• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تعمیراتی صنعت میں روبوٹ کا بڑھتا استعمال

تیسرے صنعتی انقلاب کے نتیجے میں جہاں انسان نے وہ ترقی پائی ہے، جس کا اس سے قبل سوچنا بھی محال تھا۔ وہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس کے نتیجے میں قدرتی وسائل پر شدید دباؤ بھی آیا ہے۔ اس ترقی کے نتیجے میں قدرتی وسائل کا ناصرف بے دریغ استعمال کیا گیا ہےبلکہ ان وسائل کا ضیاع بھی بے تحاشا کیا گیا ہے۔ صنعتی ترقی کے جن شعبہ جات میں وسائل کا سب سے زیادہ ضیاع ہوتا ہے اور اس سے آلودگی پھیلتی ہے، ان میں تعمیراتی صنعت بھی شامل ہے۔ 

روایتی طریقہ تعمیر جو ابھی تک غالب طور پر رائج ہے، اس میں تعمیراتی وسائل کا بے انتہا ضیاع ہوتا ہے اور یہ آلودگی پھیلانے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اگر توانائی کی کھپت اور زہریلی گیسوں کے اخراج کی بات کریں تو اقوامِ متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق، تعمیرات کا شعبہ دنیا میں 40فیصد توانائی کی کھپت اور کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2) کے اخراج کا ذمہ دار ہے۔

چوتھے صنعتی انقلاب کے بعد ماہرین اب مسائل یعنی تعمیراتی آلودگی اوراس سے زہریلی گیسوں کا اخراج، سے نمٹنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھنے والے محققین کے کنسورشیم کے پاس اس مسئلے کا ایک ہی جواب ہے:روبوٹس کے ساتھ کام کرنا۔ سوئٹزرلینڈ کے نیشنل سینٹرز آف کامپیٹنیس اِ ن ریسرچ (این سی سی آر) کا ڈیجیٹل فیبریکیشن ہاؤس (ڈی فیب ہاؤس) اس تصور کا ایک ثبوت ہے۔ ڈیجیٹل فیبریکیشن کے طریقوں کو اپناتے ہوئے ڈیزائن اور پلان کی گئی یہ دنیا کی اولین قابلِ رہائش عمارت ہے۔

سوئٹزرلینڈ کے شہر زیورخ کے قریب واقع یہ تین منزلہ عمارت توانائی کی بچت کرنے والی دیواروں، تھری ڈی پرنٹڈ چھتوں اور لکڑی کے بیمز پر مشتمل ہے، جسے سائٹ پر روبوٹس اور انٹیلی جنٹ ہوم سسٹم کے ذریعے نصب کیا گیا ہے۔ دو ہزار مربع فٹ سے زائد رقبہ پر محیط اس’ڈی فیب ہاؤس‘ کو ای ٹی ایچ زیورخ یونیورسٹی کے ماہرین کی ٹیم اور اس صنعت سے وابستہ 30شراکت داروں نے چار سال کے عرصے میں مکمل کیا ہے۔ عمارت کی تعمیر میں ساٹھ فی صد کم سیمنٹ استعمال ہوئی ہے۔

اس سلسلے میں میتھیاز کوہلر، جو کہ ڈی فیب تحقیقی ٹیم کے رکن ہیں، اسے آرکیٹیکچر کو دیکھنے کا ایک نیا انداز کہتے ہیں۔ ایک طویل عرصے سے آرکیٹیکٹس کے کام کو عمارتیں ڈیزائن کرنے کے حوالے سے پیش کیا جاتا رہا ہے جبکہ تعمیرات کی تکنیکی خصوصیات کو پس منظر میں ڈال دیا گیا ہے۔ کوہلر کا کہنا ہے کہ یہ اب تیزی سے بدل رہا ہے، ’’اچانک سے آرکیٹیکچر کا مرکز اب یہ ہوگیا ہے کہ رہائش گاہیں تعمیر کرنے میں ہم کس طرح وسائل استعمال کرتے ہیں، یہ بات اہم ہے کہ آپ کس طرح تعمیرات کرتے ہیں‘‘۔

کوہلر بتاتے ہیں کہ تعمیراتی رفتار کے ریکارڈ توڑنا ضروری طور پر مقصد نہیں تھا، ’’بلاشبہ، ہم رفتار اور معیشت میں پیشرفت حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن ہم نے سب سے پہلے معیار کے نظریہ کو برقرار رکھنے کی کوشش کی‘‘۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’آپ چیزوں کو بہت تیز رفتاری کے ساتھ کرسکتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ پائیدار بھی ہوں گی‘‘۔

انسان اور مشین

آٹومیشن کا ذکر ان خدشات کو بہرصورت چھیڑنےکا باعث بنتا ہے کہ روبوٹس، انسانوں کو ان کی نوکریوں سے بے دخل کررہے ہیں۔ البتہ، کوہلر کا ماننا ہے کہ ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا درحقیقت انسانی تخلیق کو اُبھارنے اور کاریگری کی بحالی کو آگے بڑھانے کا باعث بنے گا۔ ’’جیسے کسی کاریگر کی جیب میں آئی فون ہوسکتا ہے، میرا خیال ہے کہ مستقبل کی مشینیں انسان سے کم الگ ہوں گی‘‘۔

یہ کام کس طرح ہوگا؟ کوہلر کہتے ہیں کہ روبوٹس کے ساتھ شراکت میں کام کرنے کا مطلب ہے، مشین پراسیس کے نتائج خود اس بات کا تعین کریں کہ ڈیزائن کس طرح کرنا ہے۔ وہ تجویز کرتے ہیں کہ بجائے اس کے کہ مشینوں پر یہ دباؤ ہو کہ وہ تعمیراتی مراحل میں انسان کی نقل کریں، ڈیجیٹل فیبریکیشن کے ذریعے ایک مکمل طور پر نئی جمالیاتی شناخت حاصل کی جاسکتی ہے۔ ڈی فیب گھر کی سجاوٹی چھت، جسے بڑے سائز کے تھری ڈی سینڈ پرنٹر سے تخلیق کیا گیا ہے، ایسے ہی سجاوٹی امکانات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

اس حوالے سے ڈی فیب ٹیم کے تھری ڈی پرنٹنگ اسپیشلسٹ بینجمن ڈیلنبرگر مزید کہتے ہیں کہ روبوٹس کے ساتھ کام کرنا تعمیراتی کارکنوں کی صحت کی حفاظت کرسکتا ہے۔ ساتھ ہی وہ خبردار کرتے ہیں کہ کسی کو تعمیراتی سائٹ پر کام کرنے کو رومانویت نہیں دینی چاہیے۔ ان کا کہنا ہے، ’’اس طرح کے باہمی تعاون کے سیٹ اَپ رکھنا واقعی سمجھ میں آتا ہے، جہاں روبوٹ اور انسان ایک ساتھ مل کر کام کریں‘‘۔

کوہلر اور ڈیلنبرگر کہتے ہیں کہ، سوئٹزرلینڈ میں تجرباتی ڈھانچے سے آگے بڑھ کر وہ عالمی آرکیٹیکچر اور تعمیراتی شعبے کے ساتھ بات چیت کو فروغ دینے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ انھوں نے اوپن سورس ڈیٹا سیٹ بھی شائع کیے ہیں اور ’’ایک گھر کس طرح تعمیر کیا جائے: ڈیجیٹل عہد میں آرکیٹیکچرل تحقیق‘‘ کے عنوان سے نمائش بھی منعقد کی۔ ’’ ڈی فیب گھر ان افراد کے لیے بھی دلچسپی کا باعث بنے گا، جن کا آرکیٹیکچر اور تعمیراتی شعبے سے تعلق نہیں۔ آرکیٹیکچر ہمیشہ ایک عوامی منصوبہ ہوتا ہے‘‘، ڈیلنبرگر کہتے ہیں۔

تازہ ترین