• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تمام تر حکومتی دعوئوں اور وعدوں کے باوجود ملک میں مقامی چینی کی قیمتیں کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھتے ہوئے ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہیں۔ تین سال قبل جو چینی 38روپے فی کلو بہ آسانی دستیاب تھی، بیشتر شہروں میں جمعے اور ہفتے کو مارکیٹ سے غائب یا ڈیڑھ سو روپے سے 160فی کلو گرام تک فروخت ہوتی رہی جس سے شہری ایک نئی پریشانی سے دوچارہیں۔حکام کا دعویٰ ہے کہ حکومت کے پاس 22دن کا اسٹاک موجود ہے اور یہ مسئلہ جلد حل ہوجائے گا ۔ حکومت کا یہ دعویٰ اپنی جگہ لیکن عملی صورتحال یہ ہے کہ منافع خوروں نے اس سے کئی گنا زیادہ اسٹاک ذخیرہ کر رکھا ہے جو آئندہ سیزن کے تناظر میں کاشتکاروں اور شوگر مل مالکان کی طرف سے چینی کی نئی (اضافہ شدہ) قیمتوں کے تعین کے انتظار میں ہیں۔ ذرائع کے مطابق چینی مافیا گذشتہ برس سے اب تک حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے265ارب روپے ناجائز منافع کما چکا ہے اورکرشنگ سیزن شروع ہونے تک اس میں مزید اضافہ ہو گا۔ دوسری طرف مختلف شہروں میں ذخیرہ اندوزوں کے خلاف حکومتی کریک ڈائون جاری ہے تاہم متعدد گودام سیل کر دینے کے باعث مارکیٹ میں مطلوبہ مقدار سے بہت کم چینی دستیاب ہے ، صارفین اسے اوسطاً 150روپے فی کلو گرام خریدنے پر مجبور ہیں۔ ایک افراتفری کا عالم ہے اور غریب عوام اب چینی جیسی ہر گھر کی روز کی ضرورت سے بھی محروم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ مل مالکان کے مطابق ان کے پاس محض چار دن کا اسٹاک موجود ہے لیکن اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ منافع خور کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے۔ اس کھیل میں بعض سرکاری اہل کار بھی ملوث ہیں لہٰذا حکومت کا قانون کو حرکت میں لاتے ہوئے ذمہ دار افراد کیخلاف تادیبی کارروائی کرنا ناگزیر ہو گیاہے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین