• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

اشیائے ضروریہ: آسمان کو چھوتی قیمتوں نے عوام کو بے بس کردیا

وطنِ عزیز کی سیاست کے ماحول میں حکومت ایک ایسی ’’سموگ‘‘ میں مبتلا دکھائی دے رہی ہے جس سے عوام کا سانس لینا دشوار نظر آ رہا ہے۔یوں محسوس ہو رہا ہے کہ آئی ایم ایف کی ’’سنگ دل شرائط‘‘ نے نہ صرف معیشت کو ’’زبوں حالی‘‘ کا شکار کر رکھا ہے بلکہ معاشی منصوبہ سازی کے حکومتی ماہرین کو بھی اپنے من مانے ضابطوں کے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ حکمران جماعت ابتداء سے لیکر اب تک معیشت کو سدھارنے کے معاملہ میں ’’تذبذب‘‘ کی دستار پہنے ہی نظر آتی رہی ہے۔ انتخابی ایجنڈے میں جس معاشی منصوبہ بندی کے دعوئوں کے ساتھ ایک وفاقی وزیر کو ’’چمپئن‘‘ بنا کر میدان میں لایا گیا تھا وہ اقتدار کے پہلے مرحلے میں ہی چاروں شانے چت ہو گئے تھے۔ 

سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بعدازاں حکومت نے معاشی میدان کو دانستہ طور پر بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے سپرد کر دیا اور اس ادارے میں ’’خصوصی پروگرام‘‘ کے نمائندے کے طور پر کام کرنے والے پیپلز پارٹی کے دور حکومت کے وزیر خزانہ کو اپنی کابینہ میں شامل کر لیا اور پھر سینٹ کے انتخابات میں ان کی شکست نے انہیں حکومت سے دور کر دیا۔ یار لوگوں کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بنک کے گورنر کی نامزدگی نے یہ بات ثابت کر دی کہ بین الاقوامی ادارے نے ہماری ملکی معیشت کا سارا نظام اپنے کنٹرول میں لے لیا اور پھر مذکورہ گورنر اسٹیٹ بنک کے مشورے سے ایک دوسرے سابق وفاقی وزیر کو اس منصب پر مشیر کے طور پر لگا دیا گیا جسے اب آئی ایم ایف کے نئے معاہدے کے تحت سینٹ کی ٹکٹ دے کر وفاقی وزیر بنایا جا رہا ہے۔

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہونے والے بار بار کے اضافہ نے مہنگائی کی وہ صورتحال برپا کر دی ہے کہ عوام کےلئے جسم وجاں کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ آٹا، چینی، گھی اور دیگر اشیائے ضروریات کی آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتوں نے مجبور عوام کو بے بسی اور بے کسی کے مقام پر کھڑا کر دیا ہے اور آئے روز مہنگائی سے ستائے ہوئے لوگ خودکشیاں کرتے نظر آ رہے ہیں ۔ حکومتی وزراء اس ناقابل برداشت مہنگائی کا اعتراف بھی کرتے ہیں لیکن ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ وہ اس معاملہ میں خود بھی بے بس ہیں اور آئی ایم ایف کے مذاکرات سے طے ہونے والے معاہدے کی وجہ سے ان کے اور ان کے ’’کپتان‘‘ کے پاس عوام کے لئے طفل تسلیوں اور ’’گھبرانا نہیں‘‘ کے علاوہ کوئی جواب نہیں ہے۔ 

وفاقی دارالحکومت کے سیاسی اور سرکاری حلقوں میں معیشت کے اعدادوشمار کو متضاد دعوئوں کے ساتھ بیان کرنے والے ایک نوجوان وفاقی وزیر کی سرگرمیوں کو ہر محفل میں زیر بحث لایا جا رہا ہے ۔وہ وزیر اعظم کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اس حد تک حکومت کا دفاع کرتے نظر آ رہے ہیں کہ ان کے ساتھی بھی یہ تبصرہ کر رہے ہیں کہ وہ کے پی کے سے تعلق رکھنے والے ’’کپتان‘‘ کے منظور نظر وفاقی وزیر مواصلات سے بھی آگے نکلنے کی کوشش میں ہیں۔ 

کابینہ کے ایک وفاقی وزیر نے ان کے بارے میں سرکاری ڈنر میں دیگر ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان سے اپنی وزارت تو سنبھالی نہیں جاتی لیکن وہ دوسری وزارتوں کے معاملات میں بےجا مداخلت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف نے ملکی معیشت کی صورتحال کو زمینی حقائق کے تناظر میں جس انداز میں پیش کیا ہے اس نے عوام و خواص کی آنکھیں کھول کر رکھ دی ہیں۔ انہوں نے حکومت ریکارڈ اور سرکاری دستاویزات کے ثبوتوں کے ساتھ یہ واشگاف اعلان کیا ہے کہ حکومت نے قرضے لینے کا ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے اور ملکی معیشت اور اقتصادیات کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ 

انہوں نے تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے انتالیس(39)ماہ میں بیس (20)ہزار ارب کے نئے قرضے لئے ہیں جبکہ اکہتر (71) سال میں تیس(30)ہزار کے قرضے مختلف حکومتوں نے لئے۔گیس کے بحران اور پٹرولیم مصنوعات کے علاوہ دیگر اشیائے ضروریات کی قیمتوں میں ہوشربا ء اضافے اور حکومت کی بے حسی کے بارے میں مسلم لیگ (ن) کے صدر نے واضح اور دو ٹوک انداز میں کہا کہ حکومت سردی میں گیس کے بحران کے معاملے میں عوام کو مشکلات میں ڈال کر سردی کو ’’سرد مہری ‘‘ سے ڈیل کر رہی ہے ۔ انہوں نے حکومت کو خبردار کرتے ہوئے زور دے کر وارننگ دی کہ معاشی تباہی ملکوں کا شیرازہ بکھیر دیتی ہے اور اس سلسلہ میں انہوں نے سلطنتِ عثمانیہ اور روس کی مثالیں دے کر وضاحت کی۔ 

سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے جس درد مندی سے اس بدترین صورتحال کا اظہار کیا ہے اس سے عوام اور سرکاری حلقوں میں یہ بات محسوس کی جا رہی ہے کہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں ’’گڈگورننس‘‘ اور فلاحی عوامی منصوبوں کے ذریعے جو دیرپا اثرات مرتب کئے تھے وہ موجودہ حکومت کے لئے اب تک ایک بارگراں کی حیثیت اختیار کئے ہوئے ہیں۔صوبائی دارالحکومت بھی این اے 133کے ضمنی انتخاب کی وجہ سے سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا۔

حکومتی پارٹی کے امیدوار نے شکست کے خوف سے جیسے راہ فرار اختیار کی اس کے بھی تمام پہلو سیاسی حلقوں میں بحث کا موضوع بنے رہے۔ البتہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کے حریف کے طور پر سامنے تھیں۔ گو مسلم لیگ (ن) نے یہ میدان مار لیا لیکن پیپلز پارٹی نے جتنے توقع سے زیادہ ووٹ حاصل کئے اس سے کئی سوالات ابھر کر سامنے آئے۔

صوبائی دارالحکومت میں سیالکوٹ میں ہونے والے سری لنکا کے شہری کی وحشیانہ ہلاکت کے سانحے نے بھی حکومت کی لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کے مخدوش ہونے کا عندیہ دیا ہے۔ صوبے میں بار بار اعلیٰ کلیدی عہدوں پر اعلیٰ افسران کے تبادلوں کے باوجود حکومت ہر معاملے کو سنبھالنے میں لاچار دکھائی دے رہی ہے۔ سانحہ سیالکوٹ کے المیے نے بین الاقوامی سطح پر بھی وطن عزیز کے لئے ایک کڑا امتحان کھڑا کر دیا ہے ۔

تازہ ترین
تازہ ترین