• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلے ہم توپ کاپی محل(جو عثمانیوں کی اقامت گاہ رہا،فاتحِ استنبول، سلطان محمّد الفاتح بھی اس میں رہائش پذیر رہے اور اب یہ ایک میوزم میں تبدیل ہو چُکا ہے) گئے۔محل میں چلے پھرتےدنیا کی بے ثباتی پر پہلے سے زیادہ یقین ہو گیا کہ؎ مِٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے۔ شاہی باورچی خانہ دیکھا کہ جس میں منو ں کے حساب سے کھانا پکتا تھا اور اسی حساب سے بے انتہا بڑے بڑے دیگچے ، توے ،کڑاہیاں اور چمچے بھی رکھے تھے، پھر سلطانوں کے استعمال کے برتن دیکھے کہ جن کی خُوب صُورتی اور نقش نگاری دیکھنے والوں، بالخصوص صنفِ نازک کو حیرت میں مبتلا کر رہی تھی۔

اکثریت ایسے برتنوں کی تھی کہ اگر ان میں ڈالی گئی خوراک زہر آلود ہوتی، تو برتن کا رنگ بدل جاتا ۔میوزیم کا ایک حصّہ ان کی پوشاکوں کا تھا کہ وہ کیسے کیسے اطلس و کم خواب پہنا کرتے تھے۔ ایک گوشہ ہتھیاروں کے لیے مخصوص تھا ۔ ایک طرف خطّاطی کے وہ نمونے بھی دیکھے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ یہ انسان کے ہاتھوں کی لکھائی ہے۔ دوسری طرف محل میں رکھےجانے والے ڈیکوریشن پیسز نظر آئے کہ جن کی خُوب صُورتی اور نزاکت دیکھ کرمنہ سے بے اختیار ’’سبحان اللہ‘‘ نکلتا ہے۔اسی طرح ایک مخصوص حصّہ عثمانی خلفاء کے زیرِ استعمال زرو جواہر کا تھا۔ 

اُن کی ہر چیز سونے کی بنی تھی، حتیٰ کہ صوفوں، سلطان کے تخت اور خواب گاہ میں بھی، سونا اور قیمتی پتّھر ،جیسے ہیرا، زمرّد،لعل اور یاقوت لگے تھے۔ لیکن سب سے زیادہ قابلِ دید اور قیمتی تو وہ کمرا تھا، جس کے باہر لگابورڈ دیکھتے ہی لوگ سراپا عِجزو نیاز بن کر اس میں داخل ہورہے تھے اور وہ تھا، تبرّکاتِ نبویﷺ پر مشتمل کمرا۔جہاں خوش الحان قاری ہر وقت قرآنِ پاک کی تلاوت میں مصروف نظر آتے ہیں۔

یہ روایات کس حد تک صحیح ہیں، اس کا علم تو صرف اللہ ہی کو ہے، مگر محل میں انہیں جس حفاظت سے رکھا گیا ہے اور جتنی احتیاط برتی جاتی ہے ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ساری روایات غلط بھی نہیں ہیں۔ تبرّکات میں نبی کریم ﷺ کی چادر ِمبارک، جو ایک سنہرے جڑاؤ صندوقچے میں بند ہے، حضور ﷺ کی عصائے مبارک، نبی کریمﷺ کی شمشیر ِمبارک،حضور ﷺکا دندانِ مبارک،جو شہید ہوا تھا، حضورﷺ کی ریشِ مبارک کے بال، نبی کریم ﷺ کے پاؤں مبارک کا نشان اور حضور ﷺ کا علمِ مبارک، جو خلفاء جنگوں میں اپنے ساتھ رکھتے تھے، موجود تھے۔ 

رنگ و نور میں ڈوبی شامِ استنبول
رنگ و نور میں ڈوبی شامِ استنبول

نیز، خلفائے راشدینؓ کی تلواریں، حضرت خالد بن و لیدؓ کی تلوار، حجرِاسود کا ایک فریم، خانہ کعبہ کی چابی اور غلافِ کعبہ بھی اس گوشے کی زینت اور احترام میں اضافہ کرتے نظر آئے۔یہ امر توجّہ طلب ہے کہ یہاں جو عقیدت مندوں کا حال دیکھا، وہ قطعی شرک اور بِدعات سے پاک تھا،لوگ بڑے احترام سے ان چیزوں کو دیکھ کر گزرتے جارہے تھے۔ ہم بھی درود شریف پڑھتے ہوئے، اس دُعا کے ساتھ ادھر سے نکلے کہ ’’اللہ تعالیٰ! حضور ﷺ کی اُمّتی کی حیثیت سے زندہ رکھے اور حضور ﷺکےسامنے شرمندگی اور رسوائی سے اپنی پناہ میں رکھے۔آمین‘‘؎ تُوغنی ازہر دو عالم من فقیر…روزِ محشر عذر ہائے من پذیر… ورتومی بینی حسابم ناگزیر… ازنگاہ مصطفیٰ ؓ پنہاں بگیر۔

یہاں سے نکل کر استنبول کے سب سے خُوب صُورت، روحانی مقام،’’ایّوب سلطان ‘‘ پہنچے، جو کہ دِلوں کے سلطان، میزبانِ رسول ﷺ،حضرت ایوب انصاری ؓ کے مقبرے کی وجہ سے ایوب سلطان کے نام سے جانا جاتا ہے۔یہاں قریب ہی سمند ر ہے اور اسی کی وجہ سے اندر داخل ہوتے ہی سمندری رطوبت والی ہوا محسوس ہونے لگتی ہے۔ حضرت ابوایوب انصاری ؓ کو حضرت امیر معاویہ ؓ نے استنبول فتح کرنے بھیجا تھا اور جب اس لشکر نے استنبول کا محاصرہ کیا، تو حضرت ابو ایوب انصاری ؓاس دنیا ئے فانی سے رخصت ہوچُکے تھے اور رخصت ہوتے ہوئے یہ وصیت فرمائی کہ ’’میری میّت کو شہر کی فصیل کے ساتھ ہی دفن کر دینا۔‘‘

پھلوں کی دیدہ زیب دکان
پھلوں کی دیدہ زیب دکان

میزبانِ رسولﷺ نے آٹھ سو سال تک اُس لشکر کا انتظار، اسی مرقد میں کیا، جو استنبول فتح کرنے آئے گا اوراب اس کے بعد حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کا مرقد زائرین سے بھرا رہتا ہے۔ہم وہاں پہنچے تو ایک جلیل القدر صحابی کی قربت کے احساس نے دل کو عجیب و غریب سے جذبات سے سرشار کر دیا۔ حضورﷺسے اس بزرگ صحابی کی محبّت یاد آنے لگی ۔ ان کا بلند مرتبہ و مقام یاد آیا کہ نبی کریمﷺنے خودانہیں اپنا میزبان منتخب کیا۔ شاید اسی وجہ سے ان کا مرقد مبارک دیارِ غیر میں ایک امتیازی شان لیےہوئے ہر ایک کے دل کو اپنی جانب مبذول کرتا ہے۔اللہ نے میزبانِ رسولﷺکی ایسی قدردانی کی ہے کہ ان کا مزار مرجّعِ خلائق ہے۔ہم دُعا سے فارغ ہوئے، تو قریب ہی عثمانی و دیگر تُرک امرا کی عظیم الشّان قبریں دیکھیں،جن کی بناوٹ برّصغیر میں پائے جانے والی قبروں سے کافی مختلف تھی۔

یہاں سے نکل کر ایک چوکور ،بارہ دری نُماعمارت میں داخل ہوئے ۔ تُرک تحریکی ساتھی نے بتایا کہ ’’اب ہم نیچے اُتریں گے اور آپ کو وہ جگہ دکھائیں گے، جہاں سے شہر کے محاصروں کے دوران پورے شہرکو پانی سپلائی کیا جاتا تھا۔‘‘ سیڑھیوں سےنیچے کی طرف بڑھے، تو دو تین سیڑھیاں اُترتے ہی یخ بستہ ہوا کی لہروں نے استقبال کیااورپھر نیچے اُترتے اُترتے سردی کی شدّت میں اچھا خاصا اضافہ ہوگیا۔آپ اسے ایک دیوقامت پانی کے ٹینک سے بھی تشبیہہ دے سکتے ہیںکہ جس میں ایک ریستوران کھولا گیا ہےاور جس کا خواب ناک ماحول انسان پر سحر ساطاری کردیتا ہے۔ 

اندھیرے میں سُرخ یاقوتی روشنیوں اور پانی میں تیرتی سُرخ مچھلیوں کے غول انتہائی خُوب صُورت منظر پیش کر رہے تھے۔ لوگ تالاب میں سکّے پھینک کر اپنی خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے فال نکال رہے تھے ، نتیجتاً پورا تالاب ہی سکّوں سے بھرا ہوا تھا۔ وہاں کچھ دیر ٹھہرنے کے بعد سامنے بنی قدیم عمارت، آیا صوفیا کی جانب گام زن ہوئے۔ یہ ایک قدیم گِرجا گھرتھا، جسےعیسائیوں کی بازنطینی سلطنت میں بڑی ترقّی دی گئی۔مگر اسلام نے جب اس سلطنت میں اپنے قدم جمائے، تو سلطان نے اعلان کیا کہ ’’اس عظیم عمارت میں شرک اور بُت پرستی کی بجائے، خدائے وحدت کا ڈنکا بجے گا‘‘ بس، پھر یہاں تکبیر کی صدائیں گونجنے لگیں۔ یہ عمارت اپنے بنانے والوں کی عظمت و جلال کی یادگار ہے۔

اسی لیے یہاں پہنچ کر ربّ ِ رحمٰن کی عظمت اور جلال و جمال کا اِک عجیب سااحساس طاری ہو جاتا ہے ۔ یہاں موجود ایک وسیع ہال میں گِرجے اور مسجد کے ملے جُلے آثار نظر آتے ہیں۔ہم نے اپنی پوری زندگی میں یورپی سیّاحوں کو اتنا پژمردہ اور اُداس کبھی نہیں دیکھا تھا،جتنا آیاصوفیا کی زیارت کرتے دیکھا۔پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ لوگ اپنا مرکز مسلمانوں کے زیرِ تسلّط ہونے سے اُداس ہیں۔تب سوچا کہ ان لوگوں کو اندازہ بھی ہےکہ ہمارے تہذیب و تمدّن کے مراکز فلسطین، اسپین، بوسنیا، دہلی،آگرہ اور اسی قسم کے دوسرے شہروں پر غیر مسلموں کی یلغار ہمیں کس قدر ذہنی اذیّت دیتی ہے۔ 

پھر یہیں پوری پوری دیواروں پر زمانۂ قدیم کے موزیک ٹائلز سے بنی حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت مریم ؑ کی قد آدم تصویریں بھی دیکھیں، تواللہ تعالیٰ ، نبی کریم ﷺ اورخلفائے راشدینؓ کےکندہ اسمائے حسنہ بھی۔ وضو کے لیے سنگِ مرمر کے خُوب صُورت بڑے بڑے مٹکے تھے،جن کی اُونچائی اتنی تھی کہ دو آدمی ایک دوسرے کے اوپر کھڑے ہوں، تب ہی اس کے سِرے تک ہاتھ پہنچ سکتا ہے۔ صحن اور دیواریں بہت ہی خُوب صُورت پتّھروں کی دیوقامت سِلوں سے بنی تھیں۔ اس عظیم تاریخی مسجد کو مصطفیٰ کمال پاشا نے میوزیم میں تبدیل کر دیاتھا اور اب اس کے مینار نعرۂ تکبیر کی صداؤں کو ترستے نظر آتے ہیں، مگر تُرک نوجوان نسل اس عظیم مسجد کو دوبارہ اس کی تکبیریں لوٹانے کا عزم کیے ہوئے ہے۔(بعد ازاں،2021ء میں دورۂ تُرکی کےدوران 25 سال بعد اس عظیم عمارت میں سجدہ ریز ہونے کا موقع ملا)۔

گوشت مارکیٹ کا اندرونی منظر
گوشت مارکیٹ کا اندرونی منظر

آیا صوفیہ کے عین سامنے جامعۂ سلطان احمد ہے،جو اپنی نیلی خُوب صُورت ٹائلز سے مزیّن دیواروں کی وجہ سے ’’Blue Mosque ‘‘ کہلاتی ہے ۔ وہاں دروازے کے ساتھ ہی چھوٹی چھوٹی ریڑھیوں میں سرتاپا حجاب میں ملبوس ترک نوجوان لڑکیا ں استنبول کی روایتی چیزیں بیچتی نظر آئیں۔گرچہ استنبول ہمارے شہروں کے مقابلے میں انتہائی منہگا ہے، مگر ہم نے بھی تبرکاً اور یادگار کے طور پر چھوٹی چھوٹی اشیاء خریدہی لیں۔نیز، دیدہ زیب تُرک ملبوسات میں چھوٹےچھوٹے لڑکے شربت بیچتے بھی نظر آئے،جو ایک خاص انداز سے ساتھ اپنی خُوب صُورت نقرئی صراحیوں میں سے شربت،دل کش گلاسوں میں انڈیل کر پیش کرتے تھے۔ 

اندر داخل ہوئے تو نہایت دل آویز منظر دیکھا کہ چھوٹے چھوٹے گنبد ایک دوسرے کے اوپر تہہ در تہہ چڑھے مسجد کے حُسن و وقار میں مزید اضافہ کر رہے تھے۔ اس مسجد کے چھے مینار ہیں اور یہ مسجدِ حرام کے بعد سب سے زیادہ میناروں والی مسجد کہلاتی ہے۔ داخلی دروازے پر ایک بوڑھا تُرک وہاں آئی نیم برہنہ عورتوں کو اسکارف اور چادریں اوڑھاکر با حجاب رہنے کی تلقین کر رہا تھا اور داخلے کی اجازت بھی تب ہی دیتا، جب ان کے حُلیے اس قابل ہو جاتے کہ وہ مسجد کی زیارت کر سکیں۔ یہاں انتہائی خُوب صورت لحن میں امام صاحب نے نماز پڑھائی۔

مسجد کے ہال کے پچھلے حصّے میں عورتوں کے لیے مخصوص خوش نُما گوشے بنائے گئے تھے،جو نماز کے وقت پورے بھر چُکے تھے۔یہ منظر دیکھ کر بہت جی چاہا کہ اے کاش! پاکستان میں بھی ہر مسجد میں عورتوں کے نماز پڑھنے کا انتظام ہوتا کہ جب عورتیں، بازاروں،پارکس ،دفاترحتیٰ کہ سینماؤں میں بھی جا سکتی ہیں، تو صرف مساجد جانے ہی پر پابندی کیوں؟اسی لیے ہمارے یہاں کی عورت دینی و مذہبی معلومات میں بھی دیگر ممالک سے پیچھے نظر آتی ہے، کیوں کہ ایک بڑی درس گاہ، مسجد جانےسے جو محروم ہے۔نماز ختم ہونے کے بعد ایک تُرک نوجوان نے ایسی تلاوت کی کہ روح خوش ہوگئی۔پتا چلا کہ نماز کے اختتام پر یہاں تلاوت کر کے لوگو ں کی سماعتوں کو جِلابخشی جاتی ہے۔ 

جب ہم مسجد سے باہر نکلے، تو پُر نور چہرے والے امام صاحب اپنے دوستوں کے ہم راہ باہر نکل رہے تھے۔یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ اگر آج استنبول میں ایک طرف سیکولراِزم کے پرچارک نظر آرہے ہیں، تو دوسری طرف یہ پاکیزہ نسل بھی ہے، جو اِن شاء اللہ! اپنے حال کا رشتہ شان دار ماضی سے جوڑ ہی دے گی۔ یہاں سے فارغ ہوئے، تو اسلام آباد میں رہنے والے ہمارے تُرک تحریکی ساتھی اپنے گھر لے گئے،جو استنبول کے ایشیائی حصّے کے ایک مضافاتی بستی میں واقع تھا۔ 

آبنائے باسفورس کے اوپر دنیا کے سب سے اونچے پُل سے گزرتے ہوئے ایک تو ماحول کی غضب ناک خُوب صُورتی نے دل موہ لیا، تو دوسری جانب انسان پر بھی رشک آیا کہ خالقِ کائنات نے اسے اتنی عقل اورصلاحیتیں بخشی ہیں کہ اس نے سمندر کےدو حصّوں کے درمیان اتنا اونچا اور دیوقامت پُل بنادیا ہے کہ جس کا سمندر کے اندر کوئی سہارا نہیں ،بلکہ دونوں کناروں پر مضبوط بنیادیں بنا کر ایک معلّق پُل بنایا گیا ہے۔

یہی نظارے کرتے جب اپنی تُرک بہن کے گھر پہنچے، تو پتا چلا کہ وہ نماز ادا کرنے مسجد گئی ہیں۔ہم ان کے باغیچے ہی میں انتظار کرنے لگے،جو سُرخ انگورو ں کی خوش بُو سے مہک رہا تھا۔انگور کی بیل پورے گھر،چھت اور بیرونی دیواروں پر جھول رہی تھی،جب کہ دیواروں اور چھت کا اندرونی حصّہ انگوروں سے لدا ہوا تھا ۔ اتنی دیر میں ہمارے میزبان بھی پہنچ گئے۔گھر کی صفائی ستھرائی، آرایش و زیبائش دیکھ کر خاتونِ خانہ کی سلیقہ شعاری پررشک آرہا تھا۔خاتونِ خانہ نے ہماری حیرت دیکھ کر کہا،’’صفائی ستھرائی تو ہمارے ایمان کا حصّہ ہے اور تُرک قوم اس کا بڑا خیال رکھتی ہے۔‘‘

ہم نے انگوروں کی بیلیں دیکھنے کی خواہش ظاہر کی،تو انہوں نے لپک کر دو چٹائیاں اُٹھائیں اور باہر بالکونی میں لے گئیں، جہاں سے آبنائے باسفورس کا خُوب صُورت نظارہ بھی دکھائی دے رہا تھا اور ساتھ ساتھ ہم انگور بھی توڑ توڑ کر کھا رہے تھے ۔کچھ دیر اُدھر ٹھہر کر ان کے گھر کے قریب موجود ایک خُوب صُورت سیارگاہ کا نظارہ کرنے چلے گئے ۔ جہاں قسم قسم کے پھول اور پودے ایک پہاڑ پر اُگائے گئے تھے۔ واپسی پر غروبِ آفتاب کا منظر اُس عظیم الشان پُل سے دیکھا، جس سے دن میں بھی گزرے تھے۔تب وہ منظر ایسا حسین تھا کہ ہم خود بھی نہیں جانتے تھے کہ شامِ استنبول کا یہ فسوں انگیز سحر ہمیں مدّتوں یاد رہے گا۔

ابھی ہم اپنی قیام گاہ واپس پہنچے ہی تھے کہ معلوم ہوا کہ ترک کی رفاہ پارٹی نے ایک عشائیے پر بلایا ہے، جس میں کچھ اور ممالک سے آئے ہوئے مہمان بھی شریک ہیں۔ بھاگم بھاگ تیاری کی اور عشائیے کے لیےروانہ ہوگئے۔ وہ ریستوران بھی ایشیائی استنبول میں واقع ایک پہاڑی کے تاریخی مقام پر بنایا گیا تھا،جہاں یورپ کی تحریکِ اسلامی کے سربراہ کے اہلِ خانہ سے بھی ملاقات ہوئی۔ ان سے دعوت کے طریقہ کار،دعوت پھیلانے کے ذرایع پر بات بھی ہوئی اور ریستوران کی کھڑکیوں سے رات کی تاریکی میں آبنائے باسفورس میں چلتے ہوئے بحری جہاز اور گھومتے ریستورانوں کا سحر انگیز منظر بھی دیکھا۔واپسی پر بارش کی رِم جھم میں استنبول کے پہاڑیوں سے دل کش مناظر سے لُطف اندوز ہوتے ہوئے جب معلّق پُل پر پہنچے، تو منظر قابلِ دید تھا۔پُل سے آبنائے باسفورس کے دونوں کنارے اور اُن پر واقع خُوب صُورت مساجد اپنے روشن میناروں کے ساتھ روح پرور مناظر پیش کر رہی تھیں۔

اگلے دن استنبول کی قدیم تاریخی اور دنیا کی چند بڑی کوَرڈ مارکیٹس میں سے ایک مارکیٹ کی سیر کو گئے۔صاف ستھری،طریقےسلیقے سے مزیّن،خُوب صُورت چھوٹی چھوٹی دُکانوں میں ہر چیز موجود تھی،مگر منہگائی بھی اپنے عروج پر تھی۔ ہم مشکل سے اس چھتا بازار کے چند گوشے ہی دیکھ سکے کہ ایک ہی وقت میں سارا بازار گھومنا ایک مشکل کام ہے۔خاص طور پر سبزی مارکیٹ اور گوشت مارکیٹ بہت اچھی لگی کہ ہمارے ہاں تو یہ دونوں بازار بہت ہی ناگوارمنظر پیش کرتے ہیں، جب کہ وہاں سبزیاں اور پھل ایسے سجائے گئے تھے، جیسے ڈیکوریشن پیسز۔ نیز، سالم گوشت،بوٹیاں وغیرہ بھی شیشے کی الماریوں میں سلیقے سے رکھی تھیں۔ کچھ عجیب و غریب سبزیاں،پھل بھی دیکھے۔

سُرخ و سبز مرچیں انتہائی خُوب صُورتی سے سجی تھیں اور سائز میں ہمارے یہاں کی مولی،گاجر کے برابر تھیں، آڑو خوش رنگ، توآلوچے سفید رنگ کے اور موٹے موٹے تھے، خربوزے ہمارے یہاں کے تربوز کے برابر،جب کہ ٹماٹر بھی ایسے جیسے بڑے بڑے سُرخ سیب ہوں۔ بازار میں گھومتے گھومتے بھوک لگ گئی،تو ترک میزبان وہاں کے مشہور کباب کِھلانے ایک نزدیکی ریستوران لے گئیں۔ وہ ایک عام سا ریستوران تھا، مگر بے حد رش تھاکہ پہلی دو منازل پر تو ایک بھی میز خالی نہ ملی، تو تیسری منزل ہی پر جاکے بیٹھنا پڑا،جہاں آرڈر کا انتظار کرتے، کھڑکی سے آتے جاتے لوگوں کے تاثرات دیکھتے رہے۔ اُن دنوں استنبول میں انتہائی رش تھا، سیّاحوں کے غول کے غول گھومتے نظر آرہے تھے۔پھر موسم چوں کہ قدرے گرم تھا، تواکثریت مختصر ملبوسات میں نظر آئی،جنہیں دیکھ کر طبیعت خاصی مکدّر ہوئی۔ خیر،خیالات کا سلسلہ کباب کی تیز خُوش بُو کی مہک سے ٹُوٹا۔واقعی، انتہائی خوش ذائقہ کباب تھے،شان دارسلاد اور گلاسزمیں پیک مزےدار لسّی کے ساتھ کھائے۔

کچھ لوگوں سے مِلتے مِلاتے شام ہو گئی۔تُرکی کی رفاہ پارٹی نے رات کے کھانے کی دعوت آبنائے باسفورس کے کنارے ایک ریستوران میں دی تھی۔جس میں شرکت کے لیے تیار ہو کر اعلیٰ ترین سہولتوں سے مزیّن بس میں سوار ہوئے۔ کچھ دیر استنبول کی خُوب صُورت سڑکوں پر مٹر گشت کی، پھر رات کے خواب ناک ماحول میں شامِ استنبول کے دیدہ زیب نظاروں سے لُطف اندوز ہوتے ہوئےساحلِ سمندر پر لنگر انداز ایک بحری جہاز کے اندر چلے گئے، جو بوقتِ ضرورت ریستوران کا کام بھی دیتا ہے۔

کچھ دیر تو جہاز کے اندر ہی سے باہر کے مناظر دیکھتے رہے، پھر ایک ساتھی نے دعوت دی کہ عرشے پر چلیں، وہاں سے زیادہ لُطف آئے گا،توسیڑھیاں چڑھ کر اوپر گئے اور وہاں بوسنیا سے آئی ایک طالبہ اور بوسنیا کے سفیر سے بھی ملاقات ہوئی۔ ایک طرف تو خُوب صُورت نظارے آنکھوں کو خیرہ کر رہے تھے، تو دوسری جانب اُمتِ مسلمہ کے دُکھ، درد بھی سماعتوں کو بے چین کیے دے رہے تھے۔ ہم قریباً ایک گھنٹے تک ٹھنڈی ہوا کے تھپیڑوں کے مزے لیتے،آبنائے باسفورس کے دونوں کناروں پر بنی خُوب صُورت عمارتوں کے عکس سمندر کے پانی میں جھلملاتے دیکھتے رہے،ساتھ ہی بوسنیا کے المیے پر بھی گفتگو جاری رہی۔ کبھی ماحول کی دل کشی باتوں پر غالب آجاتی،تو کبھی بوسنیائی خواتین کے دَرد بَھرے الفاظ پوری فضا غم ناک کر دیتے۔

جہاز سے اُترے تو نزدیک ہی ایک ریستوران میں عشائیہ تھا۔وہاں سے فارغ ہوکر ایک مسجد میں نماز پڑھی۔استنبول میں قدم قدم پر خُوب صُورت مساجد، نمازیوں کے استقبال کو موجود ہیں۔بےشک، استنبول کو دیدہ زیب گنبدوں، مساجد کا شہر درست ہی کہا جاتا ہے۔واپسی پھر اُسی بحری جہاز سے تھی۔ اُف کیا مناظر تھے، جو آنکھوں میں نقش ہو کر رہ گئے کہ استنبول کی عمارات،جو رات کو اس انداز سے روشن ہوتی ہیں کہ سارا شہر جگمگا اُٹھتا ہے، پھر سمندر میں ان کا عکس مسحور کرکے رکھ دیتا ہے۔ استنبول جانے سے قبل،’’شامِ استنبول‘‘ کا بہت ذکر سُنا تھا۔

جب دیکھا، تولگاجیسا سُنا تھا یہ تو اُس سے بھی کچھ بڑھ کے ہے۔اگلی صبح چوں کہ روانگی تھی،تو ان مناظر کو جی بھر کے دیکھا،مگر دل یہی چاہتا رہا کہ اے کاش! کچھ اور لمحات یہاں گزار سکیں۔ ہمارا تو ہر ایک کے لیے مشورہ ہے کہ جسے بھی توفیق ملے،وہ استنبول جا کراپنے اسلاف کی عظمت وجلال کی ان داستانوں کو ایک بار ضرور پڑھے،جو وہاں کے چپّے چپّے پر نقش ہیں ؎ نکل کر صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا…سُنا ہے یہ قُدسیوں سے مَیں نے، وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین