کراچی کے ساحل کلفٹن پر پاک و ہند کے اس عظیم صوفی بزرگ سید عبداللہ شاہ غازی ؒکا مزار واقع ہے۔ حال ہی میں مزار کی تعمیر تقریباً مکمل کرلی گئی ہے اور زائرین کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔ مزار کو دلکش اور خوبصورت بھی بنایا گیا ہے ۔
مزار کی از سر نو تعمیر کے لیے پائلنگ کے کام (زمین کی جانچ) کا آغاز نومبر 2012ء میں کیا گیا تھا تاکہ مزار کا اسٹرکچر پائل فائونڈیشن پر بنایاجائے جو ایک بین الاقوامی طریقۂ کار ہے جبکہ اپریل 2013ء میں مزار کے اسٹرکچر کے کاموں کا باقاعدہ آغاز کردیا گیا۔ مزار کا خوبصورت اور دلکش ڈیزائن زاویہ نامی فرم نے تیار کیا ہے اور اس پروجیکٹ کے آرکیٹکٹ نجم الحسن عرف نجمی بھائی تھے جبکہ اسسٹنٹ انجینئر شعیب اسماعیل نے بھی عقیدت اور محبت سے اپنے فرائض انجام دیئے۔
بحریہ ٹائون کی جانب سے ساجد عثمانی اور انجینئر مظاہرالدین ہاشمی بھی اس پروجیکٹ سے وابستہ رہے۔ مزار کی ازسرنوتعمیر کے لئے پچاس کروڑ روپے کی رقم خرچ کی گئی جو بحریہ ٹائون کے ملک ریاض کی جانب سے عطیہ کی گئی۔ مزار اور اس سے ملحقہ مریدوں اور بزرگوں کے قبرستان اور چشمے کو اپنی اصلی حالت میں برقرار رکھا گیا ہے ،یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مزار کی تعمیر کے دوران اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ مزار کسی ایک دن بند نہ ہو اور مزار پر حاضری دینے والوں کا سلسلہ بدستور جاری رہے اور مزار کے اطراف سے گزرنے والی سڑکوں پر ٹریفک کی روانی بھی برقرار رہے۔
تعمیر سے قبل مزار کا مرکزی دروازہ شاہراہ عبداللہ شاہ غازی پر تھا ،لیکن ڈیزائن میں تبدیلی کرتے ہوئے اب مزار کا مرکزی دروازہ شاہراہ عبداللہ شاہ غازی کی چورنگی سے ساحل کی طرف جانے والی شاہراہ عطار کی جانب کر دیا گیا ہے۔ اوپر جانے والی پرانی سیڑھیوں کو مسمار کر کے مزار پر آنے اور جانے کے لیے الگ الگ راستے تعمیر کیے گئے ہیں۔ چار سیکورٹی روم تعمیر کیے گئے ہیں۔ مزار میں زائرین کی حفاظت کے لیے جدید قسم کے سی سی ٹی وی کیمرے اور آلات نصب کیے گئے ہیں جس کی مانیٹرنگ کے لیے پہلی منزل پر کنٹرول روم تعمیر کیا گیا ہے۔
آگ سے حفاظت کے لیے مزار پر فائر فائٹنگ سسٹم بھی نصب کیا گیا ہے۔ چار ایمرجنسی دروازے بھی تعمیر کیے گئے ہیں۔ قبر شریف کے اطراف 600 اسکوائر میٹر کا ایک ہال تعمیر کیا گیا ہے، جہاں بیک وقت 1600افراد فاتحہ خوانی اور قرآن خوانی کرسکتے ہیں۔ اس ہال میں خواتین اور مردوں کے لیے علیحدہ علیحدہ انتظام ہے۔ اس ہال میں موجود ہر فرد کو قبر مبارک براہ راست نظر آتی ہے۔ مزار سے ملحق دومنزلہ مسجد تعمیر کی گئی ہے جس کی ایک منزل پر 800افراد کے نماز ادا کرنے کی گنجائش ہے، اس طرح بیک وقت 1600افراد نماز ادا کر سکیں گے۔
مسجد کے پانچ گنبد ہیں۔ مرکزی گنبد سب سے بڑا ہے اور چار چھوٹے گنبد بھی بنائے گئے ہیں۔ مزار کی نچلی منزل میں جو تاریخی چشمہ موجود ہے ،اس کی تزئین و آرائش کا کام بھی ماسٹر پلان کا حصہ تھا۔ اس چشمے تک جانے کے لیے بزرگ‘ معذور اور بیمار افراد کے لیے ریمپ تعمیر کی گئی ہیں۔ مزار سے ملحق ایک جدید کتب خانہ تعمیر کیا گیا ہے جو دو منزل پر مشتمل ہے اور پہلی منزل سے دوسری منزل پر جانے کے لیے اندر سے ہی راستہ دیا گیا ہے۔ کتب خانے میں اسلامی کتب‘ خاص طور پرتصوّف ‘ فقہ اور صوفیانہ شاعری پر مبنی کتب رکھی جا رہی ہیں۔
مزار میں زائرین کو سہولت فراہم کرنے کے لیے لنگر خانہ‘ وضو خانہ‘ سماع خانہ بھی تعمیر کیا گیا ہے۔ مزار کے احاطے میں پانچ لنگر خانے بھی موجود ہیں، جنہیں مختلف فلاحی اور سماجی ادارے چلا رہے ہیں ۔ صبح ناشتے سے رات کے کھانے تک یہاں مسلسل لنگر دستیاب ہوتا ہے ۔ باقاعدہ کھانا کرسیوں اور میزوں پر فراہم کیا جاتا ہے اور آنے والی زائرین کو اس بات کی سہولت بھی مہیا کی جاتی ہے کہ وہ لنگر میں موجود کھانے کی مختلف ڈشز میں سے کیا کھانا پسند کریں گے۔
یہاں بیک وقت ساڑھے تین ہزار افراد کھانا کھاسکتے ہیں۔ مزار اقدس کی تعمیر میں روزانہ چھ سو کے قریب انجینئرز‘ افسران اور مزدوروں نے کام کیا ہے اور تزئین و آرائش کا کام 2019 ء میں مکمل کرلیا گیا ہے۔ مزار کے عملے کے لیے اسٹاف روم بھی تعمیر کیا ہے جس میں بیک وقت دس افراد اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے ہمہ وقت موجود رہ سکتے ہیں۔
مزار کے آرکیٹکٹ کے مطابق عبداللہ شاہ غازی کے مزار سے ملحق لال شاہ کے مزار کی بھی تزئین و آرائش کی گئی ہے۔ شاہراہ عبداللہ شاہ غازی پر موجود پھول‘ چادروں‘ تبرکات کی دکانیں ختم کرکے نئی مارکیٹ تعمیر کی گئی ہے، ان میں کچھ دکانیں کھانے کی اشیاء اور لنگر کی دیگوں کی تیاری کے لئے مختص ہیں۔ مزار کی چاردیواری کو بم پروف بنایا گیا ہے ،اس طرح مزار ایک گیٹڈ سوسائٹی ہے ،جب مزار کے بیرونی دروازے بند کر دیے جائیں گے تو کوئی بھی شخص مزار کے احاطے میں داخل نہیں ہوسکتا۔
مزار کی تیزی سے تعمیر کے لیے پری کاسٹ پینل بنائے گئے تھے جو مختلف سائز میں تیار کیے جاتے تھے اور جنہیں وہاں لا کر فکس کر دیا جاتا ہے۔ اس کے لیے مزار سے ملحق ہی یارڈ بنایا گیا تھا۔ مزار کا فرش سنگِ مرمر سے تعمیر کیا گیا ہے اور باقی حصوں پر امپورٹڈ ٹائلز لگائی گئی ہیں۔ فرش پر جو سنگ مرمر اور ٹائلیں لگائی گئی ہیں وہ دھوپ سے گرم نہیں ہوتیں۔
آیۃ الکرسی اور مختلف قرآنی آیات لکھی ہوئی ٹائلیں ترکی سے منگوائی گئی تھیں اور مزار کے لئے مقامی طور پر بھی خاص ٹائلیں تیار کی گئیں۔ مزار کے تقدس اور ترکی سے منگوائی گئیں ٹائلوں سے ہم آہنگ کرکے ان ٹائلوں کو مختلف رنگوں سے مزین کیا۔ مزار کے گنبد پر جو ٹائلیں لگائی گئی تھیں، وہ سمندری ہوا کے باعث خراب ہونا شروع ہوگئی تھیں اور ان کا رنگ خراب ہونا شروع ہوگیا تھا جس کے باعث نئی ٹائلز لگائی جا رہی ہیں ۔
مزار سے ملحق ایک قبرستان بھی ہے جسے اصلی حالت میں ہی برقرار رکھا گیا ہے، لیکن اس قبرستان کو مزار سے ہم آہنگ بنانے کے لیے تعمیراتی کام کیا گیا ہے اور کاشی کاری سے مزین ٹائلیں لگائی گئی ہیں۔ مزار کا لوئر لیول 16فٹ کا ہے جس کا ایریا 18500اسکوائر فٹ ہے۔ میز نائن فلور کا ایریا 39فٹ ہے۔ مزار کے احاطے میں طبی سہولیات کے لیے بھی جگہ مختص کی گئی ہے جو ایک ہزار اسکوائر فٹ پر مشتمل ہے۔
جبکہ وسیع کچن اور اسٹور کے لیے بھی جگہ مختص کی گئی ہے۔ مزار سے ملحق پارکنگ ایریا میں بیک وقت 80گاڑیاں ا ور سیکڑوں موٹرسائیکلیں کھڑی کرنے کی گنجائش ہے۔ 15فروری 2012ء کو سندھ کے سابق گورنر ڈاکٹر عشرت العباد خان نے سابق صوبائی وزیر اوقاف عبدالحسیب خان‘ اس کے وقت ایڈمنسٹریٹر کراچی محمد حسین سید اور سیکریٹری مذہبی امور و اوقاف عابد علی شاہ کے ہمراہ مزار کا دورہ کیا اور مزار کی تعمیر کا جائزہ لیتے ہوئے مختلف ہدایات جاری کی تھیں۔
مزار اقدس کے مکین حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ کے بارے میں جاننا بھی ضروری ہے، تاکہ ہمیں اندازہ ہوسکے کہ انہوں نے دین اسلام اور اس کی ترویج اشاعت کے لئے کیا کیا خدمات انجام دی ہیں۔
حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ 138 ہجری میں سندھ تشریف لائے اور 13سال تک دین کی تبلیغ کی۔ آپ کا نام سید عبداللہ غازی کنیت ابو محمد اور لقب الاشتر ہے۔ آپ کی ولادت98ہجری میں سید محمدنفس ذکیہ کے ہاں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ یہ بنو امیہ کی حکومت کا آخری دور تھا۔ عباسی دور حکومت میں جب جنگی حالات تھے آپ کو 151ہجری میں دریائے سندھ کے کنارے شہید کر دیا گیا۔ خادمین آپ کے جسد خاکی کو کلفٹن میں واقع اس مقام پر لے آئے جہاں آج مزار واقع ہے۔ یہ ایک پہاڑی ٹیلہ تھا ،جہاں آپ کی تدفین کر دی گئی۔
اس زمانے میں کراچی اور اس کے قرب و جوار میں میٹھا پانی دستیاب نہیں تھا۔ آپ کے ساتھیوں نے آپ کا مزار اس پہاڑی پر بنایا، تاکہ وہ یہاں سے دور نہ جائیں۔ انہوں نے مزار کے قرب و جوار میں ہی رہنا شروع کر دیا اور ساتھ ساتھ میٹھے پانی کی تلاش بھی جاری رکھی، میٹھا پانی یہاں دستیاب ہوتا تو انہیں ملتا جس کے باعث یہ لوگ بے انتہا فکر مند او رپریشانی سے دو چار ہوگئے۔ بعد ازاں مزار کی پہاڑی کے نیچے کھارے پانی کے درمیان میٹھے پانی کا چشمہ جاری ہوگیا۔ یہ میٹھے پانی کا چشمہ اسی وقت سے اس مقام پر موجود ہے۔ کہتے ہیں کہ اس پانی میں شفا ہے۔
حضرت عبداللہ شاہ غازی کا تین روزہ سالانہ عرس ہر سال 20سے 22ذوالحجہ کے درمیان انتہائی عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے۔بلدیہ عظمیٰ کراچی کی جانب سے اس دن مقامی تعطیل کی جاتی ہے۔ محافل نعت اور قوالی تینوں دن ہوتی ہیں۔ دھمال ڈالے جاتے ہیں‘ ڈالیاں آتی ہیں‘ لنگر تقسیم کیے جاتے ہیں۔
2005ء میں حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ کے مزار کے سامنے سے گزرنے والی سڑک جس کا نام شاہراہ فردوسی تھا ، سٹی کونسل کراچی کی منظوری سے اسے تبدیل کر کے شاہراہ عبداللہ شاہ غازی رکھا گیا ،تاکہ وادی مہران کے عظیم صوفی بزرگ عبداللہ شاہ غازیؒ کو خراج عقیدت پیش کیا جا سکے۔ یہاں یہ ذکر بے جا نہ ہوگا کہ محکمہ اوقاف حکومت سندھ کراچی میں28صوفیائے کرام کے مزارات اور 24بڑی مساجد کی دیکھ بھال کرتا ہے اور حضرت لعل شہباز قلندرؒ اور حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒسمیت صوبہ سندھ کی 82درگاہوں اور مزارات کا بھی انتظام و انصرام بھی کرتا ہے، لیکن ان سب میں کراچی میں واقع حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ کے مزار کو مرکزیت حاصل ہے۔ اس لیے یہاں سارا سال عقیدت مندوں کا ہجوم رہتا ہے اور نوجوان‘ بوڑھے ‘ بچے اور خواتین جوق در جوق یہاںآتے ہیں۔
مزار کے نچلے حصّے میں ’’دادی اماں‘‘ نامی ایک مجذوب خاتون رہائش پذیر تھیں، جن سے دعائوں کی درخواست کرنے کے لیے ملک بھر سے بڑے بڑے سیاستداں‘ بیورو کریٹ اور معززین آتے تھے۔ بعض لوگوں کو وہ اپنی جانب سے دُعا کے ساتھ سر پر ہاتھ پھیرتیں اور آٹھنی یا ایک روپیہ کا سکہ بھی دے دیتی، لوگ انتہائی عقیدت سے یہ سکے ان سے لیتے، لیکن بعض زائرین سے وہ قطعی بات نہ کرتیں اور نہ ہی ان کی جانب متوجہ ہوتیں۔ دادی اماں 1971ء میں ہجرت کر کے کراچی آئی تھیں اور مزار اقدس کو اپنا مسکن بنا لیا تھا‘ ان کا اصل نام رشیدہ عرشی تھا اور وہ ڈھاکا یونیورسٹی میں لیکچرار ہونے کے ساتھ ساتھ معروف ناول نگار بھی تھیں۔
ابتداء میں انہوں نے گھر سے بھاگ کر آنے والی لڑکیوں کو سمجھا بجھا کر ان کے گھر واپس پہنچانے کا کام کیا اور سیکڑوں لڑکیوں کو تباہ و برباد ہونے سے بچا لیا۔ ان کی مزار سے عقیدت اور خدمات کے اعتراف میں محکمۂ اوقاف نے مزار کے نیچے دو کمرے بنوا دیئے، جہاں انہوں نے مستقل رہائش اختیار کر لی۔ دادی اماں کا تعلق دہلی سوداگران سے تھا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی زندگی کو اس مزار تک محدود کر لیا اور 25 اکتوبر 2011ء میں یہیں ان کا انتقال ہوا اور تدفین بھی اسی مقام پر ہوئی ،جہاں وہ قیام پذیر تھیں۔
حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ کے مزار سے ذرا نیچے آئیں تو وہاں بھی مختلف بزرگوں کی قبریں موجود ہیں‘ ان میں اکثر قبریں نادر شاہ نامی شخص کے خاندان کے ان لوگوں کی ہیں جو اس مزار کے متولی ہوتے تھے، جبکہ مزار کے احاطے میں ایک قبرستان بھی واقع ہے، قبرستان میں معروف شخصیات مدفون ہے، جن میں پاکستان کے پہلے سیکریٹری خارجہ اور تحریک پاکستان کے ممتاز رہنما شائستہ اکرام اللہ کے شوہر اکرام اللہ، محترمہ شیریں بائی، ممتاز ماہر تعلیم قاضی محمد فرید، محترمہ شیریں جناح کے فرزند اکبر جعفر، سابق وفاقی سیکریٹری مسرت حسین زبیری، ممتاز عالم دین ، جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ علامہ شاہ احمد نورانیؒ‘ معروف نعت خواں الحاج خورشید احمد‘ یوسف میمن، معروف ٹی وی اینکر اور ممبر قومی اسمبلی عامر لیاقت حسین کی والدہ بیگم محمودہ سلطانہ اور والد شیخ لیاقت حسین اور دیگر شامل ہیں۔ 6 اکتوبر 2021 ء کو اسی قبرستان میں ملک کے معروف اداکار عمر شریف کی تدفین بھی اسی قبرستان میں عمل میں لائی گئی جو ان کی وصیت کے مطابق تھی۔