السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
حقیقت پر مبنی
اس دفعہ بھی آپ نے میری کہانی ’’بچپن کی وہ نادانی‘‘شایع کر کے میرا دل موہ لیا۔ مَیں آپ کا تہہ دل سے ممنون ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے (آمین) آپ آئندہ بھی میرا حوصلہ بڑھاتی رہی، تو میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ایسے حقیقت پر مبنی واقعات آپ کو ارسال کرتا ہی رہوں گا۔ (سائیں تاج دین بٹ، بھائی والا، عدیل ٹائون، فیصل آباد)
ج: تحریر قابلِ اشاعت ہو، تو باری آنے پر لازماً شایع ہوجاتی ہے۔ آئندہ بھی اچھی تحریریں بھیجیں گے، تو ضرورشایع کردی جائیں گی۔
سیّد الاوراق کہا جائے
مَیں گزشتہ کئی سالوں سے جنگ، سنڈے میگزین کا باقاعدہ قاری ہوں۔ مختلف لکھاریوں کی تحریروں اور آپ کے جوابات سے محظوظ ہوتا رہتا ہوں۔ بعض دل چسپ جملوں پر بےساختہ ہنسی نکل جاتی ہے، پھر بار بار پڑھنے سے ایک نئی چاشنی سے رُوشناس ہوتا ہوں، تو چہرے پر تادیر مُسکراہٹ قائم رہتی ہے۔ اسماء دمڑ کے خطوط بےحد پسند ہیں۔ اُن کی خوش مزاجی اور حسِ مزاح پر اُن کو داد دینا پڑتی ہے۔ شوخی، فقرہ بازی پر رشک بھی آتا ہے۔ بہرحال، میگزین کے مندرجات کی بات کروں، تو صفحۂ اوّل پر ماڈل جاذبِ نظر، پُرکشش لگی۔ منور مرزا افغانستان کی صورتِ حال پر تجزیہ کرتے نظر آئے، مگرلگتا ہے، یہ مضمون سقوطِ کابل سے قبل ضبطِ تحریر میں لایا گیا۔ محمود میاں ’’تذکرئہ صحابیاتؓ ‘‘ میں حضرت ثوبیہؓ کے تذکرے کے ساتھ موجود تھے۔ محمود میاں بھی قلم کے دَھنی ہیں۔ لکھتے ہیں اور خُوب لکھتے ہیں۔ مَیں تو اُن کے طرزِ نگارش کا مدّاح ہوں۔ اگر اُن کا ایک تفصیلی انٹرویو ہوجائے، تو لُطف آجائے۔ نسرین جبیں نے پختون خوا میں ہندو ایکٹ کے عدم نفاذ کا رونارویا۔ڈاکٹرسہیل گل ماحولیاتی آلودگی کا تذکرہ کررہے تھے۔ ڈاکٹر اطہر رضا نے بی ڈی آر سے متعلق آگاہ کیا، کافی نئی معلومات تھیں۔ شفق شفیع مصنّفہ، سماجی کارکن، استاد گوہر تاج کے تفصیلی انٹرویو کے ساتھ آئیں۔ پتا نہیں لوگ بیک وقت اتنے ڈھیر کام کیسےکرلیتے ہیں۔ ہم تو 42سال تک ایک ہی پیشے سے منسلک ہوکر ریٹائرمنٹ کو پہنچے۔ عبداللہ نظامی نئے لکھاری لگے، مگر خُوب صُورت تحریر لائے، فورٹ منرو سے متعلق ضروری معلومات پہنچا کر ایک غلط فہمی دُور کر دی کہ مَیں اِسے بلوچستان میں سمجھتا تھا۔ تصاویر دیکھ کر دل سیر و سیّاحت کو مچلنے لگا۔ نازلی فیصل نے بچّوں کو کورونا وائرس کے نفسیاتی وبا سے نکالنے کے ضمن میں عُمدہ قلم کشائی کی،تو ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں لیاقت مظہر نے دُکھ پر دُکھ کی ایک رُوح فرسا داستان گوش گزار کی۔ نئی کتابوں پر تبصرہ منور راجپوت فرما رہے تھے، ویسے زیادہ طویل تبصروں پر مضمون کا گمان ہوتا ہے۔ اب نظر ’’آپ کا صفحہ‘‘ پر جا ٹھہری ہے۔ جس طرح جمعے کے دن کو ’’سیّد الایّام‘‘ کہا جاتا ہے، اسی طرح آپ کے صفحے کو ’’سیّد الاوراق‘‘ کہا جائے، تو بے جا نہ ہوگا۔ اس میں جس طرح بھانت بھانت کے لکھاریوں کو موقع دیا جاتا ہے، اپنی مثال آپ ہے۔ میرا یہ پہلا خط ہے، اگر معمولی اغلاط نظر انداز فرما کر حوصلہ افزائی کی گئی، تو آئندہ بھی خطوط کا سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔ (محمد رمضان، کریم آباد، شکریال، راول پنڈی)
ج: اچھی تحریر اپنی جگہ خود بناتی ہے۔ آپ کا خط پہلا ضرور ہے، لیکن اندازِ تحریر خاصا پختہ ہے۔ آپ جب جی چاہے، بزم کا حصّہ بن سکتے ہیں۔ آپ نے 22اگست کے شمارے پر تبصرہ فرمایا، جو آج شامل ہو رہا ہے، تو اس سے اندازہ لگالیں کہ ہمیں اپنا پرنٹنگ شیڈول کس طرح مرتّب کرنا پڑتا ہے۔ جب کہ افغانستان میں جس تیزی سے تبدیلی کا عمل انجام پایا، تو اس میں حالات و واقعات کا آگے، پیچھے ہو جانا کچھ عجب نہیں تھا۔
مُراد علی شاہ کا انٹرویو
مَیں کافی عرصے سے سنڈے میگزین کا قاری ہوں۔ ماشااللہ اچھا میگزین ہے۔ آج آپ کو پہلی بار خط لکھ رہا ہوں، امید ہے شایع ہوجائے گا۔ ایک درخواست ہے، وزیراعلیٰ سندھ سیّد مراد علی شاہ کا مفصّل انٹرویو کروائیں، کیوں کہ وہی ایک باضمیر اور اصول پسند سیاست دان ہیں، جو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے جنازے میں شریک ہوئے۔ (خالد سیف اللہ، گاؤں شکردرہ، تحصیل و ضلع اٹک)
ج: جی بہتر۔
کچھ گنجلک سا ہے
17اکتوبر کا شمارہ موصول ہوا، سرِورق پر گنبدِ خضرا کی رُوح پرور تصویر روحانی مسّرت کا باعث بنی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں اقصیٰ منور ملک نے ’’نہیں ہے جہاں میں مثال محمدﷺ‘‘ کے عنوان سے بہترین تحریر رقم کی۔ طہورہ شعیب نے بھی ’’رحمت کے پیکرِ مجسّم، نبی آخرالزماں حضرت محمدﷺ‘‘ کے عنوان سے مختلف طبقات حتیٰ کہ دشمنوں سے بھی حُسنِ سلوک کے نایاب گوہرِ آب دار پیش کیے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے صحیح تجزیہ کیا کہ افغانستان کی ترجمانی ہمیں نہیں،افغانستان کی عبوری حکومت کو کرنی چاہیے۔ ’’مدعی سُست، گواہ چُست‘‘ بن کر ہم دنیا کو اچھا تاثر نہیں دے رہے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹس‘‘ میں ڈاکٹر عبدالباسط ہڈیوں کی مُوذی بیماری سے آگاہ کر رہے تھے، تو ڈاکٹر سارہ شاہ نے موٹاپے کے مضر اثرات اور احتیاطی تدابیر سے آگاہ کیا۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں شفق رفیع نے ’’میڈیا ڈویلپمینٹ اتھارٹی یا میڈیا کنٹرول اتھارٹی‘‘ کے عنوان سے سیرحاصل بحث کی۔ نااہل حکم ران اپنی ناکامیوں کو چُھپانے کے لیے پہلا وار میڈیا ہی پر کرتے ہیں کہ میڈیا ہی عوام دشمن اقدامات کا پول کھولتا ہے۔ آمر ہوں یا جمہوری حکم ران، عوام کی بے خبری ہی میں عافیت جانتے ہیں۔ نان جویں کے محتاج صحافی کو 10کروڑ روپے جرمانہ کرنے سے تو بہتر ہے کہ حکومت ایک آرڈیننس کے ذریعے پرنٹ اور الیکٹرک میڈیا پر مکمل پابندی ہی عائد کردے کہ ’’نہ رہے گا بانس، نہ بجے گی بانسری۔‘‘، ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی رقم طراز تھے کہ حضورﷺ کو صرف مسلم امّہ ہی نے نہیں، غیر مسلم مفکّرین نے بھی زبردست خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر عزیزہ انجم ’’پیارا گھر‘‘ میں اللہ کے نبی حضرت محمّدؐ کے اخلاق و سیرت پر روشنی ڈال رہی تھیں، تو فرحی نعیم نے بھی اخلاق و کردار کی بلندی کو خُوب اُجاگر کیا۔ کریلا اور نیم چڑھا ہمیں کم ہی بھاتا ہے، ہاں اگر اس میں قیمہ بھرا ہو تو شوق سے کھالیتے ہیں۔ کرن عباس کرن ناول ’’دُھندلے عکس‘‘ کی پانچویں قسط لائیں، جس میں اُن کی محنت کا عکس واضح نظر آ رہا ہے، مگر تحریر ہنوز کچھ گنجلک سی ہے۔ ’’متفرق‘‘ میں سلمیٰ اعوان نے 15گھنٹے سولی پر رہنےکی روداد سنائی۔ پڑھ کر خُوب لُطف اندوز ہوئے۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں فوزیہ ناہید، آمنہ آفاق اور فوزیہ گل حسن نے استاد، ساس اور معلّم کے اخلاق و حُسنِ سلوک کی تعریف کی۔ ناقابلِ فراموش کے تینوں واقعات بھی فکر انگیز تھے۔ اور ہمارے صفحے میں اعزازی چِٹھی صبیحہ عمّاد کے نام رہی۔ (شہزادہ بشیر محمد نقش بندی، میرپورخاص)
ج: آپ بھی ناول، ہماری طرح سمجھ سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کریں، ساری گتھیاں آپ ہی آپ سلجھتی چلی جائیں گی۔
کس سیّارے سے تعلق ہے؟
جب آپ ہمارا کوئی خط میگزین میں چھاپتی ہیں، تو تب تک تقریباً 8 میگزین مزید آچکے ہوتے ہیں اور ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ اب کس میگزین پر تبصرہ کریں۔ چوں کہ آپ کاصفحہ، ہرایک کا نہایت پسندیدہ صفحہ ہے، تو ہماری رائے ہے کہ اس کے صفحات کی تعداد بڑھا کردو کردیں۔ ماڈلنگ کو تین صفحات دینے کی بجائے دوصفحات اگر ’’آپ کا صفحہ‘‘ کو دے دیئے جائیں، تو اس طرح خطوط اتنی تاخیر سے چَھپنےسےبچ جائیں گے۔ کئی صاحبان نے تو ’’آپ کا صفحہ‘‘ کو جریدے کے ماتھے کا جھومر قرار دیا ہے، لیکن آپ اس جھومر کو سب سے پیچھے ٹانک دیتی ہیں، ذرا اس امر پر بھی کچھ غور فرمائیں۔ میرے پچھلے خط کے جواب میں آپ نے مجھے خلائی مخلوق قرار دیا۔ اب یہ آپ ہی کو پتا لگاناہوگاکہ یہ خلائی مخلوق کون سے سیّارے سے تعلق رکھتی ہے۔ ویسے خلا کی مخلوق پتا نہیں انسان کی طرح طوطا چشم بھی ہوتی ہے کہ نہیں کہ انسانی کرتوتوں نےتو آج ہر طرف مایوسی اور تباہی ہی پھیلا رکھی ہے۔ بہرحال، ’’تذکرہ اللہ والوں کا‘‘ میں حضرت امام حسن بصریؒ کے مضمون نے تو دل کو ایمان کے نور سے منوّر کر دیا۔ ’’نئی کتابیں‘‘ سلسلے میں ناول ’’جین آئر‘‘ پر بہت اچھا تبصرہ کیاگیا۔ یہ ناول کبھی بی اے کے کورس میں شامل ہوتا تھا۔ اربن پلانر، مصوّرہ ارم اشفاق کی بات چیت بہت پسند آئی کہ وہ ایک انجینئر ہوتے ہوئےاوراکنامکس جیساخشک مضمون پڑھ کر بھی آرٹ کی دل دادہ ہیں۔ پھر انہوں نے بڑے دل چسپ خیالات کابھی اظہار کیا، جیسے انہیں پرانی عمارتیں، ویرانے، ڈھلتی دھوپ،لمبے سائے پسند ہیں۔ ایسے ہی خیالات پر ایک پرانی پاکستانی فلم ’’شام ڈھلے‘‘ بھی بنی تھی۔ م۔ح۔ سحاب کا مضمون، 1965ء کی جنگ میں شاہینوں کے کارنامے اُجاگر کررہا تھا۔ ڈاکٹر غلام حیدر کامضمون بھی معلومات کا خزانہ لیے ہوئے تھا۔ کنول بہزاد کے افسانے ’’روم میٹ‘‘ میں اُس دَور کو بیان کیا گیا، جو عموماً ایک طالب علم والدین کے زیر سایہ گزارتا ہے اور جو پھر کبھی زندگی میں نہیں مل پاتا۔ اچھا افسانہ تھا، مَیں تو اس کے سحر میں کھویا رہا۔ (نجمی حسین مرزا، مسلم کالونی، باغ بان پورہ، لاہور)
ج:اپنے پچھلے خط میں یقیناً آپ نے کوئی ایسی فلسفہ نگاری فرمائی ہوگی، جو ہمارے سر کے بالکل ہی اوپرسے گزرگئی ہوگی، یہ خط تو ’’زمین‘‘ ہی سے لکھا معلوم ہو رہا ہے۔ کوشش کرکے آئندہ بھی قدم، زمین ہی پر رکھیے گا۔ جہاں تک بات ہے کہ کس شمارے پر تبصرہ کیا جائے۔ تو جس شمارے میں آپ کا پہلا تبصرہ شایع ہو، بس اُسی پر اگلا تبصرہ لکھ ڈالیں۔ 3 سے 4 ہفتوں میں دوسرا تبصرہ شایع ہوجائے، تو پھر تیسرا لکھیں۔
ادھے سے زیادہ ایڈٹ ہوگیا
آج لگ بھگ ایک سال بعد میرا بھیجا ہوا سچّا واقعہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں شایع ہوا ہے۔ اس دوران میں میگزین کامستقلاً مطالعہ کرتارہا۔ خیر، ’’دیر آید، درست آید‘‘ حالاں کہ واقعہ آدھے سے زیادہ ایڈٹ کرکے شایع کیا گیا ہے۔ اور نام بھی غلط شایع کردیاگیا۔ میرانام حارث علی نہیں، وارث علی ہے۔ مگر مَیں پھر بھی آپ کا ممنون ہوں۔ منور مرزا میرے فیورٹ لکھاری ہیں۔ ’’دنیا ملٹی پولر ورلڈ بننے جارہی ہے‘‘ کے عنوان سے بہترین تجزیہ پڑھنے کو ملا۔ ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ بھی اچھا سلسلہ ہے۔ ورلڈ ہارٹ ڈے پر ڈاکٹر گوہر سعید مفید معلومات دے رہے تھے۔ اختر سعیدی نے مولانا مودودی پر لکھا اور کیاخُوب لکھا۔نیاناول ’’دُھندلے عکس‘‘ کچھ پیچیدہ سا ہے۔ مَیں چوں کہ زیادہ تعلیم یافتہ نہیں، تو مجھے یہ بھید، اَسرار کچھ سمجھ نہیں آرہے۔ ہاں خاور نیازی نے چارلی چپلن پر بہترین معلومات فراہم کیں۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کی دونوں کہانیاں پیار و محبّت کا درس دے رہی تھیں۔ اختر سعیدی نے کتابوں پر خُوب تبصرہ کیا۔ خادم ملک مجھے نارمل انسان لگتے ہیں، بس وہ توجّہ حاصل کرنے کے لیے اونگیاں بونگیاں مارتے ہیں، تو آپ اُنہیں زیادہ اہمیت نہ دیا کریں۔ (سیّد وارث علی، ملیرکالونی، کراچی)
ج: آپ نے 25 صفحات پر مبنی جو الف لیلوی داستان لکھ کر بھیجی، اُسے اگر ایڈٹ نہ کیا جاتا، تو پورا شمارہ اُسی کے نام کرنا پڑتا۔ اور تحریر کے آخر میں آپ نے خود بہت واضح طور پر نام ’’حارث علی‘‘ ہی لکھا، وگرنہ ہمیں وارث علی کو حارث علی کرکے کتنے نفلوں کا ثواب ملنا تھا، جو ہم نام تبدیل کرتے۔ اور اس واقعے کی اشاعت میں سال بھرکا عرصہ بھی اسی لیےلگاکہ اسے قابلِ اشاعت بنانے میں محنت کے ساتھ طویل فراغت بھی درکار تھی، جو باآسانی میسّر نہیں آتی۔
100 سے زیادہ مضامین
گزارش یہ ہے کہ مَیں 2014ء سے مختلف جرائد میں مضامین لکھ رہا ہوں۔ میرے اب تک 100 سے زیادہ مضامین شایع ہوچکے ہیں۔ کافی عرصے سے سوچ رہا تھا کہ جنگ سنڈے میگزین کے لیے بھی کچھ لکھوں، تو اب یہ ایک تحریر حاضرِ خدمت ہے۔ (فیصل کانپوری)
ج: تحریر قابلِ اشاعت ہوئی، تو شامل ہو جائے گی۔ لیکن خیال رہے کہ جو تحریر آپ ہمیں بھیجیں، وہ کسی دوسرے جریدے کو ہرگز نہ بھیجیں، تاوقتیکہ ہم اُس کے قابلِ اشاعت یا ناقابلِ اشاعت ہونے سے متعلق آپ کو آگاہ نہ کردیں۔
فی امان اللہ
اس ہفتے کی چٹھی
سرِورقی ماڈل کے دیدہ زیب پیراہن و سامان زیبایش میں قوسِ قزح کے ساتوں رنگ اس حُسنِ مجسّم کو ہوش رُبا بنانے پر تُلے ہوئے تھے، ایسے رنگین عالم میں مدیرہ صاحبہ کی چنیدہ شہ سُرخی ؎ ’’میری دنیا ہے کیسی رنگا رنگ…‘‘ سونے پہ سہاگا اور چاندی پر دھاگا لگی۔ صبحِ اتوار کے سہانے لمحات میں علم و آگہی کا تڑکا لگانے کے لیے بہت چاہت سے دائیں سے زیرِنظر شمارہ وا کیا۔ آفاق کی وسعتوں میں منوّر چاند کی طرح مرزا صاحب کو دیکھ کر دل کے آدھے قمقمے روشن ہوگئے۔ انکل سام، چین کی اِنڈو پیسیفک اسٹریٹجی پر چیں بہ جبیں تھا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمّد احمد غزالی کے قلم کے توسّط سے ’’تذکرہ اللہ والوں کا‘‘ پڑھ رہے ہیں، مگر اس ہفتے ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی کو حضرت مجدّد الف ثانی کی شخصیت پر قلم کاری کی سعادت ملی۔ اسلام آبادی سیاست کے ارسطو، فاروق اقدس گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی ہماری مُلکی سیاست کے نسوانی کرداروں کی آنیاں جانیاں ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ کی صُورت دل چسپ پیرائے میں پیش کر رہے ہیں۔ صفحے پر اِن اینڈ آئوٹ ہوتی خاتون کا ڈریس کلر Same ہے۔ بائی دی وے اس قناعت پر یقین نہیں آرہا۔ شفق رفیع کا بچّوں کے ساتھ سارے زمانے کے دل چسپ کھیل کھیلنا اچھا لگا۔ مگر نیا پاکستان میں جو تبدیلی سیزن تھری میں منہگائی کا پٹھو گرم، مافیا کا یسّوپنجو، سرکار کی چُھپن چُھپائی اور اپوزیشن کی پکڑم پکڑائی (مثلِ ٹام اینڈ جیری شو) جاری ہے، یہ اشارے خیر کے نہیں ہیں۔ بریسٹ کینسر آگہی کے ضمن میں ڈاکٹر روفینہ سومرو کا تفصیلی مضمون سوالاً جواباً شایع کرنے پر جناب کےحُسن ترتیب کا کوئی جواب نہیں۔ اور ہم شہر و ہم سُخن، ڈاکٹر رانا کا ٹوتھ آرٹیکل پڑھ کر ہم اپنے ڈانواں ڈول دانت کو نکلوانے پر مائل ہوگئے تھے، مگر پلاس کی ڈرائونی شکل دیکھ کر یوٹرن لے لیا۔ آپ کی فخریہ پیش کش، نئے ناول ’’دُھندلے عکس‘‘ نے بہت متاثر کیا ہے۔ ’’عشق خوشبو سے ہوتا ہے اور تتلیاں طواف پھولوں کا کرتی ہیں۔‘‘ ثبوت کے لیے یہ ایک دانہ لکھا ہے۔ ویل ڈن کرن عباس کرن! عالیہ کاشف نے فن کار علی عباس کی دل کی باتیں قارئین تک صُورتِ سوال و جواب بخوبی پہنچائیں۔ صفحہ ’’متفرق‘‘ کی جبیں یہ سجے مصرعے ؎ ’’خزاں کا رنگ بھی رنگِ بہار جیسا تھا…‘‘ کو دیکھ کر ہمارے دل میں بھی اِک شاعرانہ لہر سی یوں اٹھی ؎ ’’تبسّمِ گل بھی میرے یار جیسا تھا…‘‘ ورلڈ ٹیچرز ڈے کے عالمی موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پیرزادہ عثمانی نے اساتذئہ کرام کے لیے مراعات، سہولتوں کے بڑھانے کا صائب نکتہ اٹھایا۔ نئی کتابیں کی آخری کتاب ’’لال رضائی‘‘ (افسانے) کا ٹائٹل و ماڈل اگرچہ دونوں ہی لال تھے، مگر ٹائٹل پر رضائی کہیں نہ پائی۔ سجناں دے ویہڑے یعنی آپ کا صفحہ میں عفّت زرّیں کے وسطی نامے کو high ride کی سعادت ملی۔ مبارکاں! پرنس اور نازلی نے اپنے محبت ناموں میں خاکسار کا چاہت سے نام لیا۔ اور مسلسل تیسری بار ہوا ہے کہ راجا فیصل آبادی کی چٹھیاں ’’ٹو اِن ون‘‘ ہو کر شایع ہوئی ہیں، جس کارن ’’کورٹ آف کوئین‘‘ میں انتظاری ٹیبل پر اس وقت لال کوٹھی کا کوئی خط نہیں ہے۔ تہی دست کرکے تُسیں چنگانئیں کیتا۔ ہاہاہا!!! (محمّد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)
ج: لال کوٹھی کا خط نہیں ہوتا، تب ہی کسی اور کو ہائی رائڈ کی سعادت مل پاتی ہے۔
گوشہ برقی خُطوط
ج: آپ ہمارے دفتر کال کرکے ہم سے نمبر لے سکتی ہیں۔
ج:’’جنگ پزل‘‘ کےصفحات سے ادارتی شعبے کا کچھ لینا دینا نہیں۔ آپ کو اِسے مذکورہ صفحات پردرج پتے ہی پر بھیجنا ہوگا۔
ج:جو ہاتھوں سے نکلتے ہیں، اپنا ہی نقصان کرتے ہیں۔ دوسروں کا بھلا کیا بگڑتا ہے، لہذا نکلنے دیں۔
ج:اچھے ناول نگاروں کے مزاج کہاں ملتے ہیں۔ پھر ہم کسی کو اعزازیہ بھی تو نہیں دیتے، تو لوگ کمائی کریں یاہمیں مفت سروس فراہم کریں۔
ج: جی بہتر۔
ج:بھیجنا چاہتی ہیں، تو ضرور بھیج سکتی ہیں۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk