رضوانہ وسیم
ایمبولینس کی گونجتی آواز سن کر فلیٹوں کی کھڑکیوں سے بہت سے لوگ باہر جھانک کر دیکھنے لگے اور ذرا سی دیر میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ زرینہ آنٹی کے بیٹے قاسم نے ساتویں منزل سے چھلانگ لگا کر خودکشی کر لی ہے۔ قاسم جو ملازمت کے حصول کے لیے ایک کمپنی میں انٹرویو کے لیے گیا تھا اپنی ناکامی سے دلبرداشتہ ہوکر اسی آفس کی بلڈنگ سے کود کر اس نے اپنی جان دے دی۔
وہ میرے بیٹے کا ہم عمر تھا۔ گریجویشن کے بعد کافی عرصے سے اپنی سی وی لیے ملازمت کی تلاش میں دربدر بھٹک رہا تھا۔ اس کے پاس نہ تو سفارش تھی اور نہ ہی رشوت دینے کے لیے پیسہ، اس لیے ہر جگہ ناکامی اس کا منہ چڑاتی تھی۔ دو دن پہلے وہ میرے بیٹے سے ملنے آیا تو بہت پریشان اور مایوس تھا کہنے لگا کہ میں نے نا مساعد حالات میں تعلیم مکمل کی لیکن اب کہیں بھی میرے لیے ملازمت نہیں ہے۔ میرے بیٹے نے اس کو بہت تسلی دی اور کہاکہ یہ تو ہم تمام نوجوانوں کا مسئلہ ہے، اللہ بہتر کرے گا ۔
لیکن وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھا کہنے لگا دل چاہتا ہے کہ اس ڈگری کو آگ لگا دوں ،کاغذ کے اس قیمتی ٹکڑے کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہی ۔دراصل قاسم کے گھر کے حالات بھی پریشان کن تھے، بوڑھے والدین علاج ودوا اور گھر کے اخراجات قرض کا بوجھ اس کے لئے سوہان روح تھا وہ خود کو بہت بے بس محسوس کر رہا تھا۔ سارا دن بسوں کے دھکے کھاتا جگہ جگہ نوکری کے لیے خوار ہوتا پھر تا تھا ۔ پے درپے ناکامیوں کے بعداب اس نے امید کا دامن چھوڑ دیا تھا اور مایوسی اس پر غالب آ گئی تھی، اسی لیے اس نے یہ انتہائی قدم اٹھایا ۔ ہر کوئی اس جواں مرگ پر آبدیدہ تھا۔
کسی بھی قوم کا سب سے قیمتی سرمایہ اس کی نوجوان نسل ہوتی ہے ، ان ہی پر مستقبل کا دارومدا ر ہوتاہے،ان ہی سے امیدیں وابستہ ہوتی ہیں، اگر یہی نوجوان نسل یاس وقنوط کا شکار ہوکر حوصلہ ہار بیٹھیں، مسائل کا بہادری اور حوصلہ مندی سے سامنا کرنے اور انھیں حکمت ودانش سے حل کرنے کے بجائے راہِ فرار اختیار کرنے لگیں، حتیٰ کہ یاسیت کی اس انتہا کو پہنچ جائیں کہ اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی کو ختم کرنے کا رجحان ان میں پنپنے لگے تو یہ کسی بھی قوم کے لیے انتہائی تشویش کی بات ہے۔ہمارے معاشرے میں ا یسے واقعات اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ نوجوانوں میں خودکشی کا رجحان بڑی تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ اُن میں منفی خیالات ا و ررجحانات کا نمو پانا خود اس بات کی دلیل ہے کہ یقیناً ہمارے تعلیمی اور سماجی نظام میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہم ان تمام مسائل کا ذمہ دار کسے ٹھہرائیں؟ والدین کتنی مشکل سے اپنے بچوں کو پڑھا لکھا کر کسی قابل بناتے ہیں، مگر جب وہ عملی زندگی میں ناکام ہوتے ہیں تو پھر ایسے ہی حادثات رو نما ہوتے ہیں ، جیسے ہورہے ہیں۔ نوجوان یا تو خود کشی کررہے ہیں یا جرائم کی دنیاکا حصہ بن رہے ہیں اور بعض اوقات بااثر مفاد پرست لوگوں کے ہاتھوں کھلونا بن جاتے ہیں۔ بربادی ہر حال میں نوجوانوں ہی کی ہو رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کا حل کیا ہے ؟
اگر یاسیت یا اضطراب نوجوانوں کو خود کشی پر مائل کر رہے ہیں تو اس سوال کا پیدا ہونا فطری بات ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ یہ پہلے والدین اور پھر اساتذہ کی ذمہ داری ہے۔ بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہےبعد ازاں اسکول میں داخلے کے بعد اساتذہ پر ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ بچوں ان کی ذہنی حالت کا صحیح ادراک کریں۔ ان میں محنت اور جستجو کی اہمیت کو اجاگر کریں، اُنہیں بتائیں کہ مسلسل محنت و جستجو سے مشکل سے مشکل کام آسان اور ناممکن کوممکن بنایا جاسکتا ہے۔ خود کشی کبھی مسائل کا حل نہیں ہوتی۔یہ ایک بزدلانہ اور حرام فعل ہے ۔
مشکلات و مسائل سے فرار اختیار کرنا اور اپنی جان گنوا بیٹھنا کوئی بڑی بات نہیں بلکہ اُن کا مقابلہ کرنا بڑی بات ہے۔ دین اسلام میں مایوسی کا کوئی تصور نہیں لیکن آج کی نوجوان نسل کو دیکھ کر اُن کے رویّوں سے اندازہ ہوتا کہ اللہ کی ذات پر انھیں کامل بھروسہ نہیں رہا جس کی وجہ سے وہ خودکشی جیسے حرام فعل کے مرتکب ہورہے ہیں۔ فکرونظر اور سوچ و عمل کے اس فساد کا نتیجہ یہ ہے کہ دین کو ہم نے ’برکت‘ تک محدود کردیا ہے اور دنیا ہماری ’حرکت‘ بن گئی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے دین کو بالائے طاق رکھ کر مغرب کی اندھا دھند تقلید شروع کر دی ہےحالانکہ ہم جانتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس میں کہیں جھول نہیں یہاں ہمیں ہر مسئلے کا حل ملتا ہے۔ بچپن سے لے کر بڑھاپے تک کے واضح احکامات اس میں موجود ہیں۔
معاشرتی اصول و ضوابط بھی اس طرح وضع کیے گئے ہیں کہ جن پر عمل کرکے نہ والدین پریشان ہوںنہ اولاد۔ وقت کا تقاضا ہے کہ والدین اور اساتذہ بچوں کو اچھے اور برے کی تمیز بتائیں۔ نوجوانوں کو بھی درست سمت کا تعین کرنا ہوگا۔ خودکشی کرنے والے نوجوانوں کو اگر دین کی سمجھ ہو تی تو وہ کبھی مایوسی کے اندھیرے میں نہ ڈوبتے۔ اللہ پر توکل اور محنت انہیں پرعزم رکھتی ۔نوجوان ایسے راستوں کا انتخاب کریں جولاکھوں کے جم غفیر میں بھی انھیں صحیح سمت اور منزل کی جانب لے جائیں۔ اس کے لیے سب سے پہلے تو سوچیں کہ تعلیم کا واحد مقصد محض روزگار ،کا حصول نہیں ہے۔
ظاہر ہے کہ کالجوں، یونیورسٹیوں کی سیٹیں بھی محدود ہوتی ہیں، اور نوکریاں بھی ،تو کیوں نہ پہلے سے ہی اس کے لیے تیار رہا جائے۔ علم حاصل کرنا بہرحال ضروری ہے ،خواہ ملازمت کرنا مقصود ہو یا نہ ہو، پھر یہ کہ علم کبھی رائیگاں نہیں جاتا، بس سچی لگن اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔زندگی کے بہت سے شعبے ایسے ہیں، جہاں محض نامور تعلیمی اداروں کی ڈگریاں کام نہیں آتیں ،بلکہ وہاں اصل امتحان قابلیت اور صلاحیت کا ہوتاہے۔خودروزگار اور ذاتی کاروبار میں ظاہر ہے صلاحیت اور قابلیت ہی کی اہمیت ہوتی ہے۔
مثبت اور صحیح سمت کا تعین ہی کامیابی کا پہلازینہ ہے خلوص محبت ایمانداری اور شوق انسان کو اس کی منزل پر پہنچا ہی دیتا ہے اپنی زندگی کی ترتیب کو درست کرنے کے لئے زیرو سے شروع کریں ناممکن کا لفظ اپنی زندگی سے نکال د یں ، کبھی مایوس ہوکر اپنے ہاتھوں زندگی ختم کرنے کا نہ سوچیں۔ یاد رکھیں، یہ اللہ کی امانت ہے۔
جان دی دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا