• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر نوجوان اپنا مستقبل روشن اور تابناک دیکھنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ وہ بھرپور طریقے سے کامیاب زندگی گزارے اور معاشرے میں ایک مقام بنانے کی فکر میں ہاتھ پاؤں مارتا ہے، پھر بھی مستقبل سے مایوس رہتا ہے بسا اوقات وہ اپنے حالات زندگی سے تنگ آکر کچھ ایسے فیصلے کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے،تا کہ غربت کی لکیر سے باہر نکل سکے۔اپنے ملک میں رہ کر محنت کرنے کے بجائے، اپنے وطن ، گھر ، والدین ،بہن بھائیوں سے دور دیارِ غیر جاکر کماناچاہتا ہے، تاکہ وہ ان کو خوش حال زندگی دے سکے۔ 

ایسے ایک دو نہیں ہزاروں نوجوان اپنے ملک میں روز گار مہیا نہ ہونے کی صورت میں دیارِ غیر جانے کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ پاکستان میں ایک مزدور سے لےکر ڈاکٹر، پروفیسر، انجینئراور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی اکثریت دیارِ غیر جانے کو ترجیح دے رہی ہے۔وجہ اس کی واضح ہے کہ ملک میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ نوجوانوں کی قابلیت، اہلیت ،ہنر اور ایمانداری کو بے روزگاری کا دیمک کھا رہی ہے۔ 

بیش تر نوجوان کو راتوں رات امیر بننا چاہتے ہیں۔ وہ یورپ کے خواب آنکھوں میں سجائے عمرِ رفتہ کی منازل طے کرتے ہیں۔ کسی کو اپنی پریشانیوں کا حل یورپ میں نظر آتا ہے تو کوئی وہاں کی چکا چوند سے مرعوب ہے اور یہ سوچ کہ شاید دوسرے ملکوں میں انہیں اچھا روزگار ملے گا، لمحہ فکریہ ہے۔ ملکی حالات نوجوان نسل میں انتشار اور عدم اعتماد کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ اُنہیں کو جرائم اور مایوسی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ 

انھیں ایسا محسوس ہوتا ہے اگر وہ پاکستان کو چھوڑکر دیار غیر منتقل ہوجائیں گے تو وہاں انھیں روز گار کے اچھے مواقع فراہم ہو جائیں گے۔ عام خیال ہے کہ ناقص منصوبہ بندی اور وسائل بروئے کار نہ لانے کی وجہ سے ٹیلنٹ اور ہنر دیار غیر منتقل ہونے پر مجبور ہیں۔ باصلاحیت افرادی قوت اگر اپنے ملک کے بجائے دوسرے ممالک میں کام کرے تو اس سے کسی حد تک معاشی فائدہ تو ہوسکتا ہے، مگر مجموعی طور پر ملک کے نقصان میں ہے۔

مستقبل کی فکر کسے نہیں ہوتی لیکن آج کے بیشتر نوجوان بہتر مستقبل کےلئے ہر جائز و ناجائز طریقے استعمال کرتے ہیں۔ انسانی اسمگلرز اپنا کام کرتے اور لوگوں کو موت،مشکلات کے منہ میں دھکیلتے ہیں۔ پہلے تو خود ساختہ ایجنٹ، پھر راہبروں کا لبادھ اوڑھے راہزنوں کے جال میں پھنستے، کئی گھرانے زندگی کی جمع پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، چونکہ غیر قانونی طور پر سرحدیں عبور کی جاتی ہیں تو لازمی طور پر جنگلوں اور ویرانوں کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے، جس میں تمام لوگ ایجنٹوں کے رحم و کرم پرہوتے ہیں۔

اُن کے لیے یہ نوجوان صرف ایک "پارسل" کی حیثیت رکھتے ہیں جن کے نہ جذبات ہوتے ہیں اور نہ ہی احساسات۔ نوجوان ساری مشقتیں یہ سوچ کر برداشت کر لیتے ہیں کہ دیارِ غیر پہنچتے ہی ساری تکلیفوں کا ازالہ ہو جائے گا لیکن جب خواب ٹوٹتا ہے تو اس وقت تک کشتیاں جل چکی ہوتی ہیں۔ اُس وقت یہ تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں تو اپنے کیے پر پشیمان ہوتے ہیں اور اپنے ملک میں جو زندگی بے کار نظر آتی تھی وہی شاہانہ روپ اختیار کر لیتی ہے۔ جن گلیوں سے گذرنا توہین خیال کیا جاتا تھا اُسی کی یادیں نیندیں اڑا دیتی ہیں۔ جن رشتوں کی قدر نہیں کرتے تھے، ان ہی کی یاد دل میں کسک بن کر چبھتی ہے۔

اسی طرح ان پڑھ مزدور پیشہ اور دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان بھی اپنے مستقبل سنوارنے کےلئے پاسپورٹ آفس کے آس پاس، چائے کے ڈھابوں پر اپنی سوچ کو دیگر لوگوں تک پہنچاتے ہیں، ان ہی میں بعض ایجنٹ حضرات جو ایسے لوگوں کی تاک میں ہوتے ہیں وہ ان کے گرد اپنا گھیرا تنگ کرلیتے ہیں اورا نہیں مستقبل کے ایسے روشن خواب دکھاتے ہیں کہ ان کے ارادے اور پختہ ہوجاتے ہیں، آخرکار وہ اپنے والدین سے لڑجھڑ کر گھر کا سامان و زیورات بیچ کر یا کسی غلط ذرائع سے خطیر رقم ان ایجنٹوں کے حوالے کردیتے ہیں، پھر سوچتے ہیں کہ اب جلد ازجلد مطلوبہ ملک روانہ ہوجائیں گے لیکن انہیں آنے والے حالات کا بالکل اندازہ نہیں ہوتا کیونکہ انسانی اسمگلنگ کرنے والے تمام نوجوانوں کو مختلف غیر قانونی کاموں کےلئے منتخب کرتے ہیں، تاکہ انہیں مختلف ایجنٹوں اور مافیا کے حوالے کیا جاسکے اس سلسلے میں زمینی اور سمندری راستے اپنائے جاتے ہیں جو مختلف ممالک کی سرحدوں سے ہوتے ہوئے منزل مقصود تک انہیں پہنچاتے ہیں۔ 

یہ انسانی اسمگلر جن کا تانابانا دیگر ممالک کے ایجنٹوں سے ملا ہوا ہوتا ہے وہ معقول رقم لے کر نوجوان کے مطلوبہ ملک کے مطابق جعلی دستاویزات بھی تیار کرتے ہیں اور پھر غیر قانونی طریقے سے مختلف سرحدوں کے زمینی اور سمندری راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔ زمینی راستے کےلئے نوجوانوں کے گروپوں کو بند گاڑیوں، ٹرالرز، کنٹینرز اور سامان سے لدے ٹرکوں میں جانورں کی طرح بھر دیتے ہیں۔ جب دوسری سرحد ملتی ہے تو ان کے باشندے بھی ان میں شامل ہوجاتے ہیں۔ دوران سفر کئی نوجوان خوراک کی قلت اور بیماری کی وجہ سے راستے میں ہی دم توڑ دیتے ہیں اور کچھ نوجوانوں کے گروپ کشتی اور لانچوں اور چھوٹے بحری (پانی کے) جہازوں میں بذریعہ سمندر یورپی ممالک بھیجا جاتا ہے ۔ 

کئی نوجوانوں کو منشیات کی منتقلی کےلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے، جس کے لیے انہیں لالچ دیا جاتا ہے کہ آپ یورپ کے جس ملک کا شہری بننا چاہیں گے، ہمارے آدمی آپ کو وہاں کی شہریت کا انتظام کردیں گے۔ دوران سفر کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کوئی نوجوان ان سے اختلاف کرے یا کسی وجہ سے انتقال کرجائے تو ان کو بحیرئہ عرب اور دیگر سمندری لہروں کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ ایسی بیسیوں مثالیں موجود ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان سے ایران ، ترکی، یونان ، اٹلی ، آسٹرلیا اور وہاں سے دوسرے یورپی ممالک کے غیر قانونی سفر میں کتنی ماؤں کے لخت جگر جان کی بازی ہارے گئے ہیں ۔

پاکستان میں ایسے نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد ہے جو کچھ سیاحتی ویزے پر واپس نہ جانے کی نیت سے سفر کرتے ہیں تو کچھ تعلیمی ویزا حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، جبکہ ان کا تعلیم حاصل کرنے یا جاری رکھنے کا کوئی ارادہ نہیں ہوتا۔ عام طور پر اس طرح کے سپنے بننے والوں کا مطمع نظر یورپ کی روشنیاں، رنگینیاں اور دولت کی ریل پیل ہوتی ہے اور کسی موڑ پر بھی وہاں کی تکالیف اور مسائل کے بارے میں نہ تو سوچتے ہیں اور نہ ہی کسی سے رہنمائی لیتے ہیں۔ جب ان کے ویزے کی میعاد ختم ہونے والی ہوتی ہے وہ فرار کا راستہ اختیار کرتے اور مختلف طریقوں سے اس ملک کی انتظامیہ سے بچتے پھرتے ہیں۔

اسی طرح ہمارے ہنرمند اور ڈپلومہ ہولڈر نوجوان جو کسی کمپنی کے ذریعے باقاعدہ ویزے سے دوسرے ممالک میں جاتے ہیں، لیکن کام کی نوعیت دیکھ کر یا اس شعبے سے تعلق نہیں، جس کا انہوں نے اشتہار میں لکھا تھا اور جب ویزا ختم ہونے کے قریب ہوتا ہے تو کمپنی بھی ان کو فارغ کردیتی ہے، ایسے میں نوجوان خاندان کی کفالت کے لئے دیگر ایسے علاقوں کا رخ کرتے ہیں، جہاں انتظامیہ ان کو تلاش نہ کر پائے اور جو نوجوان وہاں مستقل رہائش اختیار کرنا چاہتے ہیں، وہ وہاں کی خواتین سے شادی کرلیتے ہیں، اس طرح انہیں قانونی تحفظ مل جاتا ہے ۔

بعض نوجوان دور دراز علاقوں میں اسنیک بار، ہوٹلز، فارم ہائوس اور پیٹرول پمپ وغیرہ پر روزگار حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن خوف ہر وقت طاری رہتا ہےلیکن جو نوجوان وہاں کی پولیس کی گرفت میں آجاتے ہیں، انہیں سزا کے طور پر شہر سے باہر ایک مخصوص جگہ پر قید کردیا جاتا ہے، جس سے ان کا اپنے خاندان سے مکمل رابطہ منقطع ہوجاتا ہے۔ کچھ نوجوان سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مناسب عذر پیش کرکے سفارتخانے کے ذریعے واپس پاکستان آنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔

انسانی اسمگلنگ کا نیٹ ورک بہت مضبوط اور توانا ہے جس کو توڑنےکے لئے گزشتہ چند سالوں سے جدید ٹیکنالوجی سے کام لیا جارہا ہے۔ پاک ایران سرحد پاکستان کے دیگر ساحلی علاقوں اور دیگر سرحدی علاقوں و زمینی راستے پر باقاعدہ باڑ نصب کی جارہی ہے اور چیک پوسٹیں بنائی گئی ہیں۔ اسی طرح سمندری راستوں مختلف سیکورٹی ادارے، ایجنسیاں اور فضائی معائنےکےلئے فورس کو مزید سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں، تاکہ ان راستوں سے غیر قانونی حرکات کو روکا جاسکے اور ایسے افراد اور اسمگلنگ کا قلع قمع کیا جاسکے جو نوجوانوں کو لالچ دے کر ان کے خاندانوں کو تباہ و برباد کررہے ہیں۔

اس سلسلے میں حکام کی بھی ذمہ داری ہے کہ ایسے ایجنٹوں اور مافیاز کے خلاف سخت کارروائی کرے ۔والدین اور نوجوانوں کو بھی چاہیے کہ اپنی تعلیمی قابلیت اور استطاعت دیکھ کر اگر آپ کو بیرون ملک سے کوئی اچھی خوشخبری ملتی ہے تو پوری طرح مطمئن ہوکر قدم بڑھائیں ۔

اگر اپنے  ملک میں نوجوانوں کو روزگار مل جائے تو کون چاہے گا کہ اپنا ملک اور خاندان چھوڑ کر ہزاروں میل دور جائے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ماہرین فن و ہنر اور باصلاحیت افراد کے لیے ملک میں ایسے مواقع پیدا کیے جائیں، جس سے معیشت مضبوط ہو، ایسی منصوبہ بندی کی جائے کہ نوجوانوں کی تعلیم اور ہنر سے بھر پور فائدہ اُٹھایا جائے۔ قومیں دوسروں کی دولت سے ترقی نہیں کرتیں، ہمیشہ اپنے ہی لوگوں کی صلاحیت و محنت سے ترقی ہوتی ہے۔

متوجہ ہوں!

قارئین کرام آپ نے صفحہ ’’نوجوان‘‘ پڑھا آپ کو کیسا لگا؟ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔ اگر آپ بھی نوجوانوں سے متعلق موضوعات پر لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں۔ ہم نوک پلک درست کرکے شائع کریں گے۔

ہمارا پتا ہے:

انچارج صفحہ ’’نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن،

اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔

تازہ ترین