• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کے کام پر ابہام کی کیفیت میں اضافہ

اسلام آباد (قاسم عباسی) نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کے کام سے چھٹکارے پر ابہام کی کیفیت میں اضافہ، ملک گیر پروگرام کے ذریعے اب تک زمینی سطح پر کوئی نمایاں کام نہیں کیا گیا۔

دی نیوز کی تحقیق کے مطابق خود نیفڈا پروگرام کی جانب سے اب تک ایک اینٹ بھی نہیں رکھی گئی ہے۔

نیا پاکستان ہاؤسنگ سوسائٹی اور ڈویلپمنٹ اسکیم کے کام سے چھٹکارے پر ابہام کی کیفیت بڑھ گئی ہے جیسا کہ ملک گیر پروگرام کے ذریعے اب تک زمینی سطح پر کوئی نمایاں کام نہیں کیا گیا ہے۔

مجموعی تعمیراتی لاگت میں اضافہ جس کے نتیجے میں منصوبوں میں تاخیر ہوتی ہے ایک بڑا چیلنج نظر آتا ہے کہ اس پروگرام کے تحت ملک بھر میں غریبوں اور ضرورت مندوں کے لیے 50 لاکھ مکانات کی منظوری دی جائے گی۔

نیا پاکستان ہاؤسنگ سوسائٹی اور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (نیفڈا) کی جانب سے متعدد منصوبے جیسے کہ لاہور، اسلام آباد، سرگودھا، سنجیانی وغیرہ میں غریب اور نادار لوگوں کے لیے مکانات اور فلیٹس بنانے کے لیے شروع کیے گئے۔ تاہم دی نیوز کو معلوم ہوا ہے کہ خود نیفڈا پروگرام کی جانب سے اب تک ایک اینٹ بھی نہیں رکھی گئی ہے۔

نیفڈا کے ترجمان عاصم شوکت سے متعدد بار رابطہ کیا گیا جیسا کہ ملک بھر میں پروگرام کے ذریعے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے عہدیدار کی جانب سے دی گئی تفصیلات کے بارے میں غیر یقینی تھی۔

ترجمان سے پہلی مرتبہ رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان کے محکمے کی جانب سے تین میگا پراجیکٹس چل رہے ہیں جن میں ایک لاہور، ایک اسلام آباد اور ایک سنجیانی میں چل رہا ہے۔

تاہم تحقیقات کرنے پر دی نیوز کو مختلف سرکاری اداروں سے معلوم ہوا کہ نیفڈا آج تک ایک بھی فلیٹ تعمیر کرنے میں ناکام رہا ہے۔

عاصم شوکت نے فرش ٹاؤن اسلام آباد میں تعمیر و ترقی کو اپنے اہم منصوبوں میں سے ایک قرار دیا جس کا گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان نے دورہ بھی کیا تھا۔

دوسری جانب سی ڈی اے اسلام آباد ایک الگ کہانی سناتا ہے اور کہتا ہے کہ فرش ٹاؤن میں تعمیر و ترقی سےنیفڈا کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

جب دی نیوز نے وہ بات پیش کی جو سی ڈی اے نے عاصم کے سامنے کہی تھی تو پھر عہدیدار کا کہنا تھا کہ نیفڈا صرف مختلف سرکاری اداروں جیسے کہ اسلام آباد میں سی ڈی اے اور لاہور میں ایل ڈی اے کو سبسڈی فراہم کر رہا ہے اور خود مختار فلاحی فاؤنڈیشنز جیسے اخوت اور ورکرز ویلفیئر فنڈ (WWF) کو بھی شامل کیا ہے۔

عاصم نے یہ بھی بتایا کہ نیفڈا نے پاکستان بھر میں غریب لوگوں کے لیے کل 20 ہزار گھر بنائے ہیں اور 45000 سے زیادہ گھر پہلے ہی زیر تعمیر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ گھر اخوت فاؤنڈیشن اور ڈبلیو ڈبلیو ایف کی نیفڈا کے ساتھ مشترکا کوششوں سے تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ دی نیوز کے رابطہ کرنے پر اخوت کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ غریبوں کے لیے مکانات کی تعمیر سے متعلق تمام کام صرف ان کی فاؤنڈیشن کر رہی ہے جس میںنیفڈا کا کوئی دخل نہیں۔

نام ظاہر نہ کرنے کی خواہش رکھنے والے عہدیدار نے بتایا کہ اخوت کے ساتھ نیفڈا کی جانب سے شاید کچھ منصوبہ بنایا جارہا ہو لیکن ابھی تک کچھ طے نہیں ہوا ہے۔ اسلام آباد کے ایک سینئر انتظامی عہدیدار نے دی نیوز کو بتایا کہ فرش ٹاؤن میں تمام کام حکومت کر رہی ہے ناکہ نیفڈا۔

سبسڈی فراہم کرنے کے نیفڈا کے دعوے کے بارے میں پوچھے جانے پر عہدیدار نے انکشاف کیا کہ فرش ٹاؤن میں فلیٹس اور اپارٹمنٹس کی تعمیر و ترقی کے لیے نیفڈا کی جانب سے ایک بھی سبسڈی نہیں دی گئی۔

عہدیدار نے یہ بھی بتایا کہ نیفڈا کی جانب سے کسی بھی طرح کا بجٹ یا ریلیف نہیں دیا گیا۔

جب دی نیوز نے نیفڈا کے ترجمان عاصم شوکت سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ اسلام آباد انتظامیہ اور اخوت فاؤنڈیشن کیا دعویٰ کر رہی ہے تو عاصم نے پھر کہا کہ نیفڈا صرف ایک چھتری کے طور پر کام کر رہا ہے جو ان تمام منصوبوں کی نگرانی کر رہا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ صرف بلڈرز کو کلائنٹ دینے اور سب سے زیادہ مستحق لوگوں (غریب لوگوں) کو پناہ گاہوں اور مکانات سے نوازنے کے ذمہ دار ہیں۔

سرگودھا (فلیٹس) اور لاہور (سی ڈی سٹی اپارٹمنٹس) میں نیفڈا کے منصوبوں کو شروع ہوئے تقریباً ایک سال ہو گیا ہے۔

ان دونوں منصوبوں کی افتتاحی تقریب میں وزیراعظم عمران خان نے خود شرکت کی۔

سوالات کے بعد دی نیوز کو مختلف ذرائع سے معلوم ہوا کہ ان فلیٹس کی تعمیر کے لیے ابھی تک ایک بھی اینٹ نہیں رکھی گئی ہے۔

عاصم شوکت نے دی نیوز کو بتایا کہ نیا پاکستان ہاؤسنگ سوسائٹی اینڈ ڈویلپمنٹ اسکیم اور ہمارے معاشرے کے غریب اور ضرورت مند شعبے کے لیے سبسڈی کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے 80 ارب روپے سے زائد قرضے لیے گئے ہیں۔

دی نیوز نے پی ٹی آئی حکومت کے دور میں 2018 سے اب تک مکانات کی تعمیر میں اضافے کا آئیڈیا حاصل کرنے کے لیے مختلف تعمیراتی کمپنیوں اور بلڈرز سے رابطہ کیا۔

گھر کی تعمیر کے لیے درکار چند اہم اشیا کے نرخ اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ان سالوں کے دوران تعمیراتی قیمتوں میں 40 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ نیفڈا نے 2019 سے شروع ہونے والے مختلف پروجیکٹ کیے لیکن اس پورے عرصے میں ایک بھی مکمل نہیں کیا۔

دارالحکومت اسلام میں نیفڈا کے اعلان کردہ مختلف منصوبوں میں سے صرف ایک پراجیکٹ جاری ہے۔

عاصم نے زور دیا کہ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ حکومت لاکھوں لوگوں کو کم سے کم قیمت پر مفت گھر فراہم کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسی لئے بلڈرز کے ساتھ ساتھ بینک بھی تعاون کرنے سے گریزاں ہیں۔ 2018 سے 2019 میں سیمنٹ کی قیمت تقریباً 480 روپے فی 50 کلو تھیلی تھی جو اب بڑھ کر 710 روپے ہو گئی ہے۔ ایک اینٹ کی قیمت 12 روپے سے بڑھ کر 18 روپے ہو گئی ہے۔

سٹیل (سٹین لیس گرل) کی قیمت 600 روپے تھی جو اس وقت 1100 روپے فی فٹ فروخت ہو رہا ہے۔ مزدوری کی قیمت میں بھی 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح بارنگ (سریا) کی قیمت 2018-2019 میں 90 ہزار روپے سے بڑھ کر 1 لاکھ 80 ہزار روپے فی 1000 کلوگرام ہوگئی ہے۔

دی نیوز نے عاصم شوکت سے پوچھا کہ کیا تعمیراتی لاگت میں اضافے کا پروگرام پر کوئی اثر پڑا ہے یا یہ چھٹکارے کی سست رفتار کی وجہ ہے؟ عہدیدار نے وضاحت کی کہ حکومت خریداروں کے لیے سبسڈی بڑھانے کے لیے کام کر رہی ہے اور بلڈرز کو مراعات بھی دے رہی ہے تاکہ پروگرام کو عمل میں لایا جائے۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ وزیراعظم عمران خان نے سبسڈی بڑھانے کے ساتھ ساتھ بلڈرز کو مراعات دینے کا پروگرام خود بتایا ہے۔ تاہم دی نیوز کو عاصم سے معلوم ہوا کہ اس سلسلے میں اب تک کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ہے۔

تازہ ترین