• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد اُسامہ

قوتو ں، صلاحیتوں، حوصلوں، اُمنگوں ، جفا کشی ،بلند پروازی اور عزائم کا دوسرا نام نوجوانی ہے ۔ جوانی میں ارادے، جذبے اور توانائی اپنے عروج پر ہوتے ہیں، جو ملک و قوم اپنے نوجوانوں کے جذبوں اور توانائی سے استعفادہ حاصل نہ کر سکیں تو وہ خسارے میں رہتی ہے۔ نوجوان ايک اچھے اور طاقتور معاشرے کے معمار بھی بن سکتے ہیں اور اس کو مسمار بھی کرسکتے ہیں۔

بدقسمتی سے آج نوجوانوں کے عزائم و ارادے ماند پڑ گئے ہیں ، اس کے مختلف اسباب اور وجوہات ہیں جن کے باعث وہ مستقل مزاجی کے ساتھ ترقی کا سفر طے نہیں کر پا رہے اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بےکس وبے درماں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ذیل میں چند وجوہ نذر قارئین کر رہے ہیں جن کی وجہ سے نوجوان ترقی کی راہیں عبور نہیں کر پارہے۔

وژن کا نہ ہونا

دنیا میں بڑے اہم کاموں اور منصوبوں کا آغاز ایک خواب ایک سوچ ایک خیال سے ہوتا ہے۔ پاکستان کے قیام کا خواب مفکر پاکستان علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے دیکھا، مسلم لیگ کے قائدین کے سامنے یہ منصوبہ پیش کیا کہ ایک ایسا اسلامی ملک ہو جس میں مسلمان آزادی سے رہ سکیں، پھر بانیانِ پاکستان نے تحریک چلائی بلآخر مسلمانوں کے لیے ایک عظیم نظریاتی مملکت پاکستان کی صورت میں حاصل ہوا.یہ ایک وژن تھا۔ ایک سوچ وفکر تھی جو جان توڑ محنت کے بعد حاصل ہوئی ۔

پاکستان ہے تو ہم ہیں، قائداعظم نے پاکستان بنایا ہم اس کو اس طرح سے قائم نہ رکھ سکے جس طرح وہ چاہتے تھے، نوجوانوں کو ہر شعبہ میں اُن کے وژن کے مطابق چلنا چاہیے تھا۔ لیکن نوجوانوں نے ایسا نہیں کیا۔ وہ ایک انجانے راستے پر آنکھ بند کر چلتے رہے اور چلے جا رہے ہیں۔ اگر آپ کا کوئی وژن نہیں ہے تو آپ زندگی کے سفر کے درست رُخ پر چل ہی نہیں سکتے۔ سب سے پہلے جدید معاشرے میں اپنا مقام تلاش کریں۔ یہ طے کریں کہ آپ کا خواب کیا ہے اور پھر اس کے لیے کمر کس لیں۔وژن کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کو ایک رُخ مل جاتا ہے۔جو راستے کے انتخاب میں راہنمائی کرتا ہے۔

زندگی میں مقصد کا نہ ہونا

زندگی اگر با مقصد نہ ہو تو ایک بوجھ بن جاتی ہے۔خیالات انتشار کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ فیصلہ کی قوت ناپید ہو جاتی ہے۔عملی لحاظ سے سستی اور کاہلی کا شکار ہو جاتےہیں۔ علم ، عمل اور معاملات سے کوئی تعلق نہیں رہتا۔ایسی زندگی انسان کو پستی کی عمیق گہرائیوں میں لے جاتی ہے، لہذا اعلیٰ زندگی کے لیے مقصد کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ مقصد زندگی کے تعین میں اکثر نوجوان کج فہمی کا شکار رہتے ہیں لیکن انہیں اس کا احساس بھی نہیں ہوتا۔زندگی میں ایک خاص مقام اور مقصد حاصل کرنے کے لیے کچھ کوزیادہ محنت کرنا پڑتی ہے اور کچھ کو کم۔ طرح طرح کی مشکلات اورمسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 

 منزل پر صرف وہی پہنچتا ہے جو خندہ پیشانی، عزم، جذبے اور غیرمتزلزل لگن کے ساتھ منزل پر نظر رکھتا ہے۔ زندگی میں جو کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں، جو کچھ بننا چاہتے ہیں، سب سے پہلے اس کا تعین کرنا ضروری ہے۔آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ کل آپ خود کو کہاں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس لیےمقصد پر نظر رکھیں اور اسے حاصل کرنے کے لیے لائحہ عمل ترتیب دیں۔

پلاننگ اورمنصوبہ بندی کا نہ ہونا

حقیقت ہے جواپنے کاموں کی منصوبہ بندی نہیں کرتا وہ دراصل اپنی ناکامیوں کامنصوبہ بندی کرتا ہے ،جب منصوبہ بندی کرنے کے لیے وقت نکالتے ہیں تو نہ صرف مطلوبہ مقصد کا تعین بلکہ اس تک پہنچنے کے لیے ضروری اقدامات بھی کر رہے ہوتے ہیں دراصل منصوبہ بندی ترقی و کامرانی میں اہم کردار ادا کرتی ہے ،جب آپ کا وژن اور مقصدد زندگی متعین ہو جائے گا تو منصوبہ بندی کےساتھ قدم بقدم آگے بڑھیں گے تو کامیابی آپ کی منتظر ہوگی اورایک وقت آئے گا آپ اپنے مشن میں کامیاب ہوجائیں گے۔

رول ماڈل کا نہ ہونا تاریخ میں بیشمار ایسے لوگ ہیں جو کسی سے متاثر نہ ہوتے تو باکمال نہ بن پاتے۔ "کہتے ہیں علامہ محمد اقبال ،مولانا رومی سے متاثر تھے وہ اُنہیں اپنا پیر مانتے تھے "

ایک رول ماڈل وہ ہوتا ہے جو آپ کو اس جیسے ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔ جس کا طرز عمل ، مثال ، یا کامیابی دوسروں کے ذریعہ ہوسکتی ہے ۔ نوجوان ایک مثالی رول ماڈل کا انتخاب کریں۔ ان طریقوں کے بارے میں سوچیں جن میں آپ ان خصوصیات کو ظاہر کرسکتے ہیں جن کی آپ ان میں تعریف کرتے ہیں۔ کامیابی کا پیچھا کرنا کبھی بھی آسان نہیں ہوتا لیکن اگر آپ کسی اور کے نقش قدم پر چلتے ہیں تو یہ آسان ہوسکتا ہے۔ 

کسی ایسے فرد پر فوکس کریں جس کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں اضافے سے آپ متاثر ہوئے ،اُن کے کچھ اقدامات کو ماڈل بنائیں۔ دیکھیں کہ وہ کس طرح مشکلات سے نمٹے یا کتنے عزم کا مظاہرہ کیا ، اس سے آپ کو اس امر کی پیروی کرنے کی تحریک اور ترغیب ملے گی اس کی زندگی کے ہر پہلو کا بغور مطالعہ کریں اور اپنی زندگی کی تعمیر شروع کریں ۔

صلاحيتوں میں اضافہ نہ ہونا

موجودہ دور ٹیکنالوجی کاہے بدقسمتی سے اس ٹیکنالوجی کا استعمال بھی مثبت کم، منفی زیادہ ہو رہا ہے۔ نوجوان اپنا قیمتی وقت غیر ضروری اور لایعنی کاموں میں صرف کر رہے ہیں۔ انٹر نیٹ کے منفی استعمال نےاُن کی ذہنی و فکری استعداد کو بانجھ کرکے رکھ دیا ہے۔ اُن میں تحقیقی و تخلیقی عمل جمود کا شکار ہے۔ انہیں چاہیے اس ٹیکنالوجی کا مثبت استعمال کریں، نت نئے ہنر اور فن سیکھیں ۔ اپنی خوبیوں کو اُجاگر کریںاوران کا عملی مظاہرہ کریں۔

غصے پر قابو نہ رکھنا

نوجوان بات بے بات پر غصے سے بے قابو ہوجاتے ہیں۔ آگ سے آگ نہیں بجھائی جاسکتی اس لئے اگر ایک فریق غصے میں ہے تو دوسرا خود کو ٹھنڈا رکھے ۔ اگر آپ کو غصہ آ ئے تو پانی پی لیں یا پھرسے تھوڑی دیر وہاں سے چلے جائیں اور اپنے غصے پر قابو پانے کی کوشش کریں۔

دوسروں پر الزامات نہ لگائیں۔ اپنی غلطیوں کو قبول کریں ، اگر آپ دوسروں کو مورد الزام قرار دیتے ہیں تو آپ صرف منفی اور غصے کے جذبات میں اضافہ کرتے ہیں۔غصہ جب ختم ہوتاہے تو اپنے پیچھے فقط پشیمانی چھوڑ جاتا ہے لہذا کوشش کریںکہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں اور اپنے اندر برداشت کا مادہ پیدا کریں۔

عرض اور خلاصہ یہ ہےکہ اگر نوجوان درست سمت پر چلنا شروع کردے اور اپنی کمزوریوں ،غلطیوں کا تدارک کر لیںتو نہ صرف اپنے لیے بلکہ مکمل معاشرے کے لیے بھی سود مند ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس کے لیے نوجوانوں کو اپنا راستہ خود منتخب کر نا ہو گا۔

تازہ ترین