چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کراچی میں کنٹونمنٹ اراضی پر کمرشل سرگرمیوں کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ کراچی میں تمام غیر قانونی عمارتیں مسمار کروا رہے ہیں، کیا سنیما، شادی ہالز، اسکول اور گھر بنانا دفاعی مقاصد ہیں؟
چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔
عدالتِ عظمیٰ نے سیکریٹری دفاع کی رپورٹ غیر تسلی بخش قرار دے دی، جبکہ سیکریٹری دفاع کو 4 ہفتوں میں رپورٹ جمع کرانے کا حکم بھی دیا۔
اٹارنی جنرل کی استدعا پر عدالت نے رپورٹ واپس لینے کی اجازت دے دی۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کار ساز میں بڑی بڑی دیواریں کھڑی کر کے سروس روڈ بھی اندر کر دیئے گئے، کنٹونمنٹ زمین کو مختلف کیٹیگریز میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا، پرل مارکی اور گرینڈ کنونشن ہال ابھی تک برقرار ہیں، کالا پُل کے ساتھ والی دیوار اور گرینڈ کنونشن ہال آج ہی گرائیں، کار ساز اور راشد منہاس روڈ پر اشتہارات کے لیے بڑی بڑی دیواریں بنا دی گئی ہیں۔
سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ میاں ہلال عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہ حکومت کی زمین ہے، اٹارنی جنرل بتائیں وزارتِ دفاع کیسے اس استعمال کو دفاع تک محدود رکھے گی، پورے پاکستان میں کنٹونمنٹ بورڈ کی اراضی پر یہ سلسلہ جاری ہے، سی ایس ڈی کو بھی اب اوپن کمرشل ڈپارٹمنٹل اسٹور بنا دیا گیا ہے، گِزری روڈ پر راتوں رات بلڈنگ کھڑی کر دی گئی، ہم ابھی سو کر نہیں اٹھے تھے کہ انہوں نے بلڈنگ کھڑی کر دی۔
چیف جسٹس پاکستان نے سیکریٹری دفاع سے استفسار کیا کہ ہمیں بتائیں آپ کا آگے کا کیا پلان ہے؟
سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ میاں ہلال نے جواب دیا کہ تینوں سروسز کی کمیٹی بنا دی ہے جو غیر قانونی عمارتوں کی نشاندہی کرے گی۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ اگر یہ غیر قانونی عمارتیں رہیں گی تو باقیوں کے خلاف کیا ایکشن لیں گے؟ یہ فیصلہ ایک روایت بن جائے گا، فوج ریاست کی زمین پر کمرشل سرگرمیاں کیسے کر سکتی ہے؟ ریاست کی زمین کا استحصال نہیں کیا جا سکتا، کنٹونمنٹ کی زمین دفاعی مقاصد پورے ہونے پر حکومت کو واپس کرنی ہوتی ہے، حکومت زمین انہیں واپس کرے گی جن سے حاصل کی گئی ہو، اعلیٰ فوجی افسران کو گھر دینا دفاعی مقاصد میں نہیں آتا۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ اٹارنی جنرل آپ سیکریٹری دفاع کو کہیں کہ جو رپورٹ جمع کرائی ہے یہ درست نہیں، رپورٹ میں لکھا ہے کہ بلڈنگز گرا دی ہیں جبکہ وہاں بلڈنگز کھڑی ہیں۔
سیکریٹری دفاع نے چیف جسٹس کو جواب دیا کہ سر میں موقع پر جا کر تصاویر بنا کر نئی رپورٹ مرتب کروں گا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمارے اور آرمی دونوں کے لیے یہ صورتِ حال باعثِ شرمندگی ہے۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ ہم یہ رپورٹ واپس لیتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے ہدایت دی کہ جامع رپورٹ داخل کریں کہ کنٹونمنٹ کی کون سی زمین کن مقاصد کے لیے ہے، قانون کے مطابق اسٹریٹجک لینڈ صرف ڈیفنس مقاصد کیلئے استعمال ہو گی، تفصیلی رپورٹ 4 ہفتوں میں جمع کرائیں، ایسا نہیں ہو سکتا کہ فوج کی غیر قانونی تعمیرات کو چھوڑ دیں، انہیں چھوڑ دیا تو باقی کو کیسے گرائیں گے؟ اٹارنی جنرل صاحب فوج کو قانون کون سمجھائے گا؟ فوج کے ساتھ قانونی معاونت نہیں ہوتی وہ جو چاہتے ہیں کرتے رہتے ہیں، فوج جن قوانین کا سہارا لے کر کمرشل سرگرمی کرتی ہے وہ غیر آئینی ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سیکریٹری صاحب آپ خود بھی جنرل رہے ہیں، آپ کو تو پتہ ہو گا، قانون کی یہ نیت نہیں کہ دفاع کی زمین کسی اور مقصد کیلئے استعمال ہو، ا گر دفاع کے لیے استعمال نہیں ہو رہی تو یہ زمین واپس حکومت کے پاس جائے گی۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ سیکریٹری صاحب آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ کمرشل استعمال ڈیفنس مقاصد ہیں تو پھر ڈیفنس کس کو کہتے ہیں؟ سیکریٹری صاحب آپ کے آرمی آفیشلز نے زمین خریدی اور بیچ کر چلے گئے، پھر یہ زمین دس ہاتھ آگے بکی، آپ اسے کیسے واپس لیں گے؟