لاہور کے قومی حلقہ 133میں پیپلزپارٹی کی مقبولیت کا گراف اوپر ہونے پر جنوبی پنجاب میں بھی پیپلزپارٹی کے حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی،کارکنوں نے خوشی سے بھنگڑے ڈالے اور ان کے اندر جومایوسی اور بے دلی تھی ،وہ بڑی حدتک ختم ہوکررہ گئی ہے ،اب یہ توقع کی جارہی ہے کہ خانیوال کے صوبائی حلقہ 206کے ضمنی انتخاب میں پیپلزپارٹی پہلے سے کہیں زیادہ ووٹ لے کر لاہور کی طرح یہ ثابت کرے گی کہ اس کا احیاء ہورہا ہے۔
سیاسی حلقے اس بات پر حیران ہیں کہ عام انتخابات میں پانچ ہزار ووٹ لینے والی پارٹی نے 32ہزارسے زائد ووٹ کیسے حاصل کرلئے ،وہ بھی لاہور جیسے شہر سے کہ جہاں مسلم لیگ ن کا گہرا اثرورسوخ ہے اور اس حلقہ 133میں تو ہمیشہ مسلم لیگ ن فتح یاب رہی ہے ، پیپلزپارٹی کے رہنما ووٹ زیادہ لینے کو اس بات سے بھی جوڑ رہے ہیں کہ بلاول بھٹو کی قیادت پر عوام کا اعتماد قائم ہورہا ہے اور انہوں نے جو عوامی رابطہ مہم چلائی ہے ،اس کے اثرات سامنے آنے لگے ہیں ،گویا یہ سمجھا جارہا ہے کہ2018ء میں چونکہ پیپلزپارٹی کی قیادت ایک واضح رہنما سے محروم تھی ،اس لئے اسے وہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی، جو ماضی میں حاصل ہوتی رہی ہے۔
لاہور کے انتخاب نے پیپلزپارٹی کے تن مردہ میں گویا جان ڈال دی ہے اور کہا یہ جاتا ہے کہ جس کی مقبولیت کا گراف لاہور میں اونچا ہوجائے ،اس کا پورے پنجاب میں ڈنکا بجنے لگتا ہے ،بعض لوگوں کا خیال ہے کہ تحریک انصاف چونکہ انتخابی میدان میں موجود نہیں تھی ،اس لئے پیپلزپارٹی کو زیادہ ووٹ پڑے ،تو کیا ان کا مطلب یہ ہے وہ سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف کا ووٹ پیپلزپارٹی کو پڑ سکتا ہے ؟ اور کیا یہ ووٹ بغض مسلم لیگ میں ڈالا گیا ہے ؟ایسا شاید نہیں ہے ،کیونکہ تحریک انصاف کا ووٹر پیپلزپارٹی کے امیدوار کو ووٹ کیوں دے گا ،جبکہ عمران خان دونوں جماعتوں کو اپنے تیروتفن کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔
یہ ووٹر وہ نکلا ہے ،جو پیپلزپارٹی سے بددل ہوکر گھروں میں بیٹھ گیا تھا اور اپنی قیادت سے مایوس تھا ،اب حالات نے اسے مجبور کیا ہے کہ وہ سیاسی خلاء کو پورا کرنے کے لئے پیپلزپارٹی کے پیچھے کھڑا ہو ، ایک ضمنی انتخاب میں پیپلزپارٹی کا اتنی بڑی تعداد میں ووٹ لینا ،اس سیاسی تبدیلی کو ظاہر کررہا ہے ، جو ووٹر کے ذہن میں جنم لے رہی ہے ،یہ اس تبدیلی کا بہت بڑا اشارہ ہے اور یہ خود مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے لئے بھی ایک خطرے کی گھنٹی ہے ،کیونکہ اگر پیپلزپارٹی کی مقبولیت اسی طرح بڑھی ،توعام انتخابات میں ایک بڑا سیٹ اپ ہوگا ، اس الیکشن سے پہلے سب کا خیال تھا کہ پیپلزپارٹی صرف سندھ تک محدود ہوگئی ہے ،لیکن اب آصف علی زرداری کی وہ بات درست ہوتی نظرآتی ہے کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرے گی اور آئندہ انتخابات کے بعد پنجاب کا تخت بھی پیپلزپارٹی کی دسترس میں ہوگا۔
اس تناظر میں اگر خانیوال کا ضمنی انتخاب پیپلزپارٹی کی اسی لہر کے تحت کسی بڑے اپ سیٹ کا باعث بنتا ہےاور یہاں بھی پیپلزپارٹی کا ناراض ووٹر اپنی پارٹی کے ساتھ آکھڑا ہوتا ہے ،تو ایک اچھاووٹ و نتیجہ پیپلزپارٹی کا مقدر بن سکتا ہے، پیپلزپارٹی کے وائس چئیرمین یوسف رضا گیلانی رابطہ عوام مہم کے سلسلہ میں خاصے متحرک نظر آرہے ہیں ،وہ جنوبی پنجاب کے مختلف شہروں کے دورے کرکے پارٹی کو منظم کرنے کی کوشش کررہے ہیں، اس سلسلہ میں ان کا ہدف ہمیشہ حکومت اور اس کی پالیسیاں رہی ہیں ، گزشتہ دنوں وہ لودھراں کے دورے پر گئے ،تو وہاں انہوں نے کارکنوں اور رہنماؤں کے ساتھ بھرپور وقت گذارا۔
میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت نے ملک کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا ہے ، سٹیٹ بنک کی خود مختاری ختم کی جارہی ہے ،ایسے قوانین زبردستی پاس کرائے جارہے ہیں ،جو قومی مفاد میں نہیں ہیں ، ہم ایسی قانون سازی کی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ،عدالتوں میں بھرپور مخالفت کریں گے ، ای وی ایم کے ذریعے انتخابات کرانے کا منصوبہ دراصل پری پول دھاندلی ہے ،جس کے ذریعے حکومت اگلے انتخاب کو بھی چرانا چاہتی ہے، مگر ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے اور اس منصوبے کو اپوزیشن کے ساتھ مل کر ناکام بنائیں گے ،انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی ہی اب اس ملک کو بحرانوں سے نکال سکتی ہے اور بلاول بھٹو کی قیادت میں ہم آئندہ انتخابات میں ایک بڑی اکثریت کے ساتھ فتح یاب ہوں گے۔
یوسف رضا گیلانی ملتان میں بیٹھ کر خانیوال کے ضنی انتخاب کی مسلسل نگرانی کررہے ہیں ،انہوں نے ملتان سے بڑے عہدے داروں کی ایک ٹیم خانیوال بھیجی ہے اور اسے یہ ٹاسک دیا ہے کہ وہ انتخابی مہم اس طرح چلائے کہ لاہورکی طرح خانیوال میں بھی پیپلزپارٹی ایک بڑی جماعت کے طور پر دوبارہ اپنی مقبولیت کو منوالے ، اگر وسطی پنجاب میں کہ جہاں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کا زور سمجھا جاتا ہے ، پیپلزپارٹی اپنی مقبولیت کا گراف بلند کرسکتی ہے ،تو جنوبی پنجاب میں جو ہمیشہ پیپلزپارٹی کا مرکز رہا ہے، وہاں ایک بڑی اکثریت کیوں حاصل نہیں کی جاسکتی۔
ادھر سیالکوٹ کے واقعہ پر ملتان سمیت جنوبی پنجاب میں بھی غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی اور ہر طبقہ فکر کے افراد نے اسے بہیمانہ اورسفاک عمل قرار دے کراس کی مذمت کی ،ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ توہین مذہب کا الزام لگا کر کسی کو مارنے پر پوری قوم نے بیک زباں ہوکراسے ایک گھناؤنا فعل قراردیا ہے، یہ مذہبی جماعتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ توہین مذہب کی آڑ لے کر اپنے مذموم مقاصد پورا کرنے والوں سے اظہارلاتعلقی کرے ،ملتان میں لوگوں نے اس واقعہ کو انسانیت سوز قرار دے کر حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس میں ملوث تمام کرداروں کو قانون کے مطابق کڑی سے کڑی سزاد ی جائے ۔