اسلام آباد (نمائندہ جنگ) عدالت عظمیٰ نے ’’ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ‘‘ سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران نیشنل کائونٹر ٹیررازم اتھارٹی ( نیکٹا)سے ملک میں انسداد دہشت گردی کیلئے اٹھائے گئے اقدامات کی تفصیلات اور اسکے افسران کی تعداد اور انکی ذمہ داریوں کی تفصیلات طلب کرلی ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نیکٹا صرف ملک کے مالی وسائل کو چوس رہا ہے، فاضل عدالت نے دوران سماعت فورتھ شیڈول میں نام ڈالنے اور نیکٹا کے کام کرنے کے طریقہ کا ر کے بارے میں مختلف سوالات اٹھاتے ہوئے دہشت گردی سے نمٹنے کے نیکٹا کے طریقہ کار اوردہشت گردی کے انسداد کیلئے نیکٹا کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات سے متعلق رپورٹ بھی طلب کرلی ہے ۔فاضل عدالت نے بازیاب شہریوں کے بینک اکائونٹ منجمد کرنے کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ ہزارہ برادری کے بازیاب ہونے والے شہریوں کی پرامن زندگیوں میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل پر مشتمل دو رکنی بینچ نے منگل کے روز کیس کی سماعت کی تو فاضل چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ہز ارہ برادری کے مسائل حل ہو گئے ہیں؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت بتایا کہ بلوچستان حکومت کی درخواست پر لوگوں کے نام انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت فورتھ شیڈول میں ڈالے گئے تھے جن میں بازیاب ہونے والے عامر احمد سمیت دیگر افراد بھی شامل تھے۔جس پر جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے ریمارکس دیئےجس کا دل کرتا ہے اس کا نام فورتھ شیڈیول میں ڈال دیا جاتا ہے،بلاوجہ لوگوں کو تنگ کیا جاتا ہے۔
دوران سماعت بازیاب ہونے والے عامر علی کی اہلیہ نے عدالت کو بتایا کہ ہائیکورٹ نے بھی عامر احمد کا نام فورتھ شیڈول سے نکالنے کا حکم دیا تھا ۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ بظاہر ہائیکورٹ ان افراد کا مسئلہ حل کرچکی ہے ،شہریوں کی آزادی سپریم کورٹ یوں سلب نہیں کر سکتی ہے۔