• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج ہم اکیسویں صدی میں موجود ہیں جسے ترقی کی انتہائی صدی کہا جاتا ہے ۔ دنیا میں انسانی ترقی کا ہم جائزہ لیں تو آج دنیا کی آبادی 7/ارب نفوس سے تجاوز کررہی ہے جبکہ آبادی کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ انسانوں کا پہلا ارب 18ویں صدی میں مکمل ہوا جبکہ 200سال کے اندر دنیا کی آبادی میں 6/ارب کا اضافہ ہوا اس سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ انسانی بقاء گزشتہ صدیوں میں کتنی مشکل تھی ۔ آج ترقی یافتہ ممالک نئی جہتوں کو اپنے عوام کو روشناس کراتے ہوئے ٹاؤن پلاننگ، روزگار، وسائل اور آبادی میں تناسب برقرار رکھنے کیلئے ایسی منصوبہ بندی کررہے ہیں جو آئندہ کئی سو سال تک کیلئے کافی ہوں گی اس کے برعکس مملکت ِ خدادادِ پاکستان بارشوں سے نبردآزما نہیں ہوپارہی ہے ، دہشت گردی کا عفریت اس پر منڈلا رہا ہے۔ نسلی ، فرقہ وارانہ کشیدگی اپنے عروج پر ہے۔ اگر ہم پاکستان کا موازنہ دیگر ممالک اور بالخصوص قرب و جوار کے ممالک سے کریں تو انسانی ترقی تو نہ ہونے کے برابر ہے اور جس کا نتیجہ قوم آج بھگت رہی ہے ۔
توجہ طلب امر یہ ہے کہ آخر ہم ان حالات سے کیوں گزر رہے ہیں ۔ معاشرے میں عدم برداشت ، تحمل کا فقدان جابجا نظر آتا ہے جبکہ قومی اور ملی تشخص بدریج کم ہورہا ہے اس کی تمام تر ذمہ داری ، تعلیمی نظام پر عائد ہوتی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت جو اپنے عوام کو تعلیم ، صحت یہاں تک کہ پینے کا صاف پانی فراہم کرنے میں ناکام ہے۔ تعلیمی ادارے اور مدارس ایسے بطلِ جلیل پیدا کرنے میں ناکام ہورہے ہیں جو اتحاد بین المسلمین اور قومی تشخص کو برقرار رکھ سکیں۔ نصاب پر بحث جاری رہتی ہے، اختلاف کی بنیاد پر ایک دوسرے کی گردنیں کاٹی جا رہی ہیں۔ کبھی خبر آتی ہے کہ لاہور میں سیکورٹی ہائی الرٹ کردی گئی ہے اور کبھی کراچی میں لیکن انسانی جانوں کا زیاں مسلسل جاری ہے لیکن حال ہی میں یہ خبریں اس لئے تواتر کے ساتھ آرہی ہیں کہ ماضی قریب میں دو جیلوں سے300 کے لگ بھگ انتہا پسند تنظیموں کے ملزمان جیل توڑ کر رہا کرالئے گئے ہیں ، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ان افراد کو دس سے بارہ سال کی صبر آزما جدوجہد کے بعد گرفتار کیا تھا اور اس جنگ میں پولیس ، رینجرز اور افواج پاکستان کے سیکڑوں سپوت بھی جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں۔
جیل توڑ کر رہا ہونے والے افراد ملک کے امن و امان کے لئے خطرہ بن چکے ہیں جس کے پیش ِ نظر ہائی الرٹ کی وارننگ جاری کی جارہی ہیں اس پسِ منظر میں کیا ہم وسائل اور آبادی میں توازن برقرار رکھ سکیں گے ؟ کیا ہم اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرسکیں گے؟ جواب یقینا نفی میں آئے گا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان مسائل سے نکلنے کی راہ کیا ہے جو لوگ ریاستِ پاکستان کو طاقت کے ذریعے چیلنج کررہے ہیں ان کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ وزیرستان کے علاقے میں ایسے بہت سے کردار موجود رہے ہیں جو بعض مورخین کے نزدیک پیسے لیکر جنگ کیا کرتے تھے یا ذاتی مفادات کیلئے گروہ بنا کر لڑا کرتے تھے ۔ اگر ہم تاریخ کے کچھ اور پیچھے جاکر اوراق کو الٹیں تو یہ وہی خطہ ہے جہاں پر سید احمد شہید ہندوستان سے تشریف لائے اور جہاد کا درس دیا یہ جہاد گو کہ سکھوں کے خلاف تھا لیکن اس راہ نے اس خطہ کو لڑائی کیلئے ایک ڈھال فراہم کردی جہاد کی اصل روح تو شاید کہیں گم ہوگئی لیکن طبقاتی کشمکش، نظریاتی اور فروعی اختلافات کی جانب اس لڑائی کا رخ منتقل ہوگیا اور آج بھی انہی اختلافات کی بنیاد پر اس خطہ میں جنگ جاری ہے اور امریکہ اس میں ایک فریق ہے ۔ بین الاقوامی طاقتوں کا اس خطہ میں مفاد ہمیشہ سے رہا ہے اور وہ آج بھی قائم ہے اس وقت اس صورتحال سے ہماری نجات اس وقت ہی ممکن ہو سکتی ہے ہم اپنی گروہی ، نسلی اور فرقہ وارانہ سوچ سے جب ہم نکل کر ملک کے لئے سوچیں اور اس کیلئے سب سے بہترین راستہ تعلیم اور علم کا ہے اس کیلئے علمی درسگاہوں کے درمیان ربط ، نصاب میں ہم آہنگی جو تمام طبقہ ہائے فکر کیلئے قابل قبول ہو رائج کیا جائے۔ بین الاقوامی طاقتوں کی مداخلت خواہ وہ پیسوں کی شکل میں ہو یا اخلاقی حمایت کی شکل میں اس کا تدارک کیاجائے یہ ایک طویل جنگ ہے جو آج کے دانشوروں ، اسکالروں کو لڑنی ہے اس کے بغیر ہم ترقی کی راہوں پر نہیں آسکیں گے ۔ بارشوں میں معصوم بچے کرنٹ لگنے سے مرجائیں گے ، گھروں کی چھتیں گر جائیں گی ، ذرائع آمد و رفت تباہ ہوجائیں گے ، دہشت گرد کہیں بھی آکر حملہ کرتے رہیں گے اور انسانی جانیں ضائع ہوتی رہیں گی اور ہم بدستور پسماندہ یا ترقی پذیر ممالک کی صف میں رہیں گے ۔
بنگلہ دیش، سری لنکا تعلیم کے میدان میں ہم سے آگے جاچکے ہیں ، بھارت اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کو سامنے رکھتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ بندی کررہا ہے ، ممبئی جدید ٹاؤن پلاننگ کا ایک بہترین نمونہ کہا جاسکتا ہے جہاں اب سمندروں اور فضاؤں میں سڑکیں تعمیر کرنے کے منصوبے تکمیل کے قریب ہیں۔ طب کے میدان میں پاکستان سے مریض ہندوستان جارہے ہیں اور وہاں سے صحت یاب ہوکر پاکستان آرہے ہیں اور ہم اس بحث میں الجھے ہیں کہ کیا حلال ہے؟ کیا حرام ہے؟ اعضاء کی پیوند کاری ہوسکتی ہے یا نہیں؟ آخر میں اس یقین کے ساتھ کہ ہم دہشت گردی کے خاتمے ، علم کے حصول اور ارتقائی مراحل کو برق رفتاری سے طے کرنے کیلئے علم کو اپنا ہتھیار بنائیں گے اور اپنی قوم کو اس مقام تک پہنچائیں گے جس کی وہ مستحق ہے ورنہ ہم تاریخ میں ایک گم شدہ قوم کی شکل نہ اختیار کرلیں اس کی ہمیں تیاری کرنی چاہئے۔
تازہ ترین