وقت کے ساتھ تعمیراتی صنعت میں تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ ماہرین تھری ڈی پرنٹنگ کو تعمیرات کا مستقبل بھی قرار دیتے ہیں، کیوں کہ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے ناصرف قلیل مدت میں بڑے پیمانے پر تعمیرات کی جاسکتی ہیں بلکہ اس کے ذریعے کی جانے والی تعمیرات پائیدار اور ماحول دوست بھی ہوتی ہے۔
اس میں تعمیراتی مٹیریل کا ضیاع بھی کم ہوتا ہے، جس سے ناصرف وقت کی بچت ہوتی ہے بلکہ روایتی تعمیراتی انداز کے مقابلے میں لاگت بھی کم آتی ہے۔ توانائی کی کھپت کی بات کریں تو یہاں بھی یہ کم توانائی خرچ ٹیکنالوجی ثابت ہوتی ہے۔ نیز، عمارت کے ڈیزائن میں بھی تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی کے ذریعے وہ کام کیا جاسکتا ہے جو روایتی طریقے سے ممکن نہیں ہے۔
امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر آسٹن میں تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی کے ذریعے ایک سو گھروں پر مشتمل ایک سوسائٹی تعمیر کرنے کا ایک منصوبہ سامنے آیا ہے، جو مکمل ہونے کے بعد تھری ڈی پرنٹڈ گھروں کی دنیا کی سب سے بڑی کمیونٹی بن جائے گی۔
پروجیکٹ کا آغاز 2022ء میں ہوگا، ان دنوں اس منصوبے کی تفصیلات اور پیشگی تیاری پر کام کیا جارہا ہے۔ منصوبے کا ڈیزائن نیدرلینڈ سے تعلق رکھنے والی ایک آرکیٹیکچر فرم تیار کررہی ہے۔ منصوبے کا مکمل ڈیزائن اور تفصیلات آئندہ سال افتتاح سے قبل جاری کی جائیں گی۔
اس منصوبے کے تحت تھری ڈی پرنٹڈ ہوم تعمیر کرنے کے لیے امریکا کی ایک مایہ ناز تھری ڈی پرنٹر تیار کرنے والی کمپنی آئیکون کی ٹیکنالوجی استعمال ہوگی۔ اس ٹیکنالوجی کی خاصیت یہ ہے کہ اس کے تحت تیار کردہ تھری ڈی پرنٹنگ مشینری کو اس کی معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والا تھری ڈی پرنٹنگ مشین آپریٹر بھی استعمال کرسکتا ہے، ساتھ ہی اس کا پرنٹ کردہ تعمیراتی مواد اپنی نفاست کے لحاظ سے دنیا بھر میں مانا جاتا ہے۔
کمپنی کا دعویٰ ہے کہ ان کے تھری ڈی پرنٹڈ گھر جس ٹیکنالوجی کے تحت تعمیر کیے جاتے ہیں اس کے باعث وہ انتہائی کم توانائی خرچ، لچک میں بے مثال اور روایتی طریقہ تعمیر کے مقابلے میں سستے ہوتے ہیں۔ اس میں تعمیراتی مواد کا ضیاع کم اور ڈیزائن میں زیادہ وسعت آتی ہے۔ کمپنی کے ایک عہدیدار بتاتے ہیں،’’ہماری وولکن تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی تین ہزار مربع فٹ تک حجم کے گھر انتہائی نفاست، 100فی صد درستگی اور تیز رفتاری کے ساتھ اعلیٰ ترین معیار پر تیار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے‘‘۔
عہدیدار کے مطابق، مجوزہ رہائشی کمیونٹی کو انٹرنیشنل بلڈنگ کوڈ (IBC) اسٹرکچرل کوڈ کے معیار کے مطابق بنایا جائے گا۔ مزید برآں، یہ گھر روایتی طریقے سے تعمیر ہونے والے گھروں کے مقابلے میں زیادہ دیرپا بھی ہوں گے۔ گھروں کی تکونی چھتیں ایک دوسری کمپنی تیار کرے گی، جس میں فوٹو والٹِک پینلز نصب ہوں گے۔ فوٹو والٹک پینلز سورج کی روشنی سے بجلی پیدا کرتے ہیں، اس طرح یہ گھر اپنی توانائی کی طلب و کھپت میں تقریباً خود کفیل ہوں گے۔
عہدیدار اس حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے کہتے ہیں، ’’ڈیزائن کے حوالے سے ہمارا نظریہ ہے کہ ہم مضافاتی گھروں کو جدیدیت کی حامل جمالیات دینا چاہتے ہیں اور ہماری پرنٹنگ ٹیکنالوجی ایک خودکار نظام کے تحت ہر جگہ کے لیے وہاں کی ثقافت اور روایت کے مطابق بہترین ڈیزائن تیار کرنے میں معاونت فراہم کرتی ہے۔ اس تعمیراتی ٹیکنالوجی کے ذریعے سہولت کار ڈیزائن تیار کرنے کی آزادی ہے، جس میں خمدار دیواریں بھی شامل ہیں۔ – روایتی تعمیراتی مواد کے ساتھ مل کر ایسے گھر بنائے جاسکتے ہیں جو جمالیاتی اور ساختی طور پر منفرد ہوں‘‘۔
اس تھری ڈی پرنٹڈ گھروں کی کمیونٹی کی تعمیر میں، حال ہی میں ایسٹ آسٹن میں مکمل ہونے والے گھروں کے ایک اور منصوبے ’’ایسٹ 17اسٹریٹ ریزیڈنسیز‘‘ کے ڈیزائن اور تعمیراتی عمل سے بھی مدد لی جائے گی، جس کی تعمیر میں بھی وولکن ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا تھا۔
منصوبے میں استعمال ہونےو الا تعمیراتی مواد
اس تعمیراتی منصوبے میں روایتی اور تھری ڈی پرنٹنگ، دونوں طرزِ تعمیر کو استعمال کرتے ہوئے مکمل کیا جائے گا۔ یہ پروجیکٹ دو بیڈ روم سے لے کر چار بیڈ روم پر مشتمل ہیں۔اس پروجیکٹ کے گراؤنڈ لیول کو تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے تعمیرکیا جائے گا۔ اس کی تعمیر میں ’’لاوا کریٹ‘‘ نامی تعمیراتی مواد (سیمنٹ کی ایک قسم)کا استعمال کیا جائے گا جو آگ، سیلاب، آندھی، اور دیگر آفات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
یہ پروجیکٹ مکمل کرنے والے تعمیراتی ادارے کا کہنا ہے کہ، ’’لوگ جس طرح تعمیرات کرتے، اپنے گھروں کو رکھتے اور جس طرح کمیونٹی میں رہتے ہیں، ہم ان سب کو بدلنا چاہتے ہیں۔ ہمارا یہ پروجیکٹ بڑے پیمانے پر آگے کی طرف قدم ہے، جس سے نئی تعمیراتی ٹیکنالوجیز کو فروغ ملے گا‘‘۔
تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی کو بڑے پیمانے پر متعارف کرانے کے لیے ابتدائی طور پر بھاری سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اور یہ بات اسے تعمیراتی صنعت میں بڑے پیمانے پر متعارف کرانے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، تاہم ماحولیات پر پیرس معاہدہ کے اہداف کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں کو اپنا کردار ادا کرتے ہوئے تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی کو تعمیرات کے شعبہ میں فروغ دینا چاہیے اور ترقی پذیر ملکوں کی بھی اس سلسلے میں معاونت کرنی چاہیے تاکہ دنیا کو رہنے کے لیے ایک بہتر جگہ بنایا جاسکے۔