامکس اور شماریات کی تعلیم میں اسناد حاصل کرنے کے بعد نوجوان پاکستانی فنانس کےشعبے اور دیگر قومی اکنامسٹ شعبہ جات سے منسلک ہورہے ہیں۔ پاکستان کا بینکنگ نظام بھی اب جدید خطوط پر آراستہ ہوچکا ہے اورجدید ٹیکنالوجی سےمنسلک ہونے کے بعد پاکستانی معیشت کا رابطہ بین الاقوامی معیشت کے ساتھ اب براہ راست ہوچکا ہے، لہذا پاکستان میں معاشی اور اقتصادی پالیسیاں ایسی مرتب کی جانی چاہیےکہ زیادہ سے زیادہ نوجوان تمام ایسے اداروں میں اپنی خدمات میں مصروف عمل نظر آئیں۔
پاکستانی نوجوان تقریباً ہر فیلڈ میں اپنی ذمینی صلاحیتوں اور اپنے ہنر سےدنیا بھر میں پہچان بناچکے ہیں۔ اکیسویں صدی میں سائنس، کمپیوٹر انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونی کیشن جیسے شعبہ جات کے ذریعہ معیشت کو مزید وسعت دی جاسکتی ہے۔ نوجوان جو کمپیوٹر سائنس میں مختلف اہم شعبہ جات جن میں انفارمیشن ٹیکنالوجی، سافٹ ویئر انجینئرنگ، فیکلٹی آف کمپیوٹنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کیمیکل انجینئرنگ، الیکٹریکل انجینئرنگ، مکینکل انجینئرنگ، فیکلٹی آف مینجنگ سائنس سے پاکستانی معیشت کی ترقی میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں لیکن ان کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے، اس کے لیے نظام تعلیم میں تبدیلی لائی جائے تاکہ کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی فکری سوچ کی صلاحیت کو بڑھایا جا سکے۔
تعلیمی اصلاحات سے توازن ادائیگی کے مسئلے کو طویل مدت کےلئے حل کیا جا سکتا ہے اور یہ برآمداتی پالیسی کےلئے اہم راستہ ہے۔ علم و تحقیق ہر شعبہ ہائے زندگی کےلئے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ تحقیق میں اوسط درجے کی صلاحیت سے ایسا ممکن نہیں، اسی لئے برآمدات کے فروغ اور اضافے کےلئے ایسے اسکول بنانے کی ضرورت ہے، اور ایسی یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں لایا جائے جو عالمی معیار کی تحقیق کی صلاحیت رکھتی ہوں۔
پٹرولیم انجینئرنگ جس میں کافی پاکستانی نوجوان دلچسپی لے رہے ہیں اور ملکی اور غیر ملکی سطح سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان اداروں میں اپنی خدمات بھی انجام دے رہے ہیں ،یہ وہ واحد فیلڈ ہے جس میں نوجوان ملک میں موجود جہاں جہاں بھی ان کی جدید مشینری نشاندہی کرتی ہے۔ پہاڑ ہوں یا صحرا، سمندر ہوں یا سنگلاخ چٹانیں ملکی معدنیات کی تلاش میں سرگرداں ر ہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ کئی جگہوں پر ان کو معدنی ذخائر کا علم ہوا ہے اور اس پر کام جاری ہے۔ اس میں بہت زیادہ وسائل فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ نوجوان اس فیلڈ کی طرف آسکیں۔
اسکول آف آرٹ ڈیزائن اینڈ آرکیٹکچرز یہ شعبہ بھی ہماری معیشت کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتاہے ، اس کی کئی شاخیں ہیں۔ نوجوا ن اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ اس میں انٹرشپ بھی کررہے ہیں لیکن ضروری ہے کہ معیشت کی ترقی کو تیز کرنے میں اس شعبےسے بھی استفادہ حاصل کیا جائے۔
اس وقت ٹیکسٹائل جیسی صنعتوں کی بجائے سوفٹ ویئر، الیکٹرانکس، قابل تجدید توانائی جیسے شعبوں کو سبسڈی دیئے جانے کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت ٹیکنالوجی کے شعبے میں سبسڈی فراہم نہیں کر سکتی تو کم از کم نوجوان ٹیلنٹ اور فریش گریجوایٹس کو سبسڈائز تاخیری ادائیگی پر قرضوں کی فراہمی کر ے، تاکہ وہ اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنا سکیں۔
چھوٹی صنعتوں کو سبسڈی فراہم کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ کم از کم پاکستان میں اپنے چھوٹے حجم اور انتظامی ڈھانچے کی وجہ سے یہ صنعتیں بڑی صنعتوں کی نسبت زیادہ جدت کی حامل ہوتی ہیں۔ اس میں نوجوانوں کو آگے لانے کے لیے آسان اقساط پر قرضے فراہم کیے جائیں صرف کاغذ پر در ج کر دینے سے ترقی نہیں ہوسکتی اس کے لیے عملی اقدامات کی بھی ازحد ضرورت ہے ، تاکہ تعلیم کے ساتھ ہنرمند نوجوان بھی ملکی معیشت میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
پاکستانی معیشت میں اب اہم کردار آج کا نوجوان اور آنے والی نسلوں کا ہے لہٰذا ہمیں ابھی سے ایسے مربوط اور جامع معاشی پروگرام مرتب کرنے کی ضرورت ہے جو معیشت کےلئے فائدہ مند ثابت ہوسکیں اور ہر شعبہ میں نوجوان نسل کو وہ تمام بنیادی سہولیات فراہم کرنی کی جائیں اور وہ مراعات بھی دی جائیں جس کے وہ مستحق ہیں۔نوجوان بھی ملکی معیشت کوپروان چڑھانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں کہ یہ وقت کا تقاضا ہے۔