• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر : سیمسن جاوید۔۔ ۔ لندن
سیالکوٹ کے سانحہ سے دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہوئی ایسےواقعات کا تدارک اسی طرح ممکن ہے کہ اس سانحہ کے مجرموں کوقرار واقعی سزا دے کر تمام دنیا کے سامنے سر خر و ہوا جائے اور یہ ثابت کیا جائے کہ پاکستان تشد د پسندی کو روکنے میں واقعی سنجیدہ ہے، وزیر اعظم نے اس بات کا اعادہ توکیا ہے کہ مجرموں کو سخت سزا دی جائے گی،ان کے ساتھ سیاسی و مذہبی جماعتوں،علماء کرام، حکومت،فوج کی طرف سے بھی شدید ردعمل سامنے آیاہے،مرکزی ماسٹر مائنڈمجرم اور کئی دوسرے مجرموں کو پکڑلیا گیا ہے،راجکو انڈسٹری کے پروڈکشن مینجر سری لنکن شہر ی کو بچانے کی کوشش کرنے والے عدنان ملک کی جرأت کو سلام ،ان کی جرأت کے اعتراف میں تمغہ شجاعت سے نوازنا حکومت کا ایک اچھا قدم ہے، عدنان ملک کے دانشمندانہ فیصلے کو سلیوٹ کہ ا نہوں نے اپنا ایوارڈ پریانتھا کمار کے بچوں اور سری لنکا کے نام کردیا ،پاکستان میں ہونے والا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں جس میں توہین کاالزام لگا کر کسی کو موت کے گھاٹ اتار ا گیا ہو،اس سے پہلے ایک مسیحی نوجوان ہریش مسیح کو سیالکوٹ جیل میں قتل کردیاگیا تھا، ۔پورے پاکستان میں ایسے واقعات کی بہت سی مثالیں موجودہیں،عبادت گاہوں پر خودکش حملے ہوئے ،مختلف مسالک کے لوگوں کو کئی بار نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں ہزار وں بے گناہ موت کی بھینٹ چڑھ گئے،المناک واقعات کا یہ سلسلہ ختم نہیں ہونےپا رہا،یہ پہلا موقع ہے کہ سری لنکن شہری کے زندہ جلانے پر عوام بلکہ ہر طبقہ ہائے کی طرف سے شدید ردِعمل دیکھنے میں آیا ہے، واقعہ پر انصاف تو اسی صورت ممکن ہو سکتا ہے کہ ماضی کو فراموش کرتے ہوئے ایسے واقعات پھرنہ دھرائے جائیں اورمذہبی تشدد پسندی کی روک تھام کیلئے قانون بنائے جائیں تاکہ اس کی جڑ کو ختم کیا جائے جو ملک کیلئے بدنامی، ذلت اور نقصان کا باعث ہے۔پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کاتصورِپاکستان سالمیت، بہتر فلاحی معاشرہ، باہمی بھائی چارہ اور اخوت تھا۔انہوں نے کہا تھا کہ مذہب ہر شخص کا اپنافعل ہے،مذہب کا حکومتی امور سے کوئی تعلق نہیں اور پاکستان میں ہر کسی کو اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کی مکمل آزادی ہوگی،یوں ہر آنے والے حکمران نے چاہے وہ عوامی تھے یا فوجی ، انہوں نے مذہب کا سہارا لیا ، حقائق یہ ہیں کہ کسی بھی حکومت نے مذہبی انتہا پسندی اور مذہبی تشدد کے خاتمے کے لئے کوئی سنجیدہ اقدام نہیں اٹھائے،اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہر آنے والی حکومت میں مذہبی و سیاسی بنیاد پرستوں کا غلبہ رہتاہے ۔اسلامو فوبیا کی رٹ نے بنیاد پرستوں کے حوصلے بلند کرنے میں اہم کردار ادا کیا ،ایسے شر پسند عناصرجو جھوٹے الزام لگاتے ہیں جو لوگوں کو جذباتی طورپر اکساتے ہیں اورانہیں قانون اپنے ہاتھ میں لینے پر ابھارتے ہیں اور انہیں سزا نہیں ملتی،اسکے برعکس مذہبی حلقوں میں انہیں ہیروبنا دیا جاتا ہے،یہی وجہ ہے کہ لوگ قانون اپنے ہاتھ میں لے کر خود ہی الزام زدہ کی موت کا فیصلہ کر دیتے ہیں۔پاکستان کب تک دنیا کے آگے جوابدہ ہوتا رہے گا اور کب تک پاکستانیوں کی نظریں دوسروں کے سامنے جھکی رہیں گی۔
تازہ ترین