گوادر زمانہ قدیم سے فاتحین کا مرکزِ نگاہ رہا ہے۔ 325 قبل از مسیح میں سکندرِ اعظم نے یہ علاقہ اتفاقاً دریافت کیا۔
1775میں مسقط کے حکمرانوں نے خان آف قلات سے یہ علاقہ مستعار لیا۔ 1947کے بعد سے حکومتِ پاکستان کی طرف سے گوادر کے حصول کی کشمکش جاری رہی۔
طویل اور اعصاب شکن مذاکرات کے بعد 8 ستمبر 1958کو گوادر پاکستان کا حصہ بنا۔ اس مقصد کیلئے 3ملین ڈالر کی رقم ادا کی گئی۔ اِس خطیر رقم کے عوض 2400مربع میل یعنی 15لاکھ ایکڑ پاکستان کی حدود میں شامل ہوئے۔ 2002میں گوادر میں پورٹ بنانے کے منصوبے کا آغاز ہوا۔
سی پیک نے گوادر کی اہمیت کئی گنا بڑھا دی۔ اب کاشغر سے لے کر گوادر تک اقتصادی راہداری کا یہ ایک اہم ترین مقام ہے تاہم اِن دنوں گوادر سے تعلق رکھنے والے ہزاروں شہری گزشتہ ایک ماہ سے سڑکوں پر ہیں۔ اُن کے بھرپور مظاہروں سے یوں لگتا ہے کہ جیسے بلوچستان میں ایک خاموش انقلاب انگڑائی لے رہا ہے۔
بلوچستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ خواتین نے ایک بھرپور احتجاجی ریلی نکالی۔ اِس ریلی میں لگائے جانے والے نعرے حکمرانوں کی توجہ کے طالب ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ انہیں بھی وہ حقوق حاصل ہوں جو لاہور اور اسلام آباد کے شہریوں کو حاصل ہیں،انہیں بھی وہ سہولتیں فراہم کی جائیں جو کراچی کے شہریوں کو حاصل ہیں۔ انہیں بھی وہی عزت و احترام دیا جائے جو پنجاب اور سندھ کے دیگر شہریوں کو نصیب ہے۔
گوادر کی خواتین اور حضرات کے مشترکہ احتجاجی جلوسوں نے بلوچستان کے سیاسی پنڈتوں کو حیران کرکے رکھ دیا ہے۔ حکومت نے حسبِ معمول اسے محض انتظامی مسئلہ جانا۔ ’’گوادر کو حق دو‘‘ کی تحریک کے رہنماؤں کیخلاف مقدمات درج کیے گئے لیکن وہ اِن مقدمات کی پروا کیے بغیر اپنے حقوق کے حصول کیلئے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
بلوچستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ عوام نے پُرجوش مگر پُرامن انداز میں اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کا آغاز کیا ہے۔ امورِ حکومت کی انجام دہی میں حکومت نے جس نااہلی کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں، اپوزیشن نے غیرذمہ داری کا مظاہرہ کرنے میں حکومت کو بھی پچھاڑ دیا ہے۔
اپوزیشن جماعتوں نے اجتماعی بےحسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلوچ عوام کے ساتھ اظہارِ یک جہتی تو درکنار موثر بیان دینا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ یوں لگتا ہے جیسے حکومت کی طرح اپوزیشن کی ترجیحات بھی اپنی ذات سے شروع ہوکر اپنی ذات ہر ختم ہو جاتی ہیں۔
ماضی میں کہا گیا تھا کہ گوادر اس خطے کا دبئی بنے گا لیکن وہ تو ترقی کا پہلا زینہ بھی طے نہ کر سکا۔اگرچہ فوج کی طرف سے کئی قابل ذکر منصوبے شروع کئے گئے،کیڈٹ کالج اور پاک بحریہ کے کالج نے حیران کن تبدیلی کی بنیاد رکھی۔ سی پیک کے تحت سینکڑوں کلومیٹر طویل سڑکیں بنائی گئیں اور فوج کی 11یونٹیں اس کام میں مصروفِ عمل ہیں۔
اِس عمل کے دوران 16فوجیوں نے جامِ شہادت بھی نوش کیا لیکن سول حکومتیں اپنا کردار ادا کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہیں۔ ماضی کی حکومتوں کی طرف سے بتایا گیا تھا کہ گوادر کیلئے ترقی کے نئے دروازے کھلیں گے لیکن پسماندگی نے اپنے ڈیرے ڈالے رکھے۔
گوادر کے عوام کی زندگی سمندر سے جڑی ہوئی ہے، ان کا کاروبار بھی سمندر سے وابستہ ہے۔ پچھلے ایک ماہ سے دھرنوں پر بیٹھے ہوئے گوادر کے نوجوانوں کا سب سے اہم مطالبہ یہ ہے کہ گوادر کے ساحلی علاقوں میں سندھ سے آنے والے ٹرالرز کا داخلہ بند کیا جائے۔
مظاہرین کے مطابق یہ ٹرالرز ایک مافیا کی شکل میں ہیں، یہ مچھیروں کا استحصال کرتے ہیں۔ ان کے غیر فطری طریقہ شکار سے سمندری حیات بھی ختم ہو رہی ہے۔
مظاہرین کے مطابق ٹرالر مافیا کے پاس ایسے جال ہیں جو نہ صرف مچھلیوں کو بڑی تعداد میں پکڑتے ہیں بلکہ وہ مچھلیوں کے انڈے بھی ساتھ لے جاتے ہیں جس سے سمندر میں مچھلیوں کی افزائشِ نسل کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ اب سمندری مچھیرے جب سمندر کا رخ کرتے ہیں تو خالی ہاتھ واپس لوٹتے ہیں۔
گوادر کے عوام کا دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ انہیں سمندر میں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دی جائے اور ٹوکن سسٹم ختم کیا جائے۔ گوادر کے شہریوں کا تیسرا بڑا مطالبہ یہ ہے کہ ایران کے ساتھ سرحد پر جو ٹوکن سسٹم شروع کیا گیا ہے، اسے بھی ختم کیا جائے۔ گوادر کے مختلف علاقوں کے گرد خاردار باڑ لگائی جا رہی، اسے بھی بلوچ عوام اپنی توہین محسوس کرتے ہیں۔
بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جگہ جگہ چیک پوسٹوں پر بلوچ عوام کو شدید تشویش ہے۔ وہ ان چیک پوسٹوں کے خاتمے کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔
گوادر جو سی پیک کا اہم حصہ ہے، ماہرین نے یہ کہا تھا کہ اس سے گوادر کی تقدیر بدل جائے گی لیکن ابھی تک اس کے بنیادی مسائل بھی حل نہیں ہوئے۔ یادش بخیر وزیراعظم پاکستان نے ایک ٹویٹ کے ذریعے نوٹس تو لیا لیکن غالب امکان یہی ہے کہ اس نوٹس کا بھی وہی حشر ہوگا جو چینی، آٹے اور گندم کے نوٹس کا ہوا تھا۔
اسلام آباد اور کوئٹہ میں بیٹھ کر گوادر کی ترقی کے لیے کاغذی منصوبے بنائے جاتے ہیں لیکن وہاں کے عوام کو کوئی پوچھتا ہی نہیں اور یہی اصل خرابی کی بنیاد ہے۔ خدارا گوادر کی آواز سنیں۔