جدید مصر کی ساٹھ سالہ تاریخ میں ملک کی پہلی منتخب آئینی و جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے فوجی قیادت اور صدر مرسی کے سیاسی مخالفین کے درمیان پیشگی ساز باز کی عینی شہادت ایک ایسی شخصیت کی جانب سے منظر عام پر آئی ہے جو خود معاملات میں شریک رہی ہے لہٰذا اس کے بیان کو جھٹلانا ممکن نہیں۔ یہ پچھلے17سال سے امریکن یونیورسٹی قاہرہ کے شعبہ سیاسیات سے وابستہ ڈاکٹر مونا مکارم عَبید ہیں جو حسنی مبارک کے دور میں بھی پارلیمینٹ کی رکن رہیں اور ڈاکٹر مرسی کے دور میں بھی۔ مرسی دور میں وہ دستور ساز کمیٹی میں بھی شامل رہیں اور دوسرے سیکولر و لبرل ارکان کی طرح اس کمیٹی سے مرسی حکومت کے آخری دنوں میں مستعفی ہوئیں۔ ڈاکٹر مونا مکارم، حسنی مبارک کے بعد ملٹری کونسل کی عبوری حکومت میں بھی مشیر کے فرائض انجام دیتی رہیں۔ ڈاکٹر مونا کا تعلق مصر کی قبطی عیسائی کمیونٹی سے ہے۔تین جولائی کو ڈاکٹر مرسی کی حکومت کا جنرل عبدالفتاح السیسی کے ہاتھوں تختہ الٹے جانے کے تقریباً ایک ہفتے بعد 11جولائی کو مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام ”مصر کا سیاسی مستقبل“ کے موضوع پر ہونے والے سیمینار سے خطاب کے دوران اُن کی زبان سے ایک ایسا انکشاف ہوا جس سے یہ حقیقت پوری طرح کھل کر سامنے آگئی ہے کہ مرسی حکومت کے خلاف کسی قابل لحاظ عوامی احتجاج کے آغاز سے پہلے ہی فوجی سربراہ نے مرسی کے مخالفین کے تعاون سے ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کا منصوبہ بنالیا تھا۔ ڈاکٹر مونا مکارم کا یہ خطاب آن لائن موجود ہے۔ انہوں نے سامعین کو بتایا کہ تیس جون کی صبح یعنی فوجی اقدام سے چار دن پہلے انہیں سابق وزیر ہاوٴسنگ حسب اللہ الکفراوی کی رہائش گاہ پر ایک اجلاس میں شرکت کے لئے مدعو کیا گیا۔ واضح رہے کہ کفراوی سابق مصری صدر حسنی مبارک کے بہت قریبی ساتھی رہے ہیں اور ان کے ہاتھوں مصر کا اعلیٰ ترین اعزاز حاصل کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر مونا مکارم کے بقول اس اجلاس میں حسب اللہ الکفراوی کی ساتھ والی نشست پر سابق جنرل فواد علام بیٹھے تھے۔ یہ صاحب حسنی مبارک کے دور میں مصر کی داخلی انٹیلی جنس سروس کے سربراہ رہ چکے ہیں ۔ اخوان المسلمون کے کٹر مخالف ہیں۔ اذیت رسانی کے فن میں دنیا کی ماہر ترین شخصیات میں سے ہونے کی شہرت رکھتے ہیں اور دو عشروں تک مصر کے مذہبی گروپوں کی نگرانی اور گرفتار کئے جانے والے ارکان سے اپنے مخصوص حربوں کے ذریعے تفتیش اور پوچھ گچھ کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔ اس اجلاس کے شرکاء میں ڈاکٹر مونا کے مطابق دو درجن کے قریب سیکولر صحافی، دانشور اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاستداں بھی شامل تھے۔اجلاس شروع ہونے پر ڈاکٹر مونا کے بقول حسب اللہ الکفراوی نے شرکاء کو بتایا کہ وہ فوجی قیادت، قبطی پوپ اور شیخ الازہر سے رابطے میں ہیں اور آرمی چیف جنرل عبدالفتاح السیسی نے رازداری کے ساتھ ان سے فوجی مداخلت کے لئے اپوزیشن کی جانب سے ایک تحریری مطالبہ کی درخواست کی ہے۔ ڈاکٹر مونا کے انکشاف کے مطابق اپوزیشن کی پچاس سے زائد شخصیات کے دستخطوں کے ساتھ یہ تحریری مطالبہ چند گھنٹے کے اندر تیار کر لیا گیا اور تین بجے سہ پہر کے قریب فوج کے حوالے کر کے جنرل سیسی کی فرمائش پوری کر دی گئی۔ واضح رہے کہ تحریر اسکوائر پر مظاہروں کا سلسلہ منتظمین کے پیشگی اعلان کے مطابق اس دن پانچ بجے سے شروع ہونا تھا یعنی جس وقت جنرل عبدالفتاح نے حسنی مبارک کے ساتھی حسب اللہ الکفراوی سے مرسی حکومت کے خاتمے کے لئے فوج کی جانب سے مداخلت کی درخواست پر مشتمل اپوزیشن کے تحریری مطالبے کی فرمائش کی اس وقت صدر مرسی کے خلاف قاہرہ کی سڑکوں پر کسی قابل لحاظ عوامی احتجاج کا آغاز بھی نہیں ہوا تھا۔ ڈاکٹر مونا کے انکشاف سے فوجی قیادت کی نیت کے حوالے سے جو صورتحال سامنے آتی ہے اس کی مزید تصدیق خود جنرل فتاح کے اپنے ایک بیان سے بھی ہوتی ہے۔ جب فوجی قیادت کے اندازوں کے برعکس مرسی کی جائز حکومت اور عوام کے جمہوری حقوق کی بحالی کے لئے ملک بھر میں لاکھوں افراد کے احتجاج کا سلسلہ آٹھ جولائی کو مظاہرین پر فوج کی براہ راست فائرنگ کی کارروائیوں کے بعد بھی (جسے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے بھی قتل عام قرار دیا اور اس کی شدید مذمت کی) نہیں تھما بلکہ بڑھتا ہی چلا گیا تو جنرل سیسی نے 24 جولائی کو اپنے نشری خطاب میں مصری عوام سے اپیل کی کہ وہ فوجی کارروائی کے خلاف کئے جانے والے مظاہروں کی مخالفت میں سڑکوں پر آکر انہیں ”تشدد اور دہشت گردی“ کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا مینڈیٹ فراہم کریں۔ اس موقع پر اپنی پوزیشن بہتر بنانے اور جنرل مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کارروائی کو عوام کی نگاہ میں جائز ٹھہرانے کی خاطر جنرل سیسی نے دعویٰ کیا کہ وہ معزول صدر کے آخر وقت تک وفادار رہے اور انہیں اپوزیشن سے مصالحت پر آمادہ کرنے کے لئے وہ سب کچھ کرتے رہے جو ان کے بس میں تھا۔ اپنی اس نیک نیتی کا یقین دلانے کے لئے جنرل سیسی نے اس خطاب میں مزید کہا کہ ان کی ان ساری کوششوں کے معتبر گواہ موجود ہیں جن میں سابق صدارتی امیدوار اور اسلامی مفکر محمد سلیم اَلعَوا، پارلیمینٹ کے ایوان بالا کے سربراہ احمد فہمی اور ڈاکٹر مرسی کے وزیراعظم ہشام قندیل شامل ہیں، لیکن ریکارڈ پر موجود شواہد کے مطابق ان تینوں شخصیات نے چوبیس گھنٹے کے اندر جنرل فتاح کے اس دعوے کی تردید کر دی۔ ان حقائق کی روشنی میں ہر شخص خود فیصلہ کرسکتا ہے کہ مصر کا فوجی انقلاب مصری عوام کی امنگوں کی تکمیل کے لئے برپا ہوا ہے یا محض ایک سال کی جمہوریت کے بعد اُن پر دوبارہ دور آمریت کے مراعات یافتہ اور مفاد پرست طبقات کی حکمرانی مسلط کرنے کے لئے۔