امریکی خلائی ادارہ ناسا کی مریخ پر بھیجی گئی خلائی گاڑی روور اپنے مقصد میں کام یا ب ہوگئی ہے ۔ اس نے ایک چٹان کے نمونے حاصل کیے ہیں۔ پتھر اٹھانے کی اس کی پہلی کوشش ناکام ہو گئی تھی۔لیکن دوسری کوشش میں یہ کام یاب رہی ۔اس مشن کے چیف انجینئر ایڈم اسٹیٹنزر نے اس کام یابی کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی کام یابی قرار دیا ہے۔ابتدا میں اس سیارے کے بارے میں معلوماتی پروگرامز کو مسلسل ناکامیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن سائنسدانوں کی مسلسل کاوشوں کے نتیجے میں اب اس میں بہت مثبت پیش رفت سامنے آئی ہے۔
اس وقت تین خلائی جہاز مریخ کے مدار میں تحقیقی سلسلے میں شریک ہیں۔ اگلے دو برسوں میں ناسا مریخ کے لیے دو انتہائی اہم خلائی جہاز روانہ کرے گا۔چٹان کے نمونوں پر سائنسدان مزید تحقیق کرتے ہوئے ان میں موجود کیمیکل اور مختلف معدنی مرکبات کا جائزہ لیں گے۔ اس تحقیقی عمل میں اس کا بھی تعین کیا جائے گا کہ ان چٹانی نمونوں میں نامیاتی مواد بھی موجود ہے۔اس خلائی گاڑی پر سائنسی آلات بھی نصب ہیں اور ان کی مدد سے ہی مریخ کی چٹان کے ٹکرے حاصل کیے گئے ہیں۔
ان آلات کی مدد سے روور نے بغیر اترے چٹان میں سوراخ کر کے پتھر کے ٹکڑے نکالنے میں کامیابی حاصل کی۔ خلائی گاڑی کے روبوٹک بازو میں نصب سوراخ کرنے والے آلات ایک پینسل کی موٹائی جتنا سوراخ مریخ کی چٹان میں کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ امریکی خلائی جہاز سرخ سیارے مریخ کی سرزمین پرایک مصور کی بنائی ہوئی تصویر کے نمونے خلائی جہاز میں نصب روبوٹ میں محفوظ کرکےزمین کی جانب بھیجے ہیں ۔مریخ کے بارے میں ناسا کی تجربہ گاہ میں موجود سائنسدان اس وقت بھی بے یقینی کی گرفت میں ہیں۔
اس کی سب سے بڑی وجہ مریخ کے بالائی ماحول میں پائی جانے والی گرج چمک کی شدید صورت حال ہے۔ اس وجہ سے انہیں یقین نہیں کہ خلائی تحقیقی گاڑی سے مقاصد کی تکمیل ممکن ہو سکتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب تک موصول ہونے والی تصاویر کا معیار بہت بہتر ہے۔اس سیارے کے حوالے سے زمینی سائنس داںیہ بھی جاننے کے لیے بے قرار ہیں کہ مریخ کی سرزمین پر زندگی کے آثارموجود ہیں۔