این اے 75 ڈسکہ کے ضمنی انتخابات میں انتظامی افسران کے خلاف تحقیقاتی رپورٹس الیکشن کمیشن نے جاری کردیں، رپورٹس کی روشنی میں ذمہ دار قرار دیے گئے افسران و ملازمین کے خلاف کاررروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ذمہ دار قرار دیے گئے افسران کے خلاف محکمانہ یا فوجداری کارروائی کی جائے گی، ذمہ دار افسران کے خلاف محکمانہ اور فوجداری دونوں کارروائیوں کا بھی آغاز ہوگا، الیکشن کمیشن کا آئندہ اجلاس 7 روز بعد پھر ہوگا، آر او اور ڈی آر او کو او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی زیر صدارت الیکشن کمیشن کا اجلاس ہوا۔ الیکشن کمیشن اعلامیہ کے مطابق ڈسکہ کے ضمنی انتخاب سے متعلق دو انکوائری کمیٹوں کی رپورٹ جاری کردی گئیں۔ دونوں انکوائری کمیٹوں کی رپورٹس الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر ڈال دی ہیں۔ دونوں انکوائریوں میں ذمہ دار قرار دیے گئے افسران و ملازمین کے خلاف کاررروائی کا فیصلہ کیا گیا۔
ترجمان کے مطابق ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر (DRO) اور ریٹرننگ آفیسر(RO) کی انتظامی کوتاہی کو سامنے رکھتے ہوئے دونوں آفیسروں کو الیکشن کمیشن رپورٹ کرواکر او ایس ڈی بنادیا گیا ہے تاکہ انکوائری رپورٹ کی روشنی میں ان کے خلاف مزید کارروائی عمل میں لائی جا سکے۔
ڈسکہ رپورٹ کی فائنڈنگز میں کہا گیا ہے کہ ڈی سی سیالکوٹ کا مشکوک مقامات پر ہونا ان کے غیر جانبدار ہونے پر سوالیہ نشان ہے۔ غیر قانونی ہدایات دے کر اے سی ڈسکہ پریزائیڈنگ افسران کو ہراساں کر رہے تھے۔
ڈی پی او اور ایس پی سیالکوٹ پولنگ کے دوران اپنے گھروں پر رہے، اس سے اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ڈی پی اور اور ایس پی کو علم تھا کہ پولنگ کے دن امن و امان کی صورت حال خراب ہو گی۔ پریزائیڈنگ افسران کے بیانات سے شراکت داروں کے درمیان پیسے کی تقسیم کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
رپورٹ کے مطابق سابق ڈی سی زیشان جاوید لاشاری نے اہم سیاسی شخصیات سے ملاقات کا اعتراف کیا، اپنے بیان میں ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے میاں اسلم اقبال نے مطالبہ کیا کہ ضمنی الیکشن میں یکساں مواقع دیئے جائیں کیوں کہ یہ مسلم لیگ ن کا مضبوط حلقہ ہے، ان کے ساتھ ڈپٹی سیکریٹری وزیر اعلیٰ آفس علی عباس بھی رابطہ کرتے تھے، پانچ چھ بار وہ سیالکوٹ آئے تو دفتر اور گھر پر ملاقاتیں کیں، حکومت نے دباؤ نہیں ڈالا، صرف حلقے کی مینجمنٹ کی خواہش ظاہر کی۔
سابق ڈی سی ذیشان جاوید نے یہ بھی کہا کہ 19 فروری کو چیف الیکشن کمشنر کا فون اس لیے نہیں اٹھایا کیوں کہ شاید تب سو رہا تھا۔
سابق ڈی پی او حسن اسد علوی نے اپنے بیان میں کہا کہ پولیس لائن سیالکوٹ میں 17 فروری کو اجلاس ہوا جس میں عثمان ڈار نے بھی شرکت کی، تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ پریزائیڈنگ افسران کو نجی گاڑیوں میں لے جایا گیا اور ان کے فون چھینے گئے، روٹ بھی بدلے گئے۔
سابق اے سی آصف حسین نے بیان میں کہا کہ ڈپٹی سیکریٹری وزیر اعلیٰ ہاؤس علی عباس ان کے کیمپ آفس آئے، رپورٹ کے مطابق اے سی نے گھر پر اجلاسوں کے انعقاد کا اعتراف بھی کیا، جس میں سیاسی شخصیات نے شرکت کی، اے سی نے کہا کہ سیاستدانوں کے ضمنی الیکشن میں ملوث ہونے کے حوالے سے کمیشن قائم کیا جانا چاہیے، کیوں کہ وہ ہی اصل فائدہ اٹھانے والے ہیں۔