گزشتہ ہفتہ سے پاک بھارت کشیدگی عروج پر ہے۔ بھارت کے جنرل، وزیر دفاع، وزیر خارجہ اور دیگر سیاستدان پاکستان کے خلاف دھمکیوں پر دھمکیاں دیئے چلے جا رہے ہیں جبکہ جوابی کارروائی میں پاکستان کے اندر سے بھی منہ توڑ جواب دینے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ کنٹرول لائن سمیت پاک بھارت سرحد کے بعض مقامات پر فائرنگ کے تبادلے اور دونوں جانب سے سول اور فوجی ہلاکتوں کا الزام ہے۔ دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن پر بھی مظاہرین نے حملہ کرنے کی کوشش کی ہے تاہم اس تمام تر کشیدگی کے بعد بھی وزیراعظم میاں نواز شریف کا کہنا یہ ہے کہ بھارت صبر و تحمّل سے کام لے۔ کشیدگی سے دونوں ممالک میں سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا جبکہ اس دوران یو این او کے سیکرٹری جنرل نے اسلام آباد دورے کے دوران کہا ہے کہ ”وہ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کے لئے تیار ہیں“۔
ہم سیکرٹری جنرل بان کی مون کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی ہے تاہم ہم سیکرٹری جنرل کو یہ یاد دلانا چاہتے ہیں کہ وہ کسی گاؤں کے نمبردار یا کسی ملک کے ایلچی نہیں کہ محض ثالثی کی بات کریں بلکہ وہ یو این او (اقوام متحدہ) کے سیکرٹری جنرل ہیں جن کے اختیارات، حیثیت اور اہمیت دنیا بھر کے تمام ممالک کے سربراہوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ وہ طاقتور عہدے کے حامل شخص ہیں لہٰذا انہیں ثالثی کی پیشکش کرنے کے بجائے اقوام متحدہ کی ان تسلیم شدہ قراردادوں پر عملدرآمد کی بات کرنی چاہئے جو 60 برس سے عالمی برادری اور خود بھارت سے تسلیم شدہ ہونے کے باوجود ہنوز غیر موٴثر ہیں۔
پاک بھارت کشیدگی کا ذکر جو ہم نے کیا اور اس وقت بھارتی سرکار اور پاکستانی حکمرانوں کی گفتگو کا پہلا لفظ اور میڈیا کی شہ سرخیاں ہے، اس پر ہمارا تجزیہ ہے کہ پاک بھارت کشیدگی کی حالیہ لہر ایک ”مصنوعی بحران“ ہے جو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پیدا کیا گیا ہے چونکہ 2014ء بھارت میں عام انتخابات کا سال ہے اور اس سال افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا پروگرام بھی ہے جبکہ تیسری جانب پاکستان میں ایک نئی منتخب حکومت قائم ہوئی ہے جس کے ساتھ بھارتی سرکار کو آئندہ پانچ برسوں کے لئے تعلقات کی نوعیت کو بھی طے کرنا ہے لہٰذا بھارتی سرکار اور اپوزیشن کشیدگی کا ہوّا کھڑا کر کے ایک طرف 2014ء کے عام انتخابات جیتنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ بی جے پی کے نامزد وزیراعظم کے امیدوار نریندر مودی اور کانگریس کے ممکنہ وزیراعظم کے امیدوار راہول گاندھی کے پاکستان کے خلاف غم اور غصے سے بھرے بیانات بتا رہے ہیں کہ دونوں رہنما پاکستان دشمنی کا شور مچا کر بھارت کے ووٹرز کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں جبکہ دوسری جانب افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا کے بعد امریکہ جو کردار بھارت کو دینا چاہتا ہے پاکستان کو اس پر تشویش ہے لہٰذا یہاں امریکہ اور بھارت دونوں کے ”سازشی دماغ“ چاہتے ہیں کہ پاکستان پر سرحدی کشیدگی کے الزام کا اس قدر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ افغانستان میں بھارت کے نمایاں کردار کو تسلیم کر لے۔ علاوہ ازیں وزیراعظم میاں نواز شریف کی حکومت کو بھی نیو دہلی سرکار دباؤ میں رکھنا چاہتی ہے تاکہ پاکستان، بھارت کی آبی جارحیت اور مسئلہ کشمیر جیسے بنیادی تنازعات اور ایشوز پر زیادہ گرم جوشی یا جوش و خروش کا مظاہرہ نہ کر سکے۔
جبکہ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ پاک بھارت کشیدگی کا مصنوعی بحران پیدا کرنے میں جہاں ”را“ اور ”سی آئی اے“ سمیت بھارت اور امریکہ کے سفارت کار اور دیگر جنگی جنونی میں ملوث ہیں وہیں انجانے میں وزیراعظم میاں نواز شریف کی خارجہ پالیسی بھی کام کر رہی ہے۔ ”پاک بھارت دوستی“ میاں صاحب کی بہت بڑی خواہش ہے۔ میاں صاحب کا شاید یہ خیال ہے کہ وہ پاکستان کے پہلے حکمران ہیں کہ جو بھارت کے ساتھ پوری نیک نیتی اور بھرپور خلوص کے ساتھ دوستی کے خواہشمند ہیں اور اس طرح سے ان کی نیک تمناؤں اور جذبہ خیرسگالی کو بھارت میں پذیرائی ملے گی جس کے لئے میاں صاحب نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے ساتھ ہی سابق سیکرٹری خارجہ شہریار خان کو خصوصی ایلچی بنا کر بھارت بھیجا۔ خصوصی ایلچی نے وزیراعظم من موہن سنگھ سے ملاقات کی، خط پہنچایا اور پاکستان دورے کی دعوت دی مگر بھارتی وزیراعظم محتاط رہے اور ایک ماہ بعد پاک بھارت کشیدگی کا موجودہ منظر ظاہر ہو گیا۔ حالانکہ اس سے پہلے وزیراعظم میاں نواز شریف بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے اور ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا خفیہ چینل دوبارہ کھولنے کے واضح اشارے کر چکے تھے۔
ہم یہاں میاں صاحب کی یہ غلط فہمی بھی دور کرتے چلیں کہ وہ پاکستان کے پہلے حکمران ہیں کہ جو بھارت کے ساتھ خوشگوار دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں بلکہ بانیٴ پاکستان حضرت قائداعظم سے لے کر میاں صاحب تک ہر پاکستانی حکمران یہی چاہتا تھا کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر ہوں مگر دوسری جانب بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو سے لے کر وزیراعظم من موہن سنگھ تک ہر حکمران کی یہ خواہش اور کوشش تھی کہ پاکستان کو صفحہٴ ہستی سے مٹا دیا جائے جس کے لئے بھارت نے پاکستان پر چار مرتبہ جنگ مسلط کی اور پھر 1971ء کی جنگ میں مشرقی پاکستان کو توڑ کر بنگلہ دیش بنا ڈالا جبکہ آج بھی بھارت 65 برس گزر جانے کے باوجود پاکستان کی ”شہ رگ“ کشمیر کو اپنے ناجائز تسلط میں رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان کی جانب بہتے دریاؤں پر ڈیم باندھ رہا ہے اور مزید یہ کہ بلوچستان میں بھارت کی خفیہ ایجنسی ”را“ مقامی آلہ کاروں کے ساتھ مل کر دہشت گردی اور تخریب کاری کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ افغانستان میں موجود بھارتی قونصل خانے صدر کرزئی کی اجازت اور امریکی جرنیلوں کے تعاون سے پاکستان کو غیر محفوظ اور غیر مستحکم کرنے میں مصروف ہیں۔
بہرحال بھارت، پاکستان کا کتنا دوست اور کتنا دشمن ہے؟ اس کا تاریخی ریکارڈ موجود ہے۔ امریکہ، پاکستان کے خلاف کس طرح کے عزائم رکھتا ہے؟ اس کے بھی گواہ اور ثبوت ہیں لہٰذا ان تمام صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیراعظم میاں نواز شریف کی حکومت کو بھارت اور امریکہ کے بارے میں حقیقت پسندی اور سنجیدگی کی پالیسی اختیار کرنی چاہئے کیونکہ یہ طے شدہ اصول ہے کہ امن کبھی یکطرفہ خواہش سے قائم نہیں ہوتا۔ امن کے لئے برابری کی بنیاد، دوطرفہ تعاون اور بنیادی تنازعات کا حل ہونا ضروری ہے۔
”مسئلہ کشمیر“ کی موجودگی میں دوستی کی بس ہو یا تجارت کا ٹرک، سفیروں کے تبادلے ہوں یا فنکاروں کے راگ، وزرائے خارجہ کے مذاکرات ہوں یا وزرائے اعظم کے عشایئے اس طرح سے پہلے کچھ ہوا نہ آئندہ کچھ ہو گا لہٰذا پائیدار اور حقیقی امن کی طرف پیشرفت کرنے کے لئے لازم ہے کہ بھارت کے ساتھ دوستی کی خواہش کو مسئلہ کشمیر کے حل کے ساتھ مشروط کر دیا جائے، بصورت دیگر بھارت اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے پاکستان پر کشیدگی کے مصنوعی دباؤ کو ایک ہتھیار اور حربے کے طور پر وقتاً فوقتاً استعمال کرتا رہے گا۔ امید ہے کہ خارجہ پالیسی کے اہداف میں دوسروں کی خوشنودی حاصل کرنے سے پہلے ”قومی مفادات کی حفاظت“ کو ترجیح دی جائے گی۔