• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ اگرغور کریں تو آج دنیا کا ہر انسان آپ کو بے چین نظر آئے گا۔ اس کی وجہ قرآن کے الفاظ میں خواہشات کی کثرت ہے۔ پیدائشی طور پر انسان انتہائیAmbitious ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ بہتری کی ایک نہایت غلط تعبیر اس نے اپنے ذہن میں بنا رکھی ہے۔ اگر میں زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کر لوں تو زندگی بہتر ہو سکتی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جو لوگ انتہائی امیر ہو چکے ہیں، وہ بھی مرتے دم تک پاگلوں کی طرح اس دولت کو دو گنا کرنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں ؛حتیٰ کہ موت آپہنچتی ہے اور ورثا میں جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ وہ پاگلوں کی طرح کھاتا او رپاگلوں کی طرح نوٹ اکٹھے کرتا ہے۔ اس طرزِ زندگی کا نتیجہ یہ ہے کہ زندگی کے چوتھے عشرے میں ہی آج کا انسان موٹاپے، ذیابیطس، بلڈ پریشر اور دل کے امراض کا شکار ہو جاتا ہے۔

جہاں بھی چار دوست اکھٹے ہوتے ہیں، وہ اپنے اپنے منصوبے ایک دوسرے کے سامنے رکھتے ہیں۔ جب چوتھے کی باری آتی ہے تو وہ کہتاہے کہ میں جس کمپنی میں نوکری کر رہا ہوں، اس سے مطمئن ہوں اور بس۔ اگر مجھے فارغ بھی کر دیا جائے تو ایک چھوٹا سا کاروبار کرنے کے لیے سرمایہ میرے پاس موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اپنی زندگی سے بالکل مطمئن ہوں۔ تینوں اسے یوں دیکھتے ہیں، جیسے کسی پاگل کو دیکھا جاتا ہے۔ اس کی باتیں ان کی سمجھ نہیں آ رہی ہوتیں۔ وہ پوچھتے ہیں کہ یہ تبدیلی کیسے آئی؟ اس نے کہا میں نے ایک تصویر دیکھی تھی۔ مختلف ممالک کے کھلاڑی دوڑ کے ایک مقابلے میں شریک تھے۔ مداحوں کا ایک ہجوم اپنے اپنے پسندیدہ کھلاڑی کی ویڈیو اور تصاویر بنا رہا تھا۔ سب اپنے اپنے موبائل سے وہ خاص لمحہ Captureکرنے میں مصروف تھے؛البتہ ایک بوڑھی عورت بغیر کسی موبائل اور کیمرے کے‘ اپنی آنکھوں سے اپنے پسندیدہ کھلاڑی کو دیکھتے ہوئے مسکرا رہی تھی۔

یہ تصویر دیکھ کر اسے ایک جھٹکا لگا۔ایک جہانِ حیرت اس پہ کھل گیا۔ یہ تصویر بتاتی ہے کہ یا تو آپ اپنے موجودہ لمحے سے بھرپور طور پر لطف اندوز ہو سکتے ہیں یاپھر آپ مستقبل کے لیے اس لمحے کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔ دونوں چیزیں اکٹھی نہیں ہو سکتیں۔ آپ نے شادیوں میں دیکھا ہو گا کہ ایک ایک لمحہ Captureکرنے کی کوشش میں لوگ اتنے بے چین ہوتے ہیں کہ لمحہ حال میں لطف اندوز ہو ہی نہیں سکتے۔ یہ نہیں کہ تصاویر لینا غلط ہے۔ مستقبل کے لیے بھی کچھ مواد ریکارڈ میں رکھنا ضروری ہے‘ لیکن بیلنس ختم ہو چکا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ شادی کے دس سال بعد، میں اپنے بچوں کو یہ تصاویر دکھائوں گا۔ دس سال بعد اس کی بیوی سے علیحدگی ہو چکی ہوتی ہے۔ اس سے اچھا تھا کہ لمحہ موجود سے ہی لطف اندوز ہو جاتا۔

آج کا انسان انتہائی مضطرب ہے۔ اس اضطراب میں اپنی زندگی کے موجودہ لمحات سے لطف اندوز نہیں ہو سکتا۔ جب تک وہ اپنی خواہش کے مطابق‘رقم اکٹھی کرنے اور کاروبار پھیلانے میں کامیاب ہوگا، اس کے قیمتی مہ و سال گزر چکے ہوں گے۔ بال سفید ہونا شروع ہو جائیں گے۔ اولاد آپس میں لڑ رہی ہوگی۔ اس کا بدترین پہلو یہ ہے کہ جیسے جیسے وہ ترقی کرتا جائے گا،اس کی خواہشات بھی بڑھتی چلی جائیں گی۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ اپنے بہترین لمحات سے لطف اندوز ہونے سے محروم رہ جائے گا۔یہ نہیں کہ بندہ مستقبل کے لیے کچھ اکٹھا نہ کرے لیکن ایک توازن انتہائی ضروری ہے۔ اگر یہ توازن نہیں ہوگا، تو زندگی اچھے مستقبل کے بارے میں سوچتے ہوئے گزر جائے گی جبکہ حال سے وہ کبھی لطف اندوز نہیں ہوسکے گا۔ سب سے زیادہ لطف، ہمارا جسم جس کے لیے ترس رہا ہوتا ہے، وہ جسمانی کام ہے۔ اس دوران سانس پھولتا ہے، دل کی دھڑکن تیز ہوتی ہے، دماغ کو زیادہ آکسیجن ملتی ہے۔انسان کو انتہائی آسودگی نصیب ہوتی ہےلیکن آج کا انسان کبھی دوڑ نہیں لگائے گا۔ اس کی تمام تر دلچسپی پیسہ اکٹھا کرنے تک محدود ہے۔

وہ شخص آزاد ہے، جو روزانہ خدا کو یاد کرتا ہے۔ کم کھاتا ہے۔ کچھ دیر دوڑ لگا تا ہے۔ اس کے پاس ایک اچھی گاڑی ہے۔ اسے آسودہ رہنے کے لیے ایک کھلا کمرہ،اٹیچ باتھ، گرم پانی اورآرام دہ بستر درکار ہے جو کہ اس کے پاس موجود ہے۔ روزانہ غور و فکر،کچھ دیر مطالعہ۔ اسے کوئی بڑی بیماری نہیں۔ وہ لمحہ ء حال میں ایک آسودہ زندگی گزار رہا ہے۔دنیا والوں کی اکثریت مستقبل محفوظ بنانے کی لامتناہی اور بے کراں خواہش میں جکڑی ہوئی ہے۔ مستقبل اگر محفوظ ہو سکتا تو معمر قذافی نہ کر لیتا۔ کیا وہ سڑک پہ ہجوم کے ہاتھوں قتل نہیں ہوا؟ ہمیں کیا پتا کہ مستقبل میں کیا درپیش آنا ہے؟ ہو سکتاہے کہ انسان پارکنسن کا شکار ہو جائے پھر دولت کس کام کی ؟

صرف لمحہ ٔ حال میں جیتا ہوا انسان اپنی زندگی سے بھرپور انداز میں لطف اندوز ہو تا ہے۔ راز کی بات یہ ہے کہ صرف صوفی ہی اپنی زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہیں کہ وہ مومنٹ ٹو مومنٹ جیتے ہیں۔ دنیا کے زیادہ تر لوگ شدید خوف اور خواہش کے زیر اثر ایک Obsessedزندگی گزار رہے ہیں۔ ہمارا لاشعور ہمیشہ اس خوف اور خواہش تلے دباہو ا کراہتا رہتا ہے۔ زندگی میں جو کچھ وہ حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ پایا جا سکتا ہی نہیں۔ آج انسان کی حالت اس گدھے کی طرح ہے، میرے دوست، ’’خود سے خدا تک ‘‘ کے مصنف ناصر افتخار کے بقول جس پر سوارآدمی نے ایک چھڑی پرگھاس باندھ کر اس کی رسائی سے باہر لٹکا رکھا ہوکہ وہ اسے نگلنے کے لیے ہمیشہ بھاگتا ہی رہے۔ میں پورے چیلنج سے کہتا ہوں کہ اس کالم کو پڑھنے والے 99.9فیصد لوگوں کی حالت یہی ہے، جو اوپر بیان ہوئی ہے۔

تازہ ترین