کراچی کو پاکستان کے معاشی حب کے ساتھ ساتھ تعلیمی حب بھی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔ اسے شروع ہی سے پڑھے لکھوں کا شہر کہاجاتا ہے۔ہندوستان کی تقسیم کے وقت بھی زیادہ تر ادباء اور شعرا ء نے اس شہر کو اپنا مستقل مسکن بنایا ، جس کی وجہ سے برصغیر کا سارا ادبی و علمی سرمایہ اس کا نصیب بنا ۔ پاکستان کے دیگر خطوں اور شہروں کے شعراء و ادباء نے بھی اسی شہر میں رہنا پسند کیا۔ یہاں علمی اور ادبی سرگرمیاں دوسرے شہروں کی نسبت زیادہ تھیںاسی وجہ سے کراچی اب ایک دبستان کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
تعلیم کی سرگرمیوں کی بدولت اس شہر میں لائبریریوں کی تعداد بھی زیادہ ہے ۔اگر دیکھا جائے تو اس وقت پورے پاکستان میں کتابیں پڑھنے کا کلچر پہلے کی نسبت کم ہو گیا ہے لیکن شہر کراچی کو اب بھی یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سب سے زیادہ تعلیمی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ ادبی اور ثقافتی مواقع زیادہ میسر آتے ہیں۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ لوگوں میں کتاب سے دوری بڑھتی جارہی ہے اور خاص طور پر لائبریری کا استعمال نہایت کم ہوگیا ہے اس کے بدلے لوگ جدید ٹیکنا لوجی کو کتاب پڑھنے کے لئے استعمال کرتے ہیں گر چہ یہ سہولت کچھ لائبریر یوں میں بھی ہے، مگر بہت قلیل ۔ اس ہفتے کراچی کی چند خاص لائبریریوں کے بارے میں جانیئے۔
ڈیفنس سینٹرل لائبریری
اس لائبریری کا شمار کراچی کی بڑی او رمشہور لائبریریوں میں ہوتا ہے ۔اس کا قیام 1990 ء میں عمل میں آیا ۔یہاں ہر روز بڑی تعداد میں لوگ مستفید ہونے آتے ہیں، جس میں بچے ، نوجوان سمیت بزرگ شہری بھی شامل ہیں ۔ اسی میں بچوں کی ایک علیحدہ لائبریری بھی ہے اس کے علاوہ روزآنہ کے اخبارات ، رسائل ، انٹر نیٹ سمیت کتابوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ بھی یہاںہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک ڈیجیٹل لائبریری اور مختلف ادبی، سماجی اور ثقا فتی پروگراموں کے لئے ایک خو بصورت آڈیٹوریم بھی قائم کیا گیا ہے۔ یہاں تقریباً ہر موضوع پر کتب کا ذخیرہ موجود ہے، جس کی وجہ سے خاص طور پر طالب علموں کے لیے یہ لائبریری بہت مدد گار ثابت ہوتی ہے ۔
فر ئیر ہال لائبریری
یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ فرئیر ہال 1860 ء کی دہائی میں برطانوی دور حکومت میں بنا تھا اسے انگریزوں نے کراچی کےلوگوںکے لئے تعمیر کرایا تھا شروع میں یہ ہال کراچی کے ٹاؤن ہال کے طور پر کام کرتا تھا ۔لیکن جب انگریزوں کا دور حکومت ختم ہوا تو اس ہال کو لائبریری میں تبدیل کر کے عوام کے لئے کھول دیا گیا ۔
لائبریری کی عمارت اپنے وقت کی تعمیرات میں سے ایک شاندار اور قابل دید ہے ۔ یہاں کتابوں کا بہترین انتخاب ہے، لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس لائبریری کی بدولت علم کی دولت سے مالا مال ہو رہی ہے ۔ لائبریری کے اطراف ایک پر فضا ء اور خوشگوار ہرا بھرا باغ یہاں آنے والوں کو ایک صحت مند ما حول مہیا کرتا ہے ۔کچھ لوگ اس لائبریری کو لیاقت لائبریری کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں ۔
رنگون والا کمیونٹی سینٹر لائبریری
رنگون والا کمیونٹی سینٹر لائبریری کراچی کے ایک پوش علاقے میں واقع ہے ۔اس لائبریری میں اردو ،انگریزی ، اور گجراتی زبان سمیت تقریباً سات ہزار سے زائد کتب کا ذخیرہ موجود ہے ۔اس کے علاوہ اس لائبریری میں عوام کی سہولت کے لئے پڑھنے کو مختلف اخبارات بھی آتے ہیں جن سے علاقے کے لوگ اور طالب علم مستفید ہوتے ہیں ۔اور مختلف پبلشرز کے رسائل جو مختلف موضوعات پر مشتمل ہوتے ہیں اس لائبریری میں موجود ہیں۔
یہاں بھی کتاب پڑھنے کے شوقین اور طالب علم روزآنہ کی بنیاد پر اپنے شوق اور تعلیمی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔ اس لائبریری میں تقریباً ہر موضوع پر کتاب موجود ہے خاص طور پر جدید سائنسی مضامین پر کتب کا ایک اچھا انتخاب یہاں موجود ہے ۔
کراچی اسٹریٹ لائبریری
کراچی میں اپنی نوعیت کی واحد لائبریریاں ہیں جسکی مثال نہیں ملتی ۔ان کی تعداد کل دو ہے ایک لائبریری جس میں سے ایک لائبریری لیاری اور دوسری سول لائنز میں واقع ہے اور ان دونوں لائبریریوں کی خصو صیت یہ ہے کہ یہ چوبیس گھنٹے کھلی رہتی ہیں ۔کراچی شہر کی پہلی اسٹریٹ لائبریری کا افتتاح 2019 ء میں ہوا تھا تب سے ہی یہ لائبریریاں عوام کو 24 گھنٹے کتاب پڑھنے کی سہولت فراہم کر رہی ہیں ۔
یہاں دیوار کے ساتھ لکڑی کے شیلف نصب ہیں اور ان پر کتابیں لگی ہوئی ہیں۔ جہاں آپ کو مختلف موضوعات پر بے شمار کتابیں ملیں گی ۔ان لائبریریوں کو واک ان لائبریری بھی کہتے ہیں ۔ اس قسم کی لائبریری کا مقصد لوگوں میں کتابیں پڑھنے کا شوق پیدا کرنا ہے ۔اور کتاب کلچر کو پروان چڑھانا ہے ۔ جہاں آپ با آسانی اپنی سہولت کے مظابق اپنی پسند کی کتاب حاصل کرکے اپنا شوق پورا کرسکتے ہیں ۔
حسرت موہانی میموریل ہال اور لائبریری
حسرت موہانی تحریک پاکستان کے ایک نامور مجاہد اور مشہور شاعر تھے جنھیں کتابیں پرھنے کا بہت شو ق تھا ان کو جتنے بھی پیسے ملتے وہ ان سے کتابیں خرید لیتے اور اس طرح انہوں نے کتابوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ جمع کر لیا تھا ۔ اور اسی ذخیرہ سے اپنے گھر میں ایک لائبریری بنا لی تھی ۔وہ کتابوں سے بے پناہ محبت رکھتے تھے۔
حسرت موہانی لائبریری اس وقت نارتھ ناظم آباد کراچی میں واقع ہے جو ان کی یاد میں بنائی گئی جس کا قصہ کچھ یوں ہے کہ حسرت موہانی تحریک آزادی کے دوران سیاسی عقائد کی وجہ سے گرفتار ہوئے تو ان کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ اپنی ضمانت کراسکیں لہذا انکی اس وقت کی کل جمع شدہ کتابیں جنکی اس وقت کل مالیت 60 روپے کے قریب بتائی جاتی ہے ،بیچ کر انکی ضمانت کرائی گئی جس کا حسرت موہانی کو بہت زیادہ رنج اور افسوس ہوا ۔بعد میں کئی سالوں کے بعد ان کے گھر والوں نے ان کی یاد میں ایک عوامی لائبریری قائم کی جس سے لوگ مستفید ہو سکیں ۔ اس لائبریری کی بالائی منزل پر ایک ہال بھی موجود ہے جسکو بھی ان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے جہاں انکی یادگاری مجالس کے علاوہ ادبی محافل کا بھی انعقاد ہوتا ہے ۔اس وقت لائبریری میں تقریباً دس ہزار سے زائد کتب کا ذخیرہ موجودہے ۔
علامہ اقبال لائبریری
سرکاری فنڈ سے چلنے والی یہ لائبریری جمشید کوارٹر میں واقع ہے ۔علامہ اقبال لائبریری میں بھی کتابوں کی تعداد ہزاروں میں سے جس سے مختلف شعبہء جات کے طالب علم اور محققین اپنے علم اضافہ فرماتے ہیں۔ یہاں کا ماحول نہایت پر سکون ہے جہاں لوگ نہایت آرام سے مطالعہ کرتے ہیں ۔یہاں کے پر سکون ماحول کی وجہ سے طلباء ، اسکالرز اور محققین اس لائبریری میں آنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس لائبریری میں تقر یباً ہر موضوع پر کتب کا بے شمار خزانہ موجو دہے۔
غالب لائبریری
ناظم آباد بلاک نمبر 2 میں قائم غالب لائبریری ،اردو کے مشہور و معروف شاعر مرزا اسد اللہ غالب کے نام سے منسوب ہے ۔جہاں اردو سے محبت کرنے والوں کے لئے کتب کا بیش بہا خزانہ موجود ہے ۔ غالب لائبریری کی بنیاد مشہور شاعر فیض احمد فیض اور مشہور اسکالر مرزا ظفرالحسن نے رکھی ۔اور اس کی بنیاد غالب کی صد سالہ سالگرہ کے موقع پر 1968 ء میں رکھی ۔لائبریری میں کتب کی تعداد 30 ہزار سے زیادہ ہے ۔مرزا ظفر الحسن اس لائبریری کے سیکریٹری منتخب ہوئے۔
جنہوں نے ملک اور بیرون ملک سے مشہور و معروف ادباء اور شعرا ء کو لیکچر دینے کے لئے بلایا۔ جس وجہ سے لائبریری نے بہت جلد ادبی حلقوں میں شہرت حاصل کر لی اور یہ شہرت اور مقبولیت آج تک قائم ہے۔ یہاں صرف کتب کا ہی ذخیرہ نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ رسائل و جرائد اور خطوط کا بھی بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے ۔جن کو تاریخی اور ادبی اہمیت حا صل ہے۔
لائبریری دو منزلوں پر مشتمل ہے ۔جہاں شہر بھر کے طلباء اور محققین یہاں موجود علم کے ذخیرہ سے اپنے آپ کو مستفید کرتے نظر آئیں گے ۔ اس لائبریری میں اردو ادب کے طالب علموں اور محققین کے لئے بڑا مواد موجود ہے ۔
ڈاکٹر محمود حسین سینٹرل لائبریری
اس لائبریری کی بنیاد 1952 ء میں رکھی گئی یہ کراچی یونیورسٹی کی مرکزی لائبریری ہے جو یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور معروف اسکالر پروفیسر ڈاکٹر محمود حسین کے 1975 ء میں انکے انتقال کے بعد انکی بہترین تعلیمی خدمات کے عوض انکے نام سے موسوم کی گئی ۔یہ لائبریری نہ صرف کراچی یونیورسٹی کی مرکزی لائبریری ہے بلکہ اس کا شمار پاکستان کی سب سے بڑی لائبریری میں ہوتا ہے جس میں تقریباً چار لاکھ کے قریب کتب کے ساتھ ساتھ اسکو چلانے کے لئے اعلی تعلیم یافتہ ،ماہر اور تجربہ کار عملہ موجود ہے ۔چار لاکھ سے زائد کتب کے علاوہ اس لائبریری میں اتنی ہی تعداد میں تحقیقی اور سائنسی رسائل و جرائد کی جلدیں بھی موجود ہیں ۔لائبریری میں مخطوطات کا ایک کثیر ذخیرہ بھی موجود ہے ۔
اس کے علاوہ سولہویں صدی کی کتب بھی اس لائبریری کا حصہ ہیں۔معروف محققین ، مصنفین، اسکالرز ،دانشوروں اورماہرین تعلیم کی ذاتی کتب کے مجموعے بھی اس لائبریری کی رونق میں اضافہ کرتے ہیں اور یہاں آنے والوں کو علم سے سرفراز کرتے ہیں ۔اس لائبریری کا سب سے خاص اور اہم حصہ وہ ہے جہاں قائد اعظم محمد علی جناح بانی پاکستان کی ذاتی کتب کا مجموعہ ہے جس میں تحریک پاکستان کی تصاویر ، پوسٹر ،تحریریںاور دیگر دوسری دستاویزات شامل ہیں جو ہم سب کے لئے ایک قیمتی اثاثہ ہیں ۔ کراچی یونیورسٹی ایک عوامی تحقیقی یونیورسٹی ہے جس میں تقریباً پچاس ہزار سے زائد طلباء زیر تعلیم ہیں اس کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں محققین ، اسکالرز اور علم کے شیدائی جو اس لائبریری سے مستفید ہو رہے ہیں۔
اس لائبریری میں ہر موضوع پر لا تعداد کتب کی موجودگی پڑھنے والے کو اپنی جانب کھنچتی ہے۔اس وقت کراچی یونیورسٹی میں 50 سے زائد شعبہ جات کے علاوہ تقریباً20 ریسرچ سینٹر اور انسٹی ٹیوٹ موجود ہیں جس میں زیر تعلیم طلباء اور اساتذہ اسی لائبریری سے اپنی تعلیمی و تحقیقی سرگرمیوں کو پورا کر رہے ہیں ۔2008 میں، کراچی یونیورسٹی کو پہلی بار THE-QS ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ کے ذریعے دنیا کی ٹاپ 600 یونیورسٹیوں میں شامل کیا گیا۔ 2009 کے دوران، یونیورسٹی کا نام THE-QS ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ کے ذریعے دنیا کی سب سے اوپر 500 یونیورسٹیوں کے لیے رکھا گیا تھا، جب کہ اسے 2016 میں کیو ایس ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ کے ذریعے ایشیا کی ٹاپ 250 اور دنیا میں 701 ویں نمبر پر رکھا گیا تھا۔ . 2019 میں یہ دنیا میں 801 ویں اور ایشیا میں 251 ویں نمبر پر تھا۔ یونیورسٹی برطانیہ کی ایسوسی ایشن آف کامن ویلتھ یونیورسٹیز کی رکن ہے۔
لیاقت میموریل لائبریری
یہ لائبریری 1950 ء میں نیشنل لائبریری آف پاکستان کی برانچ ڈائریکٹوریٹ کے طور پر قائم ہوئی ۔اس لائبریری کو پبلک لائبریری بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ اسکی مالی معاونت حکومت سندھ کرتی ہے ۔ یہ کراچی میں اسٹیڈیم روڈ پر واقع ہے ۔لائبریری میں دو لاکھ سے زیادہ کتابوں کا ذخیرہ موجود ہے ۔1954 میں نیشنل لائبریری کو کاپی رائٹ قانون کے تحت کتا بوں کا ذخیرہ کرنے کا اختیار دیا گیا ۔ پچاس سال سے زائد عرصہ سے یہ لائبریری اپنی خدمات انجام دے رہی ہے اور 1986 ء تک نیشنل لائبریری کی خدمات انجام دیتی رہی۔
اس لائبریری میں کتب کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں پڑھنے والوں کے لئے دیگر مواد جیسے رسائل و جرائد ، رپورٹیں، اخبارات وغیرہ موجود ہیں۔ اس لائبریری میں کتابوں کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے اور کتاب سے محبت رکھنے والوں ، طلباء اور محققین کو مطالعہ کا ایک مثالی ماحول فراہم کرتی ہے ۔لیاقت نیشنل لائبریری لنکن کارنرز کا پاکستانی چیپٹر ہے ۔لنکن کارنرز وہ ادارہ ہے جو اسکالرز شپ اور تعلیمی خدمات کو فروغ دے رہا ہے اور اس ادارے کا نام ابراہم لنکن کے نام پر رکھا گیا ہے ۔
خالق دینا ہال لائبریری
کراچی میں واقع خالق دینا ہال لائبریری کی عمارت 1906 ء میں تعمیر کی گئی تھی ۔جو ایک مشہور و معروف تاجر غلام حسین خالق دینہ کے نام پر ہے یہ ہال غلام حسین اور دوسرے مخیر حضرات کے مالی تعاون سے کراچی کے لوگوں کے لئے ادبی اور سماجی مجالس کے لئے تعمیر کی گئی ۔موجودہ عمارت گر چہ 1906 ء میں تعمیر ہوئی مگر 1856 ء میں خالق دینا لائبریری کی بنیاد مقامی لائبریری کے طور پر رکھی جا چکی تھی ۔یہ وہی ہال ہے جسے 1921 ء میں ٹرائل آف سڈیشن کے لئے بطور عدالت کے استعمال کیا گیا اور برطانوی حکومت نے مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی جوہر پرتحریک خلافت کی حمایت کرنے پر بغاوت کا مقدمہ چلا یا گیا ۔
اسی ہال میں 20 فروری 1949 ء میں پاکستان مسلم لیگ کونسل کا پہلا اجلاس ہوا جس میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم خان ؒیاقت علی خان نے شرکت کی تھی ۔اس وقت یہاں ایک ہال اور ایک لائبریری کام کر رہی ہے ہال کو مختلف سرکاری ادبی و سماجی تقریبات کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور لائبریری میں لوگ اپنے علم کی پیاس بجھانے آتے ہیں لائبریری میں مختلف موضوعات پر بے شمار کتب کا ذخیرہ موجود ہے ۔خاص طور پر تحریک آزادی کے موضوع پر اچھا مواد میسر ہے۔
ڈینسو ہال
صدر ٹاؤن ایم اے جناح روڈ پر واقع یہ لائبریری ہال 1886 ء میں برطانوی دور حکومت میں کراچی کے مقامی باشندوں کے لئے تعمیر کیا گیا تھا ۔کیوں کہ اس سے پہلے تعمیر کی گئی لائبریریاں صرف افسران اور ان کے خاندان کے لوگوں کے لئے مخصو ص تھیں ۔اس لائبریری ہال کا نام 1870 ء میں کراچی چیمبر آف کامرس کی صدارت کرنے والے میکس ڈینسو کے نام پر رکھا گیا تھا ۔
بیت الحکمت
بیت الحکمت یعنی حکمت کا گھر ،پہلے بیت الحکمت کے گھر کی یاد تازہ کرتی ہے جسے 135 اور 158 ہجری (714-737 عیسوی) کے درمیان خلیفہ ابو جعفر المنصور نے بغداد میں قائم کیا تھا۔ بعد میں اسے خلیفہ ہارون الرشید اور خلیفہ مامون رشید نے 14ویں صدی میں تیار کیا۔اسی مناسبت سے اسکا نام بیت الحکمت رکھا گیا۔ لائبریری کا افتتاح 1989 ء اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے کیا ۔جبکہ اس کی بنیاد 1985 ء میں صدر مملکت ضیاء الحق نے رکھی تھی اس کے بانی پاکستان کے معروف علم دوست انسان حکیم محمد سعید تھے۔
جو ایک انسان دوست انسان ہونے کے ساتھ ساتھ علم کے بھی بڑے شیدائی تھے جو پاکستان اور خاص طور پر کراچی کو علم کا حقیقی گہوارہ بنانا چاہتے تھے۔ اس لائبریری میں علم کا ایک بیش بہا خزانہ موجو د ہے ۔بلکہ یہ کہا جائے کہ یہ علم کا ایک گھنا جنگل ہے تو غلط نہ ہوگا ۔یہاں علم سے محبت کرنے والوں کا رش قابل دیدہوتا ہے جو اس لائبریری میں موجود علم کے خزانے سے سے اپنی عملی استعداد میں اضافہ کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں ۔یہ لائبریری کراچی سے 27 کلو میڑدور بند مراد کے مقام پر واقع ہے یہاں لائبریری کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی بھی موجود ہے ۔رداصل بیت الحکمت ایک تعلیمی شہر کی شکل میں تعمیر کیا گیا ہے ۔
تیموریہ لائبریری
نارتھ ناظم آباد کا پرانا نام تیموریہ تھا جو مشہور فاتح امیر تیمور کے نام پر رکھا گیا تھا بعد ازاں اس کا نام تبدیل کرکے پاکستان کے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کے نام پر رکھا گیا ۔ تیموریہ لائبریری بھی نارتھ ناظم آباد کے اسی پرانے نام پر قائم ہے ۔بلاک ایل نارتھ ناظم آباد میں واقع یہ لائبریری طلباء اور محققین کے لئے ایک شاندار اور مثالی لائبریری ہے ۔لائبریری کا ایک سیکشن کنور مختار احمد لاء سیکشن کے نام سے منسوب ہے جہاں قانون کے طلباء اور محققین کے لئے قانون کی کتابوں کا ایک ذخیرہ موجود ہے ۔
لائبریری میں خواتین کے لئے پہلی منزل پر ایک علیحدہ سیکشن موجود ہے ۔لائبریری میں پرانے اخبارات کا بھی ایک الگ سیکشن موجود ہے ۔ اس کے علاوہ بھی ہر فیکلٹی کے لوگ اس لائبریری سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں۔ شہر کے درمیان ہونے کی وجہ سے اس لائبریری میں لوگوں کے لئے آنا نہایت آسان ہے ۔
بیدل لائبریری
شرف آباد کلب کی دوسری منزل پر لائبریری 1974 ء میں قائم ہوئی ۔اور تب سے ہی کتابوں سے محبت کرنے والوں کی خدمت میں سرگرم عمل ہے ۔یہ لائبریری ڈاکٹر محمد ظفیر الحسن نے قائم کی اور اس کا نام فارسی کے شاعر عبدالقادر بیدل کے نام پر رکھا گیا ہے ۔ اس لائبریری میں کتابوں کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے جو اردو ادب کے طلباء اور محققین کی ادبی ضروریات کو پورا کرتی ہے۔ اس سہولت کے دوسرے بڑے حصے میں اخبارات اور رسالے ہیں جو محققین کی بہت مدد کرتے ہیں۔
لائبریری نجی فنڈز سے چلتی ہے۔ بیدل لائبریری کا پہلا حصہ اس کا ریڈنگ روم ہے، جس میں ایک بڑی میز ہے جس کے ارد گرد کتاب سے محبت کرنے والے بیٹھ کر کتابیں پڑھتے ہیں۔اس لائبریر ی میں اردو ادب کے علاوہ دیگر شعبوں کی بھی کتب موجود ہیں ۔ جس میں اردو کے علاوہ دیگر زبانوں کی کتب پڑھنے والے قارئین بھی لائبریری سے مستفید ہوتے ہیں ۔شہر کے پوش علاقے میں واقع یہ لائبریر ی شہر کے دوسرے علاقوں کے طلباء اور محققین کے لئے بھی مطالعہ کی ایک بہترین جگہ ہے ۔