• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موہن جودڑو... 17 سو قبل مسیح کا ایک تاریخی شہر

وادیٔ سندھ کی تہذیب کا شمار چند ابتدائی تہذیبوں میں ہوتا ہے اور موہن جو دڑو اس قدیم تہذیب کا ایک مرکز تھا۔1700قبل مسیح میں اُجڑنے والے اس شہر کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ موہنجودڑو، صوبہ سندھ میں لاڑکانہ کے قریب واقع ہے۔ اس بار سیّاحت کے لیے ہم نے اسی اُجڑے دیار کا قصد کیا اور شام چھے بجے فیض آباد، راول پنڈی سےچلنے والی بس میں سوار ہوگئے۔ 13گھنٹے کے طویل سفر کے بعد صبح سات بجے لاڑکانہ بس اسٹاپ پر اُترے، تو ہمارے دیرینہ دوست اور میزبان اسماعیل بلوچ منتظر تھے۔ 

انہوں نے ہمارا پُرتپاک خیرمقدم کیا۔ ان کے گھر پہنچ کے پہلے پُرتکلف ناشتا کیا اور پھر مختصر سی تیاری کے بعد وادئ سندھ کی پانچ ہزار سال پرانی تہذیب، موہنجودڑو دیکھنے روانہ ہوگئے۔ صوبہ سندھ، پنجاب اور خیبر پختون خوا کو باہم منسلک کرنے والی شاہ راہ، انڈس ہائی وے کا سفر انتہائی آرام دہ ہے اور موہن جو دڑو تک سڑک کی حالت بھی خاصی بہتر ہے۔

لاڑکانہ کا شمار پاکستان کے گرم ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔ یہاں 31مئی 1998ء کو درجۂ حرارت 52.2ڈگری ریکارڈ کیا گیا تھا، لیکن یہاں کے عوام نے6جنوری 2006ء میں ایک ایسا دن بھی دیکھا، جب اتنی سردی پڑی کہ درجۂ حرارت منفی ایک ڈگری ہوگیا۔ موہن جو دڑو اور بھٹو خاندان کے سبب پہچانا جانے والا لاڑکانہ شہر، سکھر سے 95کلومیٹر دُور ہے اور لاڑکانہ سے 28کلومیٹر دُور گڑھی خدا بخش میں بھٹو خاندان کا آبائی قبرستان ہے۔ اس تاریخی عمارت میں پاکستان کے دو سابق وزرائے اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے علاوہ بھٹو خاندان کے دیگر افراد آسودئہ خاک ہیں۔

تقریباً 40منٹ کے سفر کے بعد ہم موہن جو دڑو کے مرکزی دروازے پر پہنچ گئے۔ اردو، انگریزی اور سندھی میں تحریر سائن بورڈ آنے والے سیاحوں کو خوش آمدید کہہ رہا تھا۔ گاڑی پارک کرنے کے بعد مرکزی دروازے سے موہن جو دڑو پارک میں داخل ہوئے، تو سرکاری گائیڈ، اللہ دتّو نے مسکرا کر خیرمقدم کیا اور اپنے مخصوص لب و لہجے میں اس قدیم شہر سے متعلق معلومات کا خزانہ لٹانا شروع کردیا۔ انہوں نے بتایا کہ ’’موہنجودڑو کا شہر2600قبل مسیح میں موجود تھا اور 1700قبل مسیح میں نامعلوم وجوہ کی بنا پر ختم ہوا یا اُجڑ گیا۔ 

ماہرین کے مطابق، دریائے سندھ کے رُخ کی تبدیلی، سیلاب، بیرونی حملہ یا زلزلہ اس کی اہم وجوہ ہو سکتی ہیں۔ موہن جو دڑو کو 1922ء میں برطانوی ماہرِ آثارِ قدیمہ، سرجان مارشل نے دریافت کیا۔ ان کی گاڑی آج بھی موہن جو دڑو کے عجائب خانے کی زینت ہے۔ ’’موہن جو دڑو‘‘ سندھی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب ہے ’’مُردوں کا ٹیلہ۔‘‘ یہ شہر بڑی ترتیب سے بسایا گیا تھا۔ یہاں کی گلیاں کشادہ اور سیدھی ہیں، جب کہ پانی اور سیوریج کی نکاسی کا بھی مناسب

انتظام تھا۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں چالیس سے پچاس ہزار کے لگ بھگ افراد تھے۔ موہن جودڑو کا قلعہ ایک ٹیلے پر واقع ہے، جو جنوب میں سطحِ زمین سے بیس فٹ اور شمال میں چالیس فٹ اونچا ہے۔ جب یہ شہر آباد تھا، اُس وقت قلعے کی مشرقی دیوار کے پاس سے دریا کی ایک شاخ گزرتی تھی۔ زیرِ زمین پانی کی سطح اونچی ہونے کی وجہ سے مکمل کھدائی نہیں ہوسکی۔ تاہم، اب تک کی کھدائی سے اوپر سے نیچے تک سات سطحیں ملی ہیں۔ ساتویں سطح سے نیچے کھدائی نہیں ہوسکی۔ قلعے کے برج میں بعض جگہ لکڑی کے شہتیر کا رَدا لگایا گیا ہے۔ 

جو نو فٹ لمبا اور پانچ فٹ چوڑا ہے، لیکن بعد میں یہ شہتیر گَل گئے، تو کہیں کہیں اینٹیں لگا کر مرمّت کردی گئی۔ شہتیروں کا یہ عجیب و غریب استعمال ہڑپہ کے اناج گھر میں بھی کیا گیا ہے۔ اس جگہ سے مٹّی کے چھے اور بارہ اونس کے 100 باٹ بھی ملے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ شہر 7 مرتبہ اجڑا اور دوبارہ بسایا گیا، جس کی اہم ترین وجہ غالباً دریائے سندھ کا سیلاب تھا۔ نیز، یہاں کے آثار کو یونیسکو نے 1980ء میں عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا۔‘‘

گائیڈ، موہن جو دڑو کے حوالے سے تفصیلات بتارہا تھا اور ہم سب اُس کی معلومات کی روشنی میں دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہے تھے۔ یوں محسوس ہورہا تھا، جیسے ہم پانچ ہزار برس پہلے کی دنیا میں پہنچ گئے ہیں۔ موہن جو دڑو کی یہ بستی یا شہر چھے سات محلّوں پر مشتمل اور دو حصّوں میں منقسم ہے۔ ایک بالائی شہر اور ایک نشیبی۔ ہم نے پہلے نشیبی شہر کا رُخ کیا، یہاں محض دس فی صد کھدائی کے دوران اب تک 700کنویں برآمد ہوچکے ہیں۔ قریب ہی مکانات کی کچھ دیواریں نظر آئیں، جنہیں محکمہ آثارِ قدیمہ کی طرف سے پکّا کیا گیا ہے، باقی کچّی حالت میں ہیں۔ 

ساڑھے چار ہزار سال پُرانے اِن مکانات میں سے ایک مکان کا ہال خاصا بڑا ہے۔ ساتھ ہی اندر کی جانب کچّی اینٹوں سے تعمیر کردہ چھے فٹ کی گیلری ہے، کچّی اینٹوں کا استعمال غالباً انسولیشن کے لیے کیا گیا تھا تاکہ کمرا ٹھنڈا رہے۔ کمرے کے اندر سیڑھیاں بھی اُتر رہی ہیں۔ اس دو منزلہ مکان کا اوپری حصّہ تباہ ہوچکا ہے۔ اُس دَور کے مکینوں نے ہرمکان میں کچھ حصّہ گیلری کے طور پر خالی چھوڑا ہوا تھا۔ اناج گھر کے جنوب میں ایک بہت بڑا زینہ بھی ملا ہے، جو 22 فٹ چوڑا ہے۔

یہ زمین سے شروع ہو کر قلعے کی سب سے اونچی سطح تک جاتا ہے۔ زینے کے قریب ایک بڑاکنواں ہے۔ اس سے آگے چند دیواروں کے اندر بہت سے کنویں ہیں۔ علاقے کے بیش تر کنویں کمرے کے اندر ہی بنائے جاتے تھے، تاکہ پانی، گردوغبار اور مضر اثرات سے محفوظ رہے۔تمام مکانات ایک ہی رَو میں ترتیب سے بنے ہوئے ہیں، ہر مکان میں کشادہ کھڑکی کا بطورِ خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ یہاں ہر گلی کی دیوار کے اندر چھوٹی چھوٹی محراب نما جگہ نظر آئی، جس کے بارے میں بتایاگیا کہ ان جگہوں پر دِیے رکھے جاتے تھے، جورات کے وقت روشنی پھیلاتے تھے۔ہر گلی کے نکڑ پرپختہ اینٹوں سے گڑھے بنائے گئے تھے،جہاں کچرا پھینکا جاتا تھا۔ 

گائیڈ نے ہمیں ایک بڑے کمرے کے ساتھ ایک چھوٹا کمرا دکھایا، جو ایک اٹیچڈ باتھ لگ رہا تھا، یعنی آج سے ہزاروں سال پہلے بھی اٹیچڈ باتھ کا تصوّر موجود تھا۔ یہاں باورچی خانے میں استعمال ہونے والے کچھ برتن بھی نظر آئے۔ غالباً دنیا میں پہلی بیل گاڑی ان ہی لوگوں نے بنائی تھی، جو کھدائی کے دوران برآمد ہوئی۔ یہاں کے درودیوار پر کسی قسم کے کریکس نہیں تھے، جو اس بات کی غمّازی کرتے ہیں کہ یہ شہر کم از کم زلزلے سے تو تباہ نہیں ہوا۔ 

ماہرینِ آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ قریب سے بہنے والے دریا کا پانی چڑھنے اور بستی تک پہنچ جانے کی وجہ سے، وہ لوگ نقل مکانی کرگئے تھے۔ ہمارے ایک سوال کے جواب میں گائیڈنے بتایا کہ ’’کچھ عرصہ قبل تک سیّاحوں کی رہنمائی کے لیے یہاں مختلف مقامات پر سائن بورڈز نصب کیے گئے تھے، مگر افسوس کہ سیّاحوں نے وہ سائن بورڈز بھی اکھاڑ پھینکے۔ 

یہاں آنے والے زیادہ تر سیّاح سیلفیز لینے کے لیے دیواروں پر چڑھتے ہیں، جس سے اینٹیں اور گارا اُکھڑ جاتا ہے، اس کے علاوہ متعدد افراد کے دیواروں سے گر کر زخمی ہونے کے واقعات بھی ہوچکے ہیں۔‘‘ کمیونٹی ہال اور مارکیٹ کی جگہ دکھانے کے بعد ایک قدرے چوڑی جگہ پر رُک کر گائیڈ نے بتایا کہ ’’یہ اُس دَور کا موٹر وے تھا، ان راستوں پر وہ بیل گاڑیاں چلایا کرتے تھے کہ 35میٹر چوڑی شاہ راہ پر اُس وقت بیل گاڑی کے علاوہ تو کوئی اور ٹریفک ہوتی ہی نہیں تھی، البتہ سڑک کے دونوں جانب وہ عارضی دکانیں ضرور لگاتے ہوں گے۔‘‘

موہن جو دڑو میں گھومتے پھرتے ہمیں ہرگز یہ محسوس نہ ہوا کہ ہم واقعتاً کسی اُجڑے ہوئے، مُردہ شہر میں ہیں۔ یوں محسوس ہورہا تھا کہ اب بھی یہاں اہلیانِ موہن جودڑو موجود ہیں اور اچانک کسی گھر سے کوئی باشندہ باہر آجائے گا۔ کہنے کو تو یہ مُردوں کا بے جان اور خاموش ٹیلہ ہے، مگر ہمیں اس کے بالکل برعکس معلوم ہوا کہ یہ شہر تو باتیں کرتا ہے بلکہ خوب باتیں کرتا ہے، اُس دَور کے مکانات میں سادگی اور پختگی نظر آتی ہے۔ 

تمام رہائشی مکانات آرام دہ تھے، گھروں کی بنیادیں گہری تھیں، غرض یہ کہ یہاں کے باشندے زندگی گزارنے کے بہترین اصولوں سے اچھی طرح واقف تھے۔ اُن میں فن کارانہ صلاحیتیں بدرجۂ اتم موجود تھیں، وہ فنِ تعمیر کے ماہر تھے، یقیناً اُن کی بنائی ہوئی اشیاء نفاست اور خُوب صُورتی میں بھی اپنی مثال آپ ہوتی ہوں گی۔ الغرض، یہاں کے کھنڈرات میں اُن تمام سہولتوں کے نشانات ملتے ہیں، جو اُس زمانے کا عام انسان تصور ہی کرسکتا تھا۔

نشیبی شہر گھمانے کے بعد گائیڈ ہمیں بالائی طرف لے آیا۔ اس وقت تک ہمارے کپڑے اور جوتے مٹّی میں بُری طرح اَٹ چکے تھے۔ بالائی شہر سے نشیب کی طرف دیکھنے سے ایک گول عمارت نظر آتی ہے، یہ اسٹوپا ہے۔ کہتے ہیں کہ موہن جو دڑو شہر کے خاتمے کے بعد یہاں دوسری صدی عیسوی میں بدھ مت کی پیروکار قوم آباد ہوئی، جنہوں نے اینٹوں سے اسٹوپا تعمیر کرکے اس کے اندر اپنا مندر یا عبادت خانہ تعمیر کیا۔ کھدائی کے دوران یہاں کچھ قلم اور تختیاں بھی ملی ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں اسکولز اور کالجز بھی تھے۔ ایک وسیع و عریض احاطے سے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہاں سوئمنگ پول ہوا کرتا تھا، جب کہ ساتھ ایک غلّہ منڈی سے گندم کے دانے بھی ملے ہیں، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ لوگ کاشت کاری کرتے تھے۔

’’ہزاروں سال پہلے کے گندم کے دانے آج تک کیسے محفوظ رہے؟‘‘ ہم نے گائیڈ سے استفسار کیا، تو اس نے بتایا کہ ’’گندم کو محفوظ کرنے کے لیے یقیناً انہوں نے کوئی دوا یا کیمیکل استعمال کیا ہوگا، شاید اسی وجہ سے گندم کے دانے کسی حد تک محفوظ رہے۔ البتہ اُن کا رنگ سیاہ ہوچکا ہے اور اب اسی حالت میں یہاں کے میوزیم میں موجود ہیں۔ 

اسٹوپا کے دوسری جانب فوجی کالونی آباد تھی، جہاں پتھر کے گولے، کلہاڑیاں اور تلواریں رکھی ہیں۔ جس وقت ہم اس ٹیلے کے سامنے پہنچے، تو گائیڈ نے بتایا کہ بیس روپے کے نوٹ کی پشت پر جو تصویر ہے، وہ اسی ٹیلے کی ہے۔ آج بیس روپے کے نوٹ کا منظر حقیقت میں ہمارے سامنے تھا اور ہم بنفسِ نفیس اُسے ملاحظہ کررہے تھے۔

’’10فی صد کھدائی کے بعد کیا اب ایسا کوئی منصوبہ ہے کہ مزید کھدائی کی جائے، تاکہ کچھ اور نایاب نوادرات مل سکیں۔‘‘ ہمارے اس سوال کے جواب میں گائیڈ نے بتایا کہ ’’ابھی مشکل ہے، کیوں کہ پچاس فٹ کھدائی کے بعد یہاں زمین سے پانی نکل آتا ہے، دریائے سندھ کے قریب ہونے کی وجہ سے پانی کا لیول اوپر ہی ہوتا ہے، اگر اس علاقے میں ٹیوب ویل لگا دیئے جائیں، تو کھدائی کا چانس بن سکتا ہے۔ 1922ء سے 1933ء تک کھدائی ہوئی، پھر 1947ء سے 1955ء تک پھر1964ء اور 1965ء میں اور پھر آخری مرتبہ 1987ء اور1988ء میں کھدائی کا کام ہوا۔ 

یہ سب ملا کر دس فی صد بنتا ہے۔ ان ادوار کے بعد یہاں کوئی کھدائی نہیں ہوئی اور حقیقتاً شہر کا بہت کم حصّہ ابھی تک کھودا گیا ہے، خاص طور پر جس طرح بدھ اسٹوپا جوں کا توں کھڑا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اگر مزید کھدائی ہو، تو نیچے کچھ ایسی اہم عمارتیں یا اہم مواد بھی مل جائے، جو ہمارے علم میں اضافہ کرے۔ کھدائی کے دوران کچھ سکّے بھی ملے ہیں۔ یہ دنیا کی پہلی قوم تھی، جس نے کپڑے کا استعمال کیا بلکہ خود کپڑا بنایا۔ یہاں بادشاہ کا ایک مجسّمہ ملا ہے، جس کے جسم پر کپڑے کی شال ہے، مجسّمے کے سر پر تاج ہے، تاج کے علاوہ اس نے جو فیبرک پہنا ہوا ہے، اس پر پھول بنے ہیں۔ 

مجسّمے میں بادشاہ کے چہرے پر داڑھی ہے، مگر مونچھیں صاف ہیں۔ یہ مجسمہ نشیبی اور بالائی شہر کے درمیان نصب ہے۔ مرکزی گیٹ کے بائیں جانب بیل گاڑی کا ماڈل بھی نصب کیا گیا ہے۔ اگرچہ یہاں سے ضروریاتِ زندگی کی بہت سی اشیاء مل چکی ہیں، جن سے اُس دَور کی بود و باش کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، مگر ایک راز اب بھی سربستہ ہے، اور وہ ہے، رسم الخط۔ جسے دنیا بھر کے ماہرین نے پڑھنے کی کوشش کی، لیکن خاطر خواہ کام یابی نہیں ہوئی۔ شنید ہے کہ جس دن یہ رسم الخط سمجھ لیا گیا، ہمارے ہاتھ بیش بہا معلومات آجائیں گی۔

نشیبی اور بالائی حصّے کے تفصیلی وزٹ کے بعد آگے بڑھے، تو سامنے ہی مرکزی دروازہ تھا۔ گیٹ کے اوپر ’’موہن جو دڑو‘‘ انگریزی میں تحریر تھا۔ دروازے سے باہر کی جانب کچھ ہی فاصلے پر ایک میوزیم ہے، جہاں بہت سے نوادرات موجود ہیں۔ نوادرات دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ہزاروں سال قبل کے لوگ کانسی اور دھات کے استعمال سے بھی بخوبی واقف تھے۔ میوزیم میں داخل ہوں، تو سامنے ایک بہت بڑی تصویر آویزاں ہے، جس میں دکھایا گیاہے کہ پانچ ہزار سال پہلے کا موہن جو دڑو شہر کیسا تھا۔ تصویر میں گنجان، پختہ گھر اور پختہ راستے ہیں اور شہر کے عوام کو گلیوں اور سڑکوں پر گھومتے پھرتے دکھا یا گیا ہے۔ 

میوزیم میں 12سو کے قریب مُہریں بھی موجود ہیں، تاہم اُن کی تحریریں اب تک سربستہ راز ہیں۔ اکثر مُہروں پر جانوروں اور بُتوں کی اشکال بنی ہوئی ہیں۔ خواتین کے کچھ مجسّمے بھی ملے ہیں، جن کے پورے بازوئوں میں چُوڑیاں، گلے میں منکوں کے ہار اور پازیب نمایاں طور پر دیکھے جاسکتے ہیں، جو آج بھی چولستان اور تھر کی خواتین کا عام فیشن ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے نوادرات میوزیم کی زینت ہیں، جن میں مٹّی کے برتن، گول پتھر، بیل گاڑی کا ماڈل، کشتی، زیورات، قیمتی پتھر، گندم کے دانے، کھجور کی گٹھلیاں،لوہے کی میخیں، ہتھیار، سِل بٹّا، باٹ اور پیمانے، مچھلی پکڑنے کا کانٹا، مٹکے، گھڑے اورانسانی اور حیوانی ہڈیاں وغیرہ نمایاں ہیں۔

صبح سے شام تک اس شہر کی قدیم تہذیب سے آشنائی اور نادر و نایاب اشیاء سمیت بہت کچھ دیکھ چکے تھے، لیکن اب بھی بہت کچھ دیکھنا باقی تھا، مگر وقت کی کمی کے باعث مزید رکنا بھی ممکن نہ تھا کہ شام کے سائے گہرے ہوچلے تھے، لہٰذا واپسی کی ٹھانی۔ گائیڈ کا شکریہ ادا کیا اور اپنے میزبان کے ساتھ واپس لاڑکانہ شہر آئے، تو گڑھی خدا بخش میں بھٹو خاندان کی قبروں پرحاضری بھی ضروری سمجھی اور فاتحہ خوانی کے بعد ہی واپس گھر روانہ ہوئے۔

تازہ ترین