• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

کوئی روشنی کی کرن؟

’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؓ کے حالات و واقعات پڑھے، روح بالیدگی پاتی رہی۔ سبحان اللہ، جو ماں کا ایسا فرماں بردار ہو کہ ڈاکو تائب ہوجائیں، تو وہ اللہ بزرگ و برتر کا کس قدر فرماں بردار ہوگا۔ محمّد احمد غزالی نےخُوب قلم کاری کی، مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں ’’مرکل ماما‘‘ کو موضوعِ تحریر بنایا گیا۔ حیرت ہے، ایک پادری کی بیٹی سولہ سال حاکم رہی، حالاں کہ ہمارے مولویوں کا تو مذاق اُڑاتے ہیں۔ مسلمان بنیاد پرست ہونے کا طعنہ سہتا ہے۔ ’’دُھندلے عکس‘‘ نامی ناول شروع ہوا ہے، مگر آغاز ہی سے ایسا اُداس کردینے والا ہے،اب دیکھیے، اِس اداس ماحول میں کرن عباس کرن، کوئی روشنی کی کرن آنے بھی دیتی ہیں یا نہیں۔ مگر مظفّر آباد، آزاد کشمیر کا نام پڑھ کر ایک اَن جانی سی خوشی ہوئی۔ ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ تو زندگی کا حصّہ ہے۔ تہمینہ دولتانہ اور ناہید خان دونوں عُمدہ سیاسی کردار کی حامل خواتین ہیں۔ اُن سے متعلق تحریر معلوماتی اور دل چسپ لگی۔ ویسےفاروق اقدس کو بھی نیرنگیٔ سیاست کی جلتی بجھتی شمعوں پر لکھنے کی خُوب ہی سوجھی۔ اختر چنال کا انٹرویو پڑھ کر مزہ آگیا۔ باجے کا قصّہ تو بہت ہی دل چسپ و عجیب تھا۔ احتشام طورو نے پاکستان کے سبزہ زاروں کی سیر کروائی۔ کوہستان کے پہاڑوں سے اُتر کر جب وادی کے جہاز بانڈہ اور بانال میں اُترا تو دل جھوم اُٹھا۔ اے کاش! بانال میں اختر چنال کا باجا بجتا اور ہم ایسے ماحول میں دانے پہ دانہ سُنتےمسحور ہوجاتے۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس نے تو ’’بھول نہ جانا پھر پپّا‘‘ والی اشتہاری مہم باد دلادی۔ نسیان واقعی بہت خوف ناک مرض ہے۔ ڈاکٹر افضل بھی خاصا حسّاس موضوع لے کر آئے کہ ہمارے یہاں تو ابھی تک سی پی آر ہی کی تربیت ہی نہیں ہوئی، تو مہلک امراض کب ختم ہوں گے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں سیّد زاہد سے اچھی نوک جھونک چل نکلی ہے۔میری طرف سےسب دوستوں کو سلام۔ (ڈاکٹر محمّد حمزہ خان ڈاھا، لاہور)

ج: آئے گی، آئے گی، روشنی کی کرن بھی آئے گی۔ ناول، اُمید کا دامن تھام کے پڑھیں۔

ہر قاری کو پڑھنی چاہیے

بھئی بہت خُوب! کسی بھائی نے درست شکوہ کیا ہے کہ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں جھڈو والے چھائے ہوئے ہیں۔ پڑھ کر سیروں خون بڑھ گیا۔ حسبِ سابق اکتوبر کاپہلا شمارہ بہت ہی خُوب تھا۔ خطّے کی بدلتی صورتِ حال کے حوالے سے منور مرزا نے بھرپور جائزہ لیا۔ یادداشتیں میں سردار عطاء اللہ مینگل کے متعلق زبردست تحریر تھی۔ وہ بلوچ عوام کی آواز تھے۔ شمارے کی بلکہ سال کی سب سے مفید اور بہترین تحریر ڈاکٹر عزیزہ انجم کی ’’بُرا وقت بتا کر نہیں آتا‘‘ تھی۔ میری رائے میں ہر قاری کو یہ نگارش ضرور پڑھنی چاہیے اور اس پر عمل کی کوشش بھی کی جائے۔ اس کے علاوہ زرّین آصف کی والدین کے حوالے سے تحریر بھی خُوب تھی۔ یوں لگ رہا تھا، جیسے میں اپنے امّی، ابّا کے متعلق پڑھ رہا ہوں۔ (سمیع عادلوف، جھڈو)

ج:واقعی،ڈاکٹر عزیزہ اچھوتے موضوعات پر عُمدہ قلم آرائی کرتی ہیں۔

زبردست ناول کا اغاز

’’احساس کے ترجمے نہیں ہوتے..... احساس بس محسوس کیا جاتا ہے‘‘ آج سوچا، ناز جی کچھ روایات سے ہٹ کر لکھنا چاہیے، مگر آپ زیادہ حیران نہ ہوں کہ آپ تو بُھگتتی رہتی ہیں، طرح طرح کے خطوط۔ ارے، ہم اپنی باتوں میں اصل بات ہی بھول گئے۔ (آہمم…م م) جی ہاں، تبصرہ۔ سرِورق پر بنی سنوری ماڈل دیکھ کر اچھا لگا، پتا نہیں، اِنھیں اس قدر بنائو سنگھار کا وقت کہاں سےمل جاتا ہے۔ ’’نیرنگیٔ سیاستِ دوراں تو دیکھیے‘‘ میں خُوب صُورت خواتین کی تصاویر کے ساتھ بہت دل چسپ، معلوماتی تحریریں پڑھنے کو مل رہی ہیں۔ اوہو! فضا میں ریڈیائی لہروں اور پانی میں کیمیائی مادّوں کی بہتات، نجم الحسن عطا کی تحریر نے چونکادیا۔ ’’دل کی سُنیں‘‘ پڑھ کر تو دل ڈوب ڈوب ہی گیا۔ مولانا مودودیؒ کے بارے میں تو جتنا بھی لکھا جائے، کم ہے۔ بہت ہی اثر انگیز شخصیت تھی، اللہ درجات بلند کرے۔ ارے ہاں، ایک بات، جس کا ذکر سب سے پہلے کرنا چاہ رہی تھی، وہ نیا ناول شروع کرنے پر آپ کو خراجِ تحسین پیش کرنا تھا۔ واہ واہ، کیا زبردست ناول شروع کیا ہے۔ مبارکاں جی مبارکاں، مَیں تو بہت خوش ہوں اور آپ کی بزم تو ہمیشہ کی طرح اچھی ہی تھی۔ ویسے آپ نے ’’اسٹائل‘‘ کا رائٹ ٓاَپ لکھنا کیوں چھوڑ دیا۔ ’’متفرق‘‘ میں چارلی چپلن پر مضمون اور ’’پیارا گھر‘‘ میں ڈاکٹر عزیزہ انجم کا مضمون ’’بُرا وقت بتا کر نہیں آتا‘‘ کمال تحریریں تھیں۔ ناقابلِ فراموش، ڈائجسٹ بھی عُمدہ صفحات ہیں۔ (آپ کی اپنی، ناز جعفری، بفرزون، کراچی)

ج:آپ کو ناول پسند آ گیا، سمجھیں، محنت وصول پائی۔ ’’اسٹائل‘‘ کے رائٹ اَپ لکھ لکھ کے اب اس حد تک دل اُکتا گیا ہے کہ کسی دوسرے کا لکھا پڑھنے کو بھی جی نہیں چاہتا، کُجا کہ خود لکھا جائے۔

آزاد نظم، کہانیاں

آپ کے میگزین کے لیے ایک آزاد نظم اور دو کہانیاں ارسال کر رہا ہوں۔ براہِ مہربانی ملاحظہ فرما لیجیے۔ (بابر سلیمان)

ج: وہ تو ہم آپ کے بغیر کہے بھی ملاحظہ فرمائیں گے۔ ہاں البتہ اشاعت کا فیصلہ باری آنے پر اور میرٹ پر پورا اُترنے کی صُورت ہی کیا جائے گا۔

جملے جوڑنے کی کوشش

مَیں سنڈے میگزین کی مستقل قاریہ ہوں، اس کے تمام ہی سلسلے بےحد پسند ہیں۔ اِس سے پہلے میں نے پہلے کبھی کسی جریدے میں خط نہیں لکھا، لیکن آج چند جملے جوڑنے کی کوشش کررہی ہوں۔ سرچشمۂ ہدایت، حالات و واقعات، عالمی افق بار بار پڑھتی ہوں۔ شفق رفیع اور منوّر راجپوت جس موضوع پر بھی قلم اُٹھائیں، بہت ہی اچھی تحریر ہوتی ہے۔ قومی و مذہبی تہواروں اور حجاب ڈے پر آپ کی تحریروں کا انتظار رہتا ہے۔ اِسی طرح ایڈیٹر صاحبہ اگر مدرز اینڈ فادرز ڈے پر بھی کچھ لکھیں، تو وہ بھی بار بار پڑھنے اور سنبھال کر رکھنے کی تحریر ہوتی ہے۔ ناقابلِ فراموش سے جن، بھوت غائب ہوگئے ہیں اور بہت معلوماتی اور سبق آموز تحریریں شامل ہو رہی ہیں، جس کے لیے آپ کا بےحد شکریہ۔ میگزین کی ترقی کےلیے ہمیشہ دُعاگو۔ (شیما فاطمہ، کورنگی، کراچی)

ج: آپ کی چھوٹی سی تحریر، ہزاروں سے بہتر ہے۔ آپ نے محض جملے جوڑنے کی کوشش نہیں کی، مختصر لیکن خُوب صُورت نامہ تحریر کیا ہے۔ آئندہ بھی آتی جاتی رہیے گا۔ خط کے ساتھ موصول ہونے والی آپ کی تحریر بھی اگر قابلِ اشاعت ہوئی، تو ضرور شامل ہوجائے گی۔

پڑھنے والوں کی اصلاح

آپ سب کی دُعائوں سے میری پہلی کتاب ’’گل دستہِ روحانیت‘‘ شایع ہو چُکی ہے۔ ایک کاپی آپ کو بطور ہدیہ بھی ارسال کر رہا ہوں۔ عرض یہ ہے کہ مَیں ایک چھوٹا سا لکھاری ہوں اور آپ کے ہفت روزہ رسالے کے لیے سچّی، سبق آموز کہانیاں لکھنا چاہتا ہوں تاکہ پڑھنے والوں کی اصلاح اور فائدہ ہو۔ کیوں کہ سنڈے میگزین ماشاء اللہ بہت زیادہ تعداد میں اور بہت زیادہ گھروں میں پڑھا جاتا ہے۔ اس ضمن میں آپ سے گزارش ہے کہ مجھے شرائط و ضوابط سے آگاہ کردیں۔ (عمران محمود، بابو لال حسین روڈ، ڈھوک رتہ، راول پنڈی)

ج:ایسے سبق آموز واقعات کے لیےہمارا پورا ایک صفحہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے نام سے مختص ہے۔ ضوابط و شرائط صفحے ہی پر ہر ہفتے درج ہوتی ہیں۔ تحریر اردو اِن پیج میں کمپوز کرکے ای میل بھی کرسکتے ہیں اور بذریعہ ڈاک بھی بھیجی جا سکتی ہے۔

اِن اینڈ آؤٹ کا معمّا

’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ’’تذکرہ اللہ والوں کا‘‘ پڑھ کر طبیعت خوش ہوگئی۔ حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ سے متعلق مضمون کی اشاعت پر ممنون ہیں۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں عظیم کشمیری، پاکستانی رہنما کےحوالے سے منوّر راجپوت کی نگارش کا جواب نہ تھا۔ ’’شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک…‘‘ بہت کلاسیکل سلسلہ ہے، لیکن میرا ایک اعتراض ہے کہ جس دروازے سے خاتون آئوٹ ہورہی ہیں، وہ دروازہ تو کُھلا ہوا ہے، لیکن جس دروازے سے اُن کو اِن ہونا ہے، وہ بند ہے۔ اب دروازہ بند ہونے کی وجہ سے وہ اِن کیسے ہوں گی۔ اور جب اِن ہی نہیں ہوسکیں گی، تو آئوٹ ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر آپ یہ معمّا سمجھا دیں، تو بڑی مہربانی ہوگی۔ منوّر مرزا حالات و واقعات میں لاجواب تجزئیات پیش کر رہے ہیں۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر غلام حیدر سے بلڈکینسر کی تشخیص و علاج سے متعلق جو سوال و جواب کیےگئے، معلومات افزا تھے۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ بھی زبردست سلسلہ ہے۔ اگلے شمارے کے ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں بھی ’’تذکرہ اللہ والوں کا‘‘ واقعی سبق آموز تھا۔ ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ دل چسپی سے پڑھا جا رہا ہے۔ ناول کی پہلی قسط بہت زیادہ متاثر کُن نہیں تھی، لیکن امید ہے، آگے جاکر اچھا ہوجائے گا۔ اختر چنال کا انٹرویو بس ٹھیک ہی تھا۔ احتشام طورو نے وادیٔ کمراٹ کی بہترین سیر کروائی۔ تابش دہلوی کی برسی پر اُن کے حالاتِ زندگی بیان کیے گئے، بہت اچھا لگا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں شایع شدہ لیاقت مظہر باقری کی تحریر سے کچھ اختلاف ہے کہ ہاتھ کی گھڑی تو مَیں آج بھی باندھتا ہوں کہ کون بار بار جیب سے موبائل نکالے اور ٹائم دیکھے۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)

ج: ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ سلسلے کے ساتھ شایع ہونے والے اسکیچ کا کوئی معمّا ہے ہی نہیں، تو ہم سمجھائیں کیا۔ آپ اسکیچ دیکھ ہی غلط زاویۂ نظر سے رہے ہیں۔ جو خاتون کُھلے دروازے کے ساتھ کھڑی ہیں، وہ اِن ہورہی ہیں۔ مطلب اُن کے لیے سب دروازے کُھلے ہوئے ہی ہیں۔ جن خاتون کی پشت دکھائی دے رہی ہے، وہ آئوٹ ہورہی ہیں اور اُن پر سب دروازے بھی بند ہوچُکے ہیں۔ انہیں بند دروازے کے پیچھے دکھانا چوں کہ ممکن نہ تھا، تو بند دروازے کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔ کیا سمجھے…؟؟

سب اچھا ہے…

اکتوبر کا پہلا شمارہ ہاتھ میں ہے۔ پہلے صفحے ہی پر منور مرزا ایک اچھی تحریر کے ساتھ موجود تھے۔ واہ، کیا شان دار تجزیہ پیش کیا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی نے بھی ایک عرصے بعد عُمدہ مضمون تحریر کیا۔ ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ کے فاروق اقدس کا تو کوئی جواب ہی نہیں۔ اس مرتبہ نام وَر شخصیت، مہتاب اکبر راشدی پر کیا شان دار تحریر ہماری نذر کی۔ ڈاکٹر رانا اطہر کا شکریہ کہ دانت کےامراض پر معلومات افزا مضامین تحریر فرما رہے ہیں۔ شفق رفیع کی ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں چُھپن چُھپائی، بہت اچھی لگی۔ واہ! آزاد کشمیر سے ناول پڑھنے کو مل رہا ہے۔ زبردست بھئی، کرن عباس کرن خُوب لکھ رہی ہیں۔ کراچی پریس کلب کی پکنک بھی انجوائے کی۔ اختر سعیدی کتابوں پر عُمدہ تبصرے کر رہے ہیں۔ اگلے شمارے کے ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں شیخ شہاب الدّین عُمر سہرودی پر محمّد احمد غزالی کا لکھا مضمون لاجواب تھا، پڑھ کر کافی معلومات حاصل ہوئیں۔ اس سے پہلے ہم نے ان پر کبھی کوئی مضمون نہیں پڑھا۔ پروفیسر ڈاکٹر محمّد اقبال چوہدری کی گفتگو کے تو کیا ہی کہنے۔ فاروق اقدس ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ میں آئوٹ ہونے والی سیاست دان خواتین پر قسط وار زبردست لکھ رہے ہیں۔سرِورق کی ماڈل اچھی لگی اور عالیہ کاشف کی چھوٹی سی تحریربھی۔ ناول کا جواب نہیں، اب کُھل کر سامنے آرہا ہے۔ نئی کتابیں میں منور راجپوت بھی کافی اچھے انداز میں تبصرے کررہے ہیں۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

عُمر بھر کی تھکن

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ دونوں ہی میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے خُوب صُورت صفحات شامل تھے۔ عظیم پاکستانی سیّدعلی گیلانی سے متعلق مضمون شان دار تھا ’’نیرنگیٔ سیاستِ دوراں تو دیکھیے…‘‘ کے دونوں ہی حصّے لاجواب رہے۔ واقعی، بی بی شہید کی شہادت کے بعد ناہید خان تو گم نام ہی ہوگئی ہیں۔ ’’بلوچستان، نایاب جانوروں،پرندوں کا مسکن‘‘ پڑھ کر معلومات میں اضافہ ہوا۔ ’’کہی اَن کہی‘‘ میں اس بار باصلاحیت اداکار، شو ہوسٹ فیضان شیخ تھے اور انٹرویو میں بلوچستان کے ممتاز لوک فن کار، اختر چنال کا انتخاب کیا گیا۔ دونوں کی سچّی، کھری باتیں پڑھ کر اُن سے متعلق تفصیلاً جاننے کا موقع ملا۔ ’’اسٹائل‘‘ میں ہمیشہ کی طرح ماڈلز خُوب صُورت تھیں۔ کرن عباس کرن کے نئے ناول ’’دُھندلے عکس‘‘ نے متاثر کیا۔ ’’پیارا وطن‘‘ میں اس بار وادئ کمراٹ کے بارے میں پڑھا کہ بلند و بالا پہاڑوں، سبزہ زاروں، آب شاروں سے مزیّن سیّاحتی مقام عُمر بھرکی تھکن اُتاردیتاہے۔ زندگی رہی تو اِن شاء اللہ آئندہ سال زندگی بھر کی تھکن اتارنےضرورجائیں گے۔تابش دہلوی کی برسی پراُن کےبارے میں خصوصی تحریر واقعی خصوصی تھی۔ پہلے شمارے میں ناچیز کا خط اور دوسرے میں ’’ڈائجسٹ‘‘ کے صفحے پر ناچیز کی تحریر شایع ہوئی، بےحد شُکریہ۔ اُمید ہے، آئندہ بھی اِسی طرح حوصلہ افزائی کی جاتی رہے گی۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)

ج :ناچیز صاحب! بعض باتیں تمثیلاً، محاورتاً بھی کہی جاتی ہیں۔ وگرنہ عُمروں کی تھکن اگر ایک سفر سے اُترتی ہوں، تو ہر کوئی جاکر نہ اُتار آئے۔

                               فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

’’باغِ ادب میں جو گلِ معنی کِھلا کبھی، دامن میں رکھ لیا نظرِ انتخاب نے…‘‘ تخلیق کے رنگ برنگے پھول اپنی تمام تر افادیت و مہک کے ساتھ آپ کے حُسنِ ذوق کا کرشمہ بنے تازہ شمارے میں جذب نظر آئے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ یعنی ’’شہرِ فروزاں‘‘ میں شیخ شہاب الدین سہروردی کا مقام، سنّتِ نبوی ؐ کے اتباع کے نور سے آراستہ نظر آیا (سبحان اللہ)۔ ’’تعمیری ذہن ہی تعمیرِ وطن کے خواب میں رنگ بھرتے ہیں‘‘، ڈاکٹر اقبال کی گفتگو کا حاصل و خلاصہ یہی تھا۔ اشاعتِ خصوصی نے ’’جان ہے تو جہان ہے‘‘ کے مصداق بھرپور صحت مند زندگی گزارنے کا کلیہ دیا، تو ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں واک کا صحیح مفہوم ’’بغیر رُکے چلنا ہے‘‘ سمجھ آیا، ورنہ ہم گھریلو خواتین تو گھر کی بھاگ دوڑ ہی کو واک سمجھ کر واک سے گریزاں رہیں۔ اور اِسی باب کے اگلے اشارے ’’بصارت کےعالمی دن‘‘ کے سلوگن ’’Love Your eyes‘‘ پر عمل نہایت ضروری ہے، کیوں کہ ’’نظر ہے تو نظارہ ہے‘‘ اور نیا سلسلہ اِن اینڈ آئوٹ ’’شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک…‘‘ لاجواب و زبردست، خواتین کی ذہانت و قابلیت کے تاریخ کے ماتھے پر اَن مٹ نشانات کہ وہ ’’آئوٹ‘‘ ہوتے ہوئے آج بھی ’’اِن‘‘ ہیں۔ پڑھ کر احساس جاگا کہ اے کاش! ہم بھی ایسا کچھ کر دکھائیں اور یہی تحریر کی کام یابی کی دلیل ہے۔ ’’متفرق‘‘ نے تاریخی اوراق اُلٹا کر اپنا تَن مَن دَھن پاکستان پر قربان کرنے والے پہلے وزیراعظم، شہیدِ ملّت لیاقت علی خان کی جھلک دکھلا کر اُن کے آخری الفاظ بھی سُنائے ’’اللہ پاکستان کی حفاظت کرے۔‘‘ ہم سب کی بھی یہی دُعا ہے، ’’آمین‘‘ کہتے ہوئے ناول کی لوٹتی بہار’’دُھندلے عکس‘‘ نمایاں ہوا، تو خواب سے حقیقت تک کاسفر طے ہوتا نظر آیا،جو واقعی کٹھن اور پُرپیچ سفر ہے۔ پیارے گھر میں جھانکا تو ہم بھی موجود تھے، دیکھ کر مسرور ہوئے اور آپ کے بےحد ممنون بھی۔ اور روبینہ جی! آپ سے ہم بھی متفّق ہیں کہ اے کاش! آج مائیں جتنا وقت لپ اسٹکس کے شیڈز اور میچنگ جوتے ڈھونڈنے میں لگاتی ہیں، اُتنا ہی وقت بچیوں کی تربیت کو دیں، تومُلک و قوم کامستقبل سنورجائے۔ناقابلِ فراموش کا ہر ہر قصّہ اپنے دامن میں ایک نیا خیال، نئی یاد بھرتانظرآتا ہے۔ ’’لائبریری‘‘ میں محمود میاں کی ’’قصص الانبیاء‘‘ کتابی صُورت میں دیکھ کر نہال ہوئے۔ اور اپنی گُل رنگ محفل میں پرنس افضل کی قدردانی نے ہمیں اور ہمارے پورے گھرانےکو قدر دانی کی خوشبو سے مہکا دیا۔دلی دُعا ہے کہ ہمارے اس ’’پاک ٹی ہائوس‘‘ کی، جو ہماری ایڈیٹر کی محنتوں کا ثمر ہے، رونقیں یوں ہی قائم و دائم رہیں۔ (نازلی فیصل، ڈیفینس، لاہور)

ج: آمین، ثم آمین۔

گوشہ برقی خُطوط

  • مَیں سنڈے میگزین میں اپنا آرٹیکل بھیجنا چاہتی ہوں، اس کا کیا طریقہ کار ہوگا؟ (ثوبیہ پانیزئی)

ج: اگر آپ نے سنڈے میگزین کبھی پڑھا ہوتا، تو یقیناً آپ کو طریقہ کار کا پتا ہوتا۔ خیر، تحریر پوسٹ کرناچاہتی ہیں، تو ہاتھ سے لکھی ہوئی بھی بھیج سکتی ہیں۔ مگر ای میل کے لیے ضروری ہے کہ کمپوزڈ اردو فائل کی صُورت بھیجی جائے۔

  • ’’حجاب ڈے ایڈیشن‘‘ کا سارا مواد شان دار تھا۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں آپ کا رائٹ اَپ پڑھا تو چونک اُٹھا۔ بلاشبہ، آپ نے ایک اہم مسئلے کو اُجاگر کیا۔ مَیں خود کافی عرصے سے نوٹس کر رہا ہوں کہ یہ ’’کامن سینس کے سوالات‘‘ کے نام پر کس قدر بےہودگی وبے حیائی عام ہو رہی ہے۔ نوجوان لڑکیوں سے انتہائی اخلاق باختہ گفتگو اور حرکات کروائی جارہی ہیں۔ پتا نہیں، ہمارا معاشرہ کس سمت جارہا ہے اور ’’ریاستِ مدینہ‘‘ کے نام لیوائوں کو کچھ نظر ہی نہیں آرہا۔ اس ٹک ٹاک کی ایپ پرتو سخت چیک اینڈ بیلنس رکھنے کی ضرورت ہے۔ پہلے نوجوان لڑکیوں سے مخرّبِ اخلاق حرکات کروائی جاتی ہیں اور پھر ہراسمنٹ کا ایشو کھڑا کردیا جاتا ہے، کیا یہ کُھلا تضاد نہیں۔ ہاں، ایک فرمایش بھی کرنی تھی، بھکّر کا ایک نیا شاعر ہے، افکار علوی، ممکن ہو تو اُس کا انٹرویو کروالیں۔ (عمران اسماعیل، کراچی)

ج: بجا فرمایا۔ افکار علوی کا پروفائل بھی چیک کیے لیتے ہیں، میرٹ پر پورے اترے تو انٹرویو کا بھی سوچیں گے۔

  • ’’ ناقابلِ فراموش‘‘ میں عفّت زرّیں کی شایع شدہ تحریر ’’خدارا! انتقام کی آگ میں بچّوں کو نہ جلائیں‘‘ نے روح جھنجھوڑ کر رکھ دی۔ میری والدہ نے یہ واقعہ پڑھ کر مجھے آپ لوگوں کو ای میل کرنے کی ہدایت کی۔ سو، مَیں یہ ای میل اُن ہی کے کہنے پرکر رہی ہوں کہ بقول اُن کے، ایسے واقعات کی اشاعت کسی نیکی سے کم نہیں۔ (علینہ حسن)

ج: جی علینہ… اس واقعے کی اشاعت کا مقصد ہی یہی تھا۔ بعدازاں قارئین کی طرف سے کئی کالز، خطوط، ای میلز موصول ہونے پر عفّت زرّیں سے رابطہ کیا گیا اور اُن سے نمبر شیئر کرنے کی اجازت بھی لی گئی۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk

تازہ ترین